Kitabain Dam Tor Rahi Hain
کتابیں دم توڑ رہی ہیں
کتابیں دم توڑ رہی ہیں !!! جی ہا ں آپ نے بالکل ٹھیک سنا۔ وہ کتابیں جو ہمارے قائدین، اکابرین اور مفکرین کی زندگیوں کا خلاصہ ہیں اور ہمارے لئے مشعل راہ ہیں، آج محض الماریوں کی زینت بن چکی ہیں۔ ہے کوئی جو ان کتابوں کی حالت زار کا جائزہ لے سکے؟ ہے کوئی جو کتاب دشمن عناصر کا جائزہ لے سکے؟ اس امید کے ساتھ کہ شاید کوئی میری آواز سن لے، زیر بحث عنوان کو آگے لئے چلتا ہوں۔
شاید کوئی بندہ خدا سن لے
صحرا میں اذاں دے رہا ہوں میں
اگرچہ آج انسان ترقی کی دوڑ میں بہت آگے تک نکل چکا ہے لیکن کتابوں کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انسان نے آج تک ترقی کی جتنی منازل طے کی ہیں وہ کتابوں کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ کتابیں ایک ایسا قیمتی سرمایہ ہیں کہ جن کی اہمیت و افادیت ہر دور میں ایسے ہی بر قرار رہے گی۔ کتابیں انسان کی شخصیت کو نکھارتی ہیں اسے معاشرے میں ایک با مقصد زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی سکھاتی ہیں۔ کتابیں ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی ھدایت کرتی ہیں۔ اسکے ذریعے ہم ماضی کے سبق آموز واقعات اپنی آئندہ زندگی کے لئے مشعل راہ بناتے ہیں۔ اگرچہ آج ہمارے درمیان ارسطو، سقراط، افلاطون، بو علی سینا، غزالی، اقبال اور قائد اعظم جیسے مفکر اور اہل دانش موجود نہیں ہیں تاہم انکے افکار وخیالات پر مبنی جو کتابیں ہمارے کتب خانوں میں موجود ہیں، انکے مطالعہ سے ہم اپنی کمزوریوں سے آگاہ ہو کر اپنی فکر کو روشنی بخش سکتے ہیں۔
اچھی کتابیں اچھے دوست کی طرح ہوتی ہیں۔ جب انسان کبھی اپنی زندگی میں ناکام ہوتا ہے یا نا امید ہوتا ہے تو یہ ایک اچھے دوست کی طرح اسکی ہمت بندھاتی ہیں۔ اسکے الفاظ اپنے قاری کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ اُسے زندگی کے واقعات سے سیکھنے کا درس دیتے ہیں۔ اسے ایک پُر وقار اور با مقصد زندگی گزارنے کا جذبہ دیتے ہیں۔ میرا یہ ماننا ہے کہ "کتابیں بولتی ہیں"۔ یہ اپنے قاری سے گفتگو کرتی ہیں۔ کتابیں اپنے قاری کو خالی دامن نہیں رکھتیں۔ یہ علم و حکمت کی شمع اسکے دل میں روشن کرتی ہیں اور علم کی پیاس بجھاتی ہیں۔ کوئی بندہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے کسی اچھی کتاب کا مطالعہ کیا اور اسے کچھ حاصل نہ ہوا۔ میں نے بذات خود کتابوں کے مطالعہ سے بہت کچھ سیکھا ہے، اب وہ سیکھنا کسی بھی طرح سے ہو سکتا ہے۔ ہر بندہ ایک بات کو ایک طریقہ سے نہیں سیکھتا۔ ہر شخص کے سیکھنے کا مختلف انداز ہوتا ہے۔ بہر حال یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔ میرا مطالعہ اتنا وسیع نہیں لیکن جہاں تک میرا علم ہے میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہو ں کہ کتابیں اپنے قاری کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتی ہیں۔
کتابوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کسی قوم کو تباہ کرنے کے لئے سب سے پہلا وار اسکے علمی ذخائر پر کیا جاتا ہے۔ سقوط بغداد کے دوران بھی مسلمانوں کی علمی میراث فرات میں بہا دی گئی تھی اور نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان آج تک اپنا کھویا ہوا وقار حاصل نہ کر سکے۔ ہم آج کتابوں سے منہ موڑ چکے ہیں اس بات کا اندازہ اس تحقیق سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جن دنیا کے اٹھائیس ممالک میں سب سے زیادہ کتابیں پڑھی جا تی ہیں، ان میں ایک بھی مسلم ملک شامل نہیں۔ آئیے ایک نظر ان اسباب پر بھی ڈالیں جنکی وجہ سے ہم کتابوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ میرے ذاتی مشاہدہ کے مطابق کتابوں سے دوری کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا کا غیر ضروری استعمال ہے۔ آج سوشل میڈیا ہمارے دل کا چین اور روح کی ٹھنڈک بن چکا ہے۔ اس کے فیوض و برکات سے مردو زن یکساں طور پر مستفید ہو رہے ہیں۔ فیس بک کو اول درجہ حاصل ہے۔ کیا بوڑھا، کیاجوان، ہر کوئی اسکے سحر میں مبتلا ہے۔ انسان جن چیزوں کو زمینوں اور آسمانوں میں تلاش کرتا ہے وہ اسے با آسانی فیس بک پر مل جاتی ہیں۔ ہمارے زیادہ تر نوجوان بھی آج کل "فنا فی الفیس بک" رہتے ہیں۔
اسکے سوا دنیا میں رکھا ہی کیا ہے۔ مرغی انڈہ دے یا بکری بچہ، فیس بک پر پوسٹ کرنا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ پہلے سنا تھا کہ آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے لیکن آج کل وہ اپنے لگائے گئے سٹیٹس سے پہچانا جاتا ہے۔ لیکن کتابوں سے دوری کا ذمہ دار صرف سوشل میڈیا کو ٹھہرانا بھی زیادتی ہوگی۔ کتابوں سے دوری کی ایک وجہ کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی ہیں۔ بعض طلباء مہنگی کتابیں خریدنے کے قابل نہیں ہوتے اور وہ کتابوں کے مطالعہ سے محروم رہتے ہیں۔ یہ بھی ایک توجہ طلب پہلو ہے۔ اور انتہائی معذرت سے کہنا پڑ رہا ہے کہ کتابوں سے دوری کے ذمہ دار کچھ اساتذہ کرام بھی ہیں۔ یہ وہ اساتذہ ہیں جو بچوں کو کتابوں کی بجائے اپنے "نوٹس" پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں اور اس نوٹس سسٹم کی وجہ سے بچوں کا کتابوں سے دور دور تک کوئی رشتہ نہیں رہتا۔ وہ صرف نوٹس میں لکھے گئے چند اہم سوال یاد کر کے امتحان پاس کرتے ہیں۔ تو آپ ہی بتائیں ایسے طلباء جو اپنی نصابی کتابیں ہی پڑھنے کے عادی نہ ہو ں وہ دوسری کتابیں کیسے پڑھیں گے۔ تو یہ وہ عناصر ہیں جنکی وجہ سے آج ہمارا رشتہ کتابوں سے کمزور ہو چکا ہے۔
ہونا یہ چائیے کہ نوٹس سسٹم کا خاتمہ کر کے طلباء کو مطالعہ کا عادی بنایا جائے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو قومیں دنیا میں اپنی جگہ بنانا چاہتی ہیں وہ کتاب سے رشتہ استوار رکھتی ہیں، انکی ترویج و اشاعت کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرتی ہیں۔ مطالعہ کتب کے فروغ کی انفرادی و اجتماعی ضرورت کو سمجھا جانا چائیے۔ کتاب دوست ماحول کو فروغ دینے کے لئے کتب میلے سرکاری سطح پر منعقد کئے جانے چاہئیں۔ اور اس حوالہ سے ایک خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ حال ہی میں ایکسپو سنٹر لاہور میں ایک بک فئیر منعقد کیا گیا۔ اگرچہ اس میں نوجوانوں کی شمولیت کی تعداد خاصی کم رہی۔ میں اپنے اس کالم کے توسط سے اپنے نوجوانوں اور نئی نسل کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ خدارا کتابوں سے رشتہ استوا ر کریں اور سوشل میڈیا کے غیر ضروری استعمال سے گریز کریں ورنہ کتاب سے دور رہنے والے نوجوان نہ تو ماضی سے آشنا ہوتے ہیں اور نہ ہی مستقبل کے لئے کارآمد۔ کتب خانے جتنے فعال ہوں گے تعلیمی ادارے بھی اسی قدر تعلیم و تحقیق میں فعال ہونگے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا۔ خدا ہمارا حامی وناصر ہو۔