Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubina Ali
  4. Bint e Hawa Ke Naam (1)

Bint e Hawa Ke Naam (1)

بنت ِحوا کے نام (1)

مارچ 8، خواتین کا عالمی دن، جس دن خواتین کے حقوق کی بات کی جاتی ہے۔ گلی کوچوں میں، سڑکوں پر خواتین کی نام نہاد علمبردار عورتیں ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے آواز بلند کرتی ہیں۔ مگر آج ایک بنتِ حوا ایسی علمبرداروں کے ہونے پر شرمندہ ہے۔ کیونکہ عورت کے وقار اور تشخص کو کبھی کسی ابنِ آدم نے اتنا پامال نہیں کیا جتنا انہوں نے کر دیا ہے۔ میرا جسم میری مرضی، عورت بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں، اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں پر باندھو جیسے نعروں نے عورتوں کو آزاد اور خود مختار کیا ہو یا نہ کیا ہو، البتہ شرمسار ضرور کر دیا ہے۔

میرا جسم میری مرضی والوں سے بس ایک سوال پوچھنا چاہوں گی، اس جسم کا کون سا حصہ، کون سا عضو یا کون سا خلیہ آپ کا تخلیق کردہ ہے؟ چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ آپ کا جسم ہے، اس پر آپ کی مرضی ہے تو پھر نگاہیں بھی تو مرد کی اپنی ہیں، انہوں نے کسی سے ادھار تو نہیں لیں جو آپ ان پر " گھورنا بند کرو" جیسے پلے کارڈ اٹھا کر پابندی لگا رہی ہیں۔ آخر کو ہم برابری کی قائل ہیں تو جب ہماری مرضی ہو سکتی ہے تو مردوں کی کیوں نہیں؟ عورتوں کی اس سوچ کے پیچھے قصوروار کون ہے؟ قصوروار یہ معاشرہ ہے جو اسلامی معاشرے کے بجائے مرد کا معاشرہ بن گیا ہے۔ جہاں مرد آزاد اور بے باک ہو گیا لیکن عورت محصور۔

عورت کے لیے اس کی ڈھال، اس کے پردے کو اس کی قید بنا دیا گیا۔ ارشادِ ربانی ہے " مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے۔ (سورة النور: 30)۔ " یہ آیت مرد کی بے باک نظروں کو لگام ڈالنے کے لئے کافی ہے۔ ابو الاعلی مودودی نے اس آیت کی نہایت خوبصورت اور جامع تفسیر بیان کی ہے، جسے پڑھ کے ہر قسم کے شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے۔ حضرت بُرَیدَہ کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا " اے علیؓ ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنا۔ پہلی نظر تو معاف ہے مگر دوسری معاف نہیں۔ (احمد، ترمذی، ابو داؤد، دارمی)۔

" حضرت جریر بن عبد اللہ بَجَلِی کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے پوچھا اچانک نگاہ پڑ جائے تو کیا کروں؟ فرمایا فوراً نگاہ پھیر لو، یا نیچی کر لو۔ (مسلم، احمد، ترمذی، ابو داؤد، نسائی)۔ عبد اللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کو چھوڑ دے گا میں اس کے بدلے اسے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا (طبرانی)۔

مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کے بعد اللہ نے عورتوں کو حکم دیا کہ " مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے۔ (سورة النور: 31)۔

راہ چلتی عورتوں کو تنگ کرنا، گھورنا، آوازیں کسنا زمانہ جاہلیت کے مردوں کا طریقہ تھا۔ اسی لیے با ضرورت گھر سے نکلتے وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ " اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں۔ اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورة الأحزاب: 59)۔ " مگر افسوس کہ آج کل کے مسلمانوں نے بھی اسی طریقے کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ فلم ایکٹر ان لاء میں اسی طرز ِعمل کو وجہ بنا کر پردے کی اہمیت کو بے بنیاد ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

شاید اسی لیے اللہ تعالی ٰنے پہلے مرد کو نظریں نیچے رکھنے کی تلقین کی اور پھر عورتوں کے لیے پردے کا اہتمام کیا۔ لیکن افسوس کہ مرد کے اس رویے نے عورت کی ڈھال کو، اس کے پردے کو اس کے لیے قید بنا دیا۔ اگر مرد کی نظریں بحکم خدا ہو جائیں گی تو اس اسلامی ملک میں کوئی طوائف خانہ آباد نہیں رہے گا۔ بازار حسن کے رونقیں مانند پڑ جائیں گی۔ کوئی بنت ِحوا بے آبرو نہ ہو گی۔ لیکن پھر نہایت افسوس کے ساتھ عرض کروں گی کہ ہمارے لیے باعث عزت صرف ہمارے گھر کی عورت ہے جسے ہم باہر موجود بھیڑیوں سے بچانا چاہتے ہیں۔ پر صد افسوس کہ باہر کی عورت کے لیے وہ بھیڑیا خود بن جاتے ہیں۔

لیکن شاید اس طرز عمل کے پیچھے بھی قصور عورت کا ہے۔ عورت نے کبھی مرد کو عورت کی عزت کرنا سکھائی ہی نہیں۔ مرد کے لیے عورت بحیثیت ماں، بہن، بیٹی، بیوی تو قابل احترام ہے لیکن بحیثیت عورت صرف لذت کا سامان۔ یہ گھر میں موجود عورت کا فرض ہے کہ وہ بتائے گھر کے باہر موجود عورت بھی اتنی ہی قابل عزت، قابل احترام ہے جتنی اس کے گھر کی۔ میڈیا کے اس دور میں جہاں کچھ مخفی نہیں رہا گھر والوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ان کی حدود سے آگاہ کریں جو کسی اور نے نہیں بلکہ ان کے مالک نے متعین کی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورة النور اور سورة الأحزاب میں واضح طور پر عورت کو اس کے رہن سہن کے ڈھنگ بتا دئیے جن پر عمل کرنا مسلمان عورت کا فرض ہے۔ ہاں! اگر عورت کو یہ احکام قید لگتے ہیں تو جائے اور جا کر موازنہ کرے اسلام میں عورت کے مقام کا اور پھر اس آزاد معاشرے میں عورت کی وقعت کا، جس کی رنگینیاں اس کی آنکھوں کو خیرہ اور عقل کو اندھا کر رہی ہیں۔ اگر مرد اور عورت دونوں بحکم خدا اپنے حدود کے پابند ہو جائیں گے تو ذیادتی اور زنا کے بڑھتے واقعات کم ہونے لگیں گے۔ میرا جسم میری مرضی، اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں پر باندھو جیسی سطحی سوچ دم توڑنے لگیں گی۔ ورنہ وہی ہو گا جس کا شکار یہ معاشرہ ابھی ہے۔

Check Also

Bushra Bibi Hum Tumhare Sath Hain

By Gul Bakhshalvi