Thanday Mard Ke Bistar Par Tarapti Garam Aurat
ٹھنڈے مرد کے بستر پر تڑپتی گرم عورت
پھر اُس نے پورن کلپ بھیج کر میسج کیا، اسے دیکھو، یہ طریقہ عورتوں کو زیادہ اٹریکٹ کرتا ہے۔ میں نے کلپ دیکھا، جس پوز میں خاتون لیٹی ہوئی تھی وہ ہمارے ہاں وائرل نہیں ہے۔ ایک خوبصورت نوجوان اُس خاتون کی شرمگاہ کی بیرونی جلد پر اپنے نرم ہاتھوں سے مساج کر رہا تھا۔ کلپ دیکھ کر منہ میں پانی بھر آیا، جی للچانے لگا، بے ساختہ زبان سے واہ نکلا۔ کیا شاندار مساج کا طریقہ ہے۔ ہمارے ہاں تو اس طرح وجائنا اور عضوِ تناسل کو نرم نرم ہاتھوں سے مساج کرنے کی روایت تو دور کبھی اس عمل کا تصور بھی نہیں کیا جاتا۔
مرد کو بس پانی نکالنےکی پڑی ہوتی ہے، مرد بس یہ چاہتا ہےکہ عورت کوڈی ہونے سے پہلے میں شرمگاہ میں عضو تناسل ڈال دوں۔ عورت ابھی سیکس کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوپاتی کہ مرد خونخار درندے کی طرح دبوچ لیتا ہے۔ اپنی مرضی کے پوز میں جسم کی گٹھڑی سی بنا کر آناً فاناً دو، چار اسٹروک لگاتا ہے اور فارغ ہو جاتا ہے۔ بستر پر یوں گرتا ہے جیسے جان نکل گئی ہو۔
تو کیا یہ طریقہ درست نہیں ہے؟ بالکل نہیں ہے۔ اب تو سیکس کرنے کے ہزاروں طریقے سوشل میڈیا پر دستیاب ہیں۔ مرد حضرات نے خود تو سب کچھ سیکھ رکھا ہے لیکن عورت کو سیکس کے حوالے سے گائیڈ کیا، نہ کبھی ضرورت محسوس کی۔
دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے برصغیر کے مرد سیکس کے معاملے میں بالکل بُدھو اور جاہل ہیں۔ انھیں بس یہ بتایا گیا ہےکہ عورت کی چیخیں کیسی نکلوانی ہیں، اسے تڑپتا، بلکتا، معافی مانگتے ہوئے نیچے سے نکل کر بھاگتا دیکھ کر خوش ہونا سکھایا گیا ہے۔
ہمارے معاشرے میں یہ تصور عام پایا جاتا ہے کہ عورت بہت گرم ہوتی ہے اور ہر وقت گرم رہتی ہے بس ہاتھ لگانے کی دیر ہے، فوراً تیار ہوجاتی ہے۔ مرد بے چارہ ٹھنڈا برف کا گولا ہے جسے گرم ہونے کے لیے بہت تیاری کرنا پڑتی ہے۔
یہ بات بالکل غلط ہے، میں تو ایسے ٹھنڈے مردوں میں خود کو شمار نہیں کرتا۔ میں تمہاری بات نہیں کر رہی، مجھے کیا علم کہ تم ٹھنڈے ہو، یا گرم، یہ تو تمہارے ساتھ سیکس کرنے والی خاتون بتا سکتی ہے کہ تم کتنے پانی میں ہو۔ اچھا، تم اپنی بات جاری رکھو۔ ہمارا معاشرہ بہت ظالم ہے۔ یہاں عورت کے جنسی جذبات و کیفیات کو کبھی سمجھا ہی نہیں گیا۔ عورت سے سیکس کرتے ہوئے یہ پوچھنا گوارا، نہیں جاتا کہ تمہارا جی چاہ رہا ہے تو ہم کر لیتے ہیں، تمہارا موڈ ہے یا نہیں۔
بیٹھے بیٹھے خیال آیا، یا، تناؤ سا محسوس ہوا۔ بغیر سوچے سمجھے کہ عورت ذہنی طور پر کس سوچ، فکر، پریشانی یا کیفیت میں مبتلا ہے۔ ذرا یہاں آنا، اس کے بعد دروازہ بند۔ ٹھک، ٹھک، ٹھک، پھر ٹُھس۔ دروازہ کُھلتا ہے، میاں غسل خانے چلا جاتا ہے۔ عورت بے چاری حیران و پریشان کپڑے سیدھے کرتی ہوئی سوچ رہی ہوتی ہےکہ یہ بندہ کیا چیز ہے۔ دل کرتا ہے اینٹ مار کر اس کا سر پھوڑ دوں۔ عجیب آدمی ہے، یخ ٹھنڈے وجود میں گرم راڈ، ڈال کر چھید کرنے سے کون سی تسکین مل گئی۔ ان مردوں کو یہ بھی نہیں پتہ کہ عورت کی رضا مندی کے بغیر سیکس کرتے ہوئے عورت پہلے تو بالکل رسپانس نہیں دیتی۔ فور پلے کے بعد مرد جب شرمگاہ میں عضو تناسل ڈال کر تیزی سے اسٹروک لگاتا ہے تو شرمگاہ فطری طور پر پانی چھوڑتی ہے جس سے عورت کا جسم سیکس کے موڈ میں آتا ہے۔
مصیبت یہ ہے کہ مرد پانچ دس اسٹروک کے بعد فارغ ہو جاتا ہے جبکہ عورت گرم ہونے کے بعد چاہتی ہے کہ وہ بھی آرگیزم حاصل کر لے یعنی جنسی تلذذ کی تسکین کو، انجوائے کرلے۔ عورت کی باری آنے تک مرد صاحب اُٹھ کر غسل خانے جا چکا ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں عورت کا دل چاہتا ہے کہ وہ خودکشی کر لے یا پھر اس بندے کے عضو تناسل کو دانتوں سے چبا کر نوچ ڈالے جس میں اتنی سکت نہیں کہ دو، چار منٹ کھڑا رہ سکے۔
یہ مسئلہ تو پوری دُنیا کے دو تہائی مردوں کا ہے یعنی "پری میچور ای جیکولیشن" یعنی "سُرعتِ انزال" یعنی جلدی فارغ ہو جانا۔ برصغیر میں عام طور پر مرد کی فطری ٹائمنگ بیس سے پنتیس اسٹروک ہے، اس کے زیادہ دیر مرد نہیں چل سکتا۔ ارے، میں کون سا، یہ کہہ رہی ہوں کہ دیہاڑی پر لگ جائے۔ میں یہ نہیں چاہتی کہ انڈین گانے کے مصداق صبح سے لے کر شام تک، شام سے لے کر صبح تک، مجھے پیار کرو، مجھ پر چڑھے رہو، میری جان نہ چھوڑو، میری مت مار، ڈالو، مجھے ہلکان کر ڈالو۔
ہا ہا ہا۔ آپ بہت مذاقیہ ہیں۔ نہیں، یار، حالات نے ایسا بنا ڈالا ہے۔ مرد جب کسی کام کا نہ ہو تو عورت بے چاری اپنی خواہشوں کو دبا کر سمجھوتے کی قبر میں پاؤں ڈالے اُداسی کے گیت سنتی ہے، تنہا بیٹھ کر شادی سے پہلے کی بے فکر زندگی کو یاد کرکے روتی ہے۔ یہ تو ہے، نامرد پلے پڑ جائے تو انسان جیتے جی قبر میں اُتر جاتا ہے۔
وہ نامرد نہیں ہے، ٹھیک ٹھاک مرد ہے۔ پھر کیا مسئلہ ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ اُس کا کھڑا ہونے سے لٹک جاتا ہے۔ اگر وہ آپ کی جنسی خواہش پورا کرنے میں ناکام ہے تو اُسے کسی حکیم کو دکھاؤ، اس مرض کا علاج موجود ہے۔ یہی تو مسئلہ ہے اُس کے ساتھ۔ شادی سے پہلے کسی حکیم کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔
تین مہینے کا کورس لے کر آیا، بغیر کسی سے مشورہ کیے ساری گولیاں پھانک ڈالیں، معدہ خراب ہونے سے یرقان سمیت جانے کیا کیا ہوگیا۔ پتہ نہیں حکیم صاحب نے گولیوں میں کیا ڈالا تھا کہ بے چارےکا بھٹہ ہی بیٹھ گیا۔
سیکس کرنے سے پہلے آدھ گھنٹہ مجھے اپنے ہاتھوں سے عضو تناسل کا مساج کرنا پڑتا ہے پھر کہیں جا کر ذرا سا تناؤ پیدا ہوتا ہے۔ تناؤ پیدا ہوتے ہی فوراً، اندر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے، دو، چار، اسٹروک میں فارغ ہو جاتا ہے۔ میں سینکڑوں مرتبہ سمجھا چکی ہوں، اللہ کے بندے! اس طرح نہ کیا کرو، خود مزہ لے کر مجھے جس تکلیف میں پھانس کر اُٹھ جاتے ہو۔ تمہیں نہیں پتہ، اس وقت میرا کیا حال ہوتا ہے۔
عورت جب گرم ہو جاتی ہے، پاگل ہو جاتی ہے، اسے کچھ ہوش نہیں رہتا۔ وہ مرد کو بھینچ بھینچ کر اپنی طرف کھیچنتی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ عضوِ تناسل سمیت اس کے جسم میں داخل ہو جائے، اس کا انگ انگ پھڑک اُٹھے اور وہ آرگیزم کو بار بار حاصل کرے اور جنسی تسکین کی لذت کے خمار میں مدہوش ہو جائے۔
آپ نے کبھی آرگیزم حاصل کیا ہے؟ یہی تو رونا ہے۔ مطلب؟ بتاتی ہوں۔ پہلے پہل تو عضو تناسل کے مساج سے تناؤ پیدا ہو جاتا تھا۔ اب یہ کیفیت ہے کہ نا چاہتے ہوئے عضو تناسل کو منہ میں ڈال کر تناؤ پیدا کرنا پڑتا ہے۔ یہ کام مجھے اتنا گندہ اور زہر لگتا ہے لیکن کیا کروں۔ پورن وڈیو لگا کر مجھے دکھاتا ہے اور کہتا ہے دیکھو، یہ بھی تو عورتیں ہیں، یہ بھی تو ایسے ہی کرتی ہیں، تمہیں اس سے بیزاری کیوں ہوتی ہے۔
ایک دن تنگ آکر میں نے کہہ دیا کہ پہلے تم میری وجائنا کا اسی طرح مساج کرو، پھر میں بھی کر لوں گی۔ اُس نے زور دار تھپڑ میرے گال پر رسید کیا۔ میرا تو جبڑا ہل گیا، درد سے منہ سوج گیا۔ میں غصے میں بستر سے اُٹھی اور باہر جا کر ٹیرس پر کھڑی ہو کر دیر تک اپنی بد نصیبی پر روتی رہی۔ کئی ہفتے اسی کیفیت میں گزر گئے۔
شدید یاسیت کے عالم میں اماں کی بیماری کی خیریت کا بہانہ کرکے اماں کی طرف گئی۔ اماں سے اس واقعے کا ذکر کیا۔ پرانے وقت کی بوڑھی خاتون، سُن کر توبہ توبہ کر اُٹھی۔ شرم سے منہ پر دوپٹا، اُوڑھ کر کہنے لگی بیٹی! اگر مجبوری نہ ہوتی تو میں تمہیں کبھی اس جانور سے نہ بیاہتی۔ کیا کرتی، میری عزت داؤ پر لگی ہوئی تھی، تمہارا، ابا، بیچ رستے چھوڑ کر چلا گیا۔ تمہارے سُسر نے ہمیں پناہ دی تھی اور ہماری عزتوں کو سر بازار لُٹنے سے بچایا تھا۔ تمہارے سُسر کا ہم پر احسان ہے وہ تو شریف آدمی ہے، یہ پتہ نہیں کس پر گیا ہے۔ میں اِسے حرام زادہ بھی نہیں کہ سکتی لیکن حرکتیں اس کی حرامیوں والی ہی ہیں۔
بیٹی! اگر وہ جانور بن گیا ہے، تو کیا ہوا، ہمیں تو انسان ہی رہنا چاہیے، ہم احسان فراموش نہیں ہوسکتے۔ میں جانتی ہوں، ہمارا مذہب اس عمل کی ہرگز اجازت نہیں دیتا اور معاشرہ بھی اسے بُرا سمجھتا ہے لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں، ہم مجبور اور بے بس ہیں۔ تم کسی طرح مینج کر لیا کرو۔
یہ مجبوری کیسے پیش آئی؟ اس پر پھر کسی دن بات کریں گے۔ ٹھیک ہے۔ کتنی دیر ہوگئی شادی کو؟ دس برس گزر چکے ہیں۔ کوئی بچہ وغیرہ۔ بچہ وغیرہ کہاں سے آئے گا۔ کیا مطلب؟ مطلب یہ ہے کہ اُس کا کھڑا ہی نہیں ہوتا تو بچہ کیا آسمان سے ٹپک پڑے گا۔ آپ نے ابھی کہا تو ہے کہ مساج کرنے سے تناؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ جی ہاں۔ تناؤ تو پیدا ہو جاتا ہے لیکن جب وہ شرمگاہ میں عضو تناسل داخل کرتا ہے، وحشی ہو جاتا ہے، اُس سے صبر نہیں ہوتا، پاگلوں کی طرح ہکلاتے ہوئے دو، چار، اسٹروک لگاتا ہے، ٹُھس ہو جاتا ہے۔
تم بتاؤ، ایسے بچہ کیسے ہوگا؟ میڈم! بچہ تو ایسے ہی پیدا ہوتا ہے۔ تم یا تو واقعی معصوم ہو، یا پھر ساری باتیں مجھ سے اُگلوانا چاہتے ہو۔ جو مرضی سمجھ لیں۔ بات یہ ہے کہ میں تو حمل ٹھہرانے کے لیے اُسے تیار کرتی ہوں لیکن وہ ذہنی طور پر اس کام کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا یا پھر جان بوجھ کر ایسا کرتا ہے۔ تناؤ پیدا کرنے کے لیے مجھے ایک گھنٹہ لگتا ہے۔ اس وقت میری ساری توجہ تناؤ کی طرف ہوتی ہے، اپنی طرف نہیں، اس وقت میں ٹھنڈی برف کی ٹکیہ ہوتی ہوں۔
جونہی وہ تناؤ میں آتا ہے، فوراً اندر ڈال دیتا ہے، میں کہتی رہ جاتی ہوں کہ وجائنا کے اوپر تھوڑی دیر، ربنگ کرو، اس کے بعد وجائنا پانی چھوڑے گی، تب اندر، ڈالنا۔ اس طرح میں پوری طرح گرم ہو جاؤں گی اور ہم ایک ہی وقت میں آرگیزم حاصل کریں گے یعنی ایک ہی وقت میں فارغ ہوں گے جبھی ہمارے سپرم ایک ساتھ "بچہ دانی" کے منہ میں جائیں گے اور حمل ٹھہرنے کا چانس ملے گا۔ مگر اُسے بس اپنی پڑی ہوتی ہے۔
کبھی کبھار وہ میری حالت پر ترس بھی کھاتا ہے، بہ دلِ ناخواستہ وہ میری کہی باتوں کے مطابق تناؤ میں آکر وجائنا کے لبوں پر، ربنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہی، پانچ سات سیکنڈ میں فارغ ہو جاتا ہے۔ پھر کہتا ہے، لے لو بچہ۔ غصے میں آکر عضؤ تناسل کو گالیاں بکنے لگتا ہے کہ یہ بہن چود، میری بے عزتی کروانے پر تُلا ہوا ہے۔ ایک، دو، دفعہ تو بے بسی کی اس حالت پر وہ، رو بھی پڑا تھا۔
مُشت زنی کی یہ لت اُسے پڑی کہاں سے؟ پہلے تو یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ اُسے کچھ مسئلہ ہے۔ بار، بار کی ناکامی کے بعد ایک دن بستر پر لیٹے خود ہی بتانے لگا کہ بچپن میں محلے کے ایک دوست نے وی سی آر پر سٹور روم میں چھپ کر ایک فلم دکھائی تھی جس میں دو، ننگے مرد، ایک ننگی عورت سے سیکس کر رہے تھے۔
اس سے پہلے میں نے عورت کو پورا ننگا نہیں دیکھا تھا۔ وہ منظر میرے دل و دماغ میں پیوست ہوگیا۔ میرا عضو تناسل فوراً تناؤ میں آگیا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔ پھر اُس لڑکے نے کہا، دکھاؤ، تمہارا کھڑا ہو کر کتنا بڑا ہوگیا ہے۔ میں شرما گیا۔ اُس نے زبردستی میری شلوار اُتار دی۔ میرے عضو تناسل کو پکڑ کر کہنے لگا، تمہارا تو بہت چھوٹا ہے، میرا، دیکھو گے۔ میں نےکہا، نہیں، مجھے گھر جانا ہے، کہتا، ارے! دیکھ، نا۔
اُس نے شلوار، اُتا رکر اپنا عضو تناسل دکھایا، پھر میرا، ہاتھ پکڑ کر اپنے عضو تناسل پر رکھ لیا۔ کہنے لگا، دیکھا، تم سے بڑا ہے نا، میں نے کہا، ہاں یار، بڑا تو ہے۔ کہنے لگا، کیا تم بڑا کرنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا، نہیں۔ ایسے ہی ٹھیک ہے، کہنے لگا۔ چلو، میں تمہیں بڑا کرنے کا طریقہ بتاتا ہوں۔ اُس نے جیب سے تیل کی شیشی نکالی اور کہنے لگا۔ یہ خاص الخاص تیل ہے، بہت مہنگا ہے، ولایتی ہے۔ اس کے استعمال سے دنوں میں سائز بڑھ جاتا ہے۔ اچھا، میں تیل لگا کر ابھی تمہیں بڑا کرکے دکھاتا ہوں۔
میں نےکہا، نہیں، مجھے یہ سب ٹھیک نہیں لگتا، کہنے لگا، بہن چود، لڑکیوں کو بڑا پسند ہوتا ہے، تمہارا، چھوٹا رہ گیا، تو، کوئی لڑکی تم سے شادی نہیں کرے گی۔ میں نے کہا، مجھے گھر جانے دو، کہنے لگا، گھر میں کوئی نہیں ہے، سب شادی والے گھر گئے ہوئے ہیں۔ بیٹھ جاؤ، ورنہ میں تمہاری امی کو بتا دوں گا۔ میں خوفزدہ ہو کر بیٹھ گیا۔
تیل کی شیشی میرے سامنے رکھ کر کہنے لگا۔ چلو، ٹھیک ہے، تم پہلے میرے عضو تناسل پر تیل لگاؤ پھر میں تمہارے پر لگاؤں گا۔ میں نے تیل ہتھیلی پر ڈال کر اُس کے عضو تناسل پر لگانا شروع کر دیا۔ اُس کے عضوتناسل میں ہلکی ہلکی ہی گرمی پیدا ہوئی پھر فٹبال کی طرح پھول کر اکڑ گیا۔ اُس نے اپنے ہاتھ سے میرے ہاتھ کو اپنے عضو تناسل کے اِرد گرد مضبوطی سے پھیلاکر عضو تناسل کے اُوپر نیچے گھماتے ہوئے کہا، آہستہ آہستہ اسی طرح کرتے رہو۔ میں نے ویسے ہی کرنا شروع کیا تو اُس کے منہ سے جھاگ سی ٹپکنے گلی، آنکھیں نیلی پڑ گئیں اور بدن میں کپکپاہٹ اور آواز میں تھرتھراہٹ پیدا ہونے لگی۔
میں نے کہا، تمہیں کیا ہو رہا ہے۔ کہنے لگا، مزہ آرہا ہے، یونہی ہاتھ چلاتے رہو، تیز، تیز۔ ایک دو منٹ کے بعد اُس کے عضو تناسل سے کچھ سفید سا پانی نکلنا شروع ہوا جس سے میرا ہاتھ بھر گیا۔ وہ کانپتے ہوئے زمین پر لیٹ گیا، اُس کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ مجھے لگا کہ مر گیا ہے۔ میں ڈر گیا، تیل کی شیشی جیب میں ڈالنے کے بعد باہر نکالی اور وہیں پھینک کر سیدھا گھر آگیا۔
رات بھر اُس منظر کو یاد کرتا رہا۔ دو، چار دن یونہی گزر گئے۔ ایک دن گھر میں کوئی نہیں تھا۔ ڈرتے ڈرتے بالوں کو لگانے والے تیل کی شیشی اُٹھائی، غسل خانے میں جا کر جیسے اُس لڑکے نے مجھ سے کروایا تھا ویسے ہی کر نا شروع کر دیا۔ جیسے اُس کو کاپنتے، ٹھٹھرتے، لرزتے محسوس کیا تھا، ویسی ہی کیفیت میری بھی ہوتی جاتی تھی۔ جب میرے عضو تناسل سے سفید پانی نکلنا شروع ہوا تو میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے، جسم میں اتنی کپکپاہٹ پیدا ہوئی کہ میرا ہاتھ عضو تناسل سے چھوٹ گیا۔
اس لمحے مجھے یوں لگا جیسے میں کسی اور ہی دُنیا میں ہوں۔ پورا بدن عضو تناسل کی طرف کھچ سا گیا تھا۔ یوں لگا کہ جیسے پورے بدن کی طاقت اسی ایک عضو میں سما گئی ہے۔ عجیب سا لطف تھا، عجیب سا کچا کچا میٹھا میٹھا سا مزہ، جسے میں کوئی نام دے سکا اور نہ پوری طرح سمجھ سکا۔ جب عضو تناسل کا تناؤ ختم ہوا اور وہ، ڈھلک کر نیچے لٹک گیا تو میں نے غسل خانے کا درازہ کھول کر دیکھا کہ کوئی مجھے دیکھ تو نہیں رہا۔
تسلی سے نہا کر میں غسل خانے سے باہر آیا۔ کھانا کھا کر میں کمرے میں جا کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد عضو تناسل پھر کھڑا ہوگیا۔ میں ڈر گیا کہ اِسے کیا ہوگیا ہے۔ میں نے شلوار کے ناڑےکے نیچے اُس کی گردن دبا، دی، جب میں کرسی پر بیٹھ گیا، عضو تناسل ناڑے کی گرفت سے نکل کر پھر کھڑا ہوگیا۔ گھر والوں کے سامنے میری یہ حالت مجھے خوف میں مبتلا کر رہی تھی۔ میں بہت ڈر گیا۔
کچھ سمجھ نہ آیا تو کتاب لینے کا بہانہ کرکے اُسی دوست کے گھر گیا اور اُس سے کہا، یار، یہ کچھ ہوگیا ہے، اب میں کیا کروں، یہ تو بیٹھ ہی نہیں رہا۔ کچھ ہو تو نہیں جائے گا۔ وہ سُن کر ہنسا، کہنے لگا، بہن چود، تو، تو مجھ سے دو، ہاتھ آگے نکل گیا۔ خیر، کچھ نہیں ہوتا۔ تھوڑی دیر بعد یہ خود ہی بیٹھ جائے گا۔ ہم آپس میں سکول کی باتیں کرنے لگے، واقعی کوئی آدھ گھنٹہ بعد میرا عضو تناسل نارمل حالت میں آگیا۔ میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا، تو دل کوتسلی ہوگئی۔
اگلے دن سکول گیا، گھر واپس آیا، سکول کا کام کیا، کچھ دیر دوستوں کے ساتھ کھیلتا رہا۔ رات کو کھانا کھانے کے بعد بستر پر سونے کے لیے چلا گیا۔ سونے کی کوشش کی لیکن نیند نہیں آئی۔ ہاتھ سرکتا ہوا، جانے کس وقت عضو تناسل کے ارد گرد حرکت کرتا پایا۔ میں نا چاہتے ہوئے عضو تناسل کو ربنگ کرنے لگا۔ عجیب سا کھٹا میٹھا سا مزہ آنے لگا جیسے کوئی خواب دیکھ رہا ہوں، یا کسی انجانے شہر میں پھر رہا ہوں یا من پسند چیز کے ذائقے سے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کب میں فارغ ہو چکا۔
جب ہاتھ رُک گیا اور کوئی حرکت محسوس نہ ہوئی تو میں نے دیکھا، شلوار کے ساتھ بستر بھی سفید پانی سے خراب ہوگیا ہے۔ میں نے سفید پتلے پانی کو سونگھ کر دیکھا تو بدبو آئی۔ میں ڈر گیا، اماں کو پتہ چل گیا تو مار، مار کر مار ہی ڈالے گی۔ فوراً، اُٹھ کر غسل خانے گیا۔ ڈرتے ڈرتے شلوار کو اُتار کر دُھویا پھر بستر پر لگے سفید مادے کو بھیگی شلوار سے صاف کر ڈالا۔ ساری رات ڈر اور خوف کے عالم میں گزری کہ صبح کہیں اماں بستر کو اکھٹا کرتے ہوئے بدبو کو سونگھ نہ لے۔
خیر، کچھ نہیں ہوا۔ اس کے بعد روز کا معمول بن گیا، کسی دن ناغہ بھی ہو جاتا تھا۔ دن گزرتے گئے، میں یہی کچھ کرتا رہا۔ رفتہ رفتہ جسم میں کمزوری پیدا ہونے لگی، ہر وقت نیند کے نشے میں رہتا۔ یہاں وہاں گر، گر پڑتا۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا۔ گھر والے بھی پریشان تھے کہ لڑکے کو کیا ہوگیا ہے۔
گھر والوں کو کہیں سے میرے اس کارنامےکی خبر ہوگئی۔ کمرے میں بلا کر پیار سے پوچھا۔ میں نے صاف انکار کردیا۔ ابا جی نے جوتا، اُتار کر سپاہیوں والی وہ مار، ماری کہ نانی یاد آگئی۔ سارے گھر میں میری اس حرکت کا بھر پور ماتم منایا گیا۔ اس کے بعد یہ عادت چھوڑنا پڑی، سکول سے اُٹھوا کر مجھے دُکان پر بٹھا دیا گیا۔
برس ہا برس دُکان پر بیٹھے پیسے گنتے گزر گئے لیکن میں اس حرکت سے باز نہیں آیا۔ ایک، دو مرتبہ لڑکیوں کے نزدیک آنے کاموقع ملا لیکن مجھ سے کچھ نہیں ہوا۔ میں گھبرا گیا کہ کہیں میرا کام تو نہیں ہوگیا۔ دُکان کے لاکر سے اکثر پیسے نکال لیا کرتا تھا۔ محلے کے واقف دوست نے ایک حکیم کا بتایا۔ اُس نے عضو تناسل پر کچھ لگانے اور کھانے کو دیا۔ تین ماہ کے کورس کا ستر ہزار وصول کیا۔ تین ماہ کی تپسیا کے بعد پتہ چلا کہ رہا سہا تناؤ بھی رفو چکر ہوگیا۔
مجھے احساس ہوگیا تھا کہ میں شادی کے قابل نہیں رہا۔ میں شادی نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن گھر والوں نے زبردستی مجھ سے پوچھے بغیر تم سے کر دی۔ اس کے بعد وہ خاموش ہوگیا اور میں رو۔ پیٹ کر سو گئی۔
اب تم بتاؤ۔ اس میں میری کیا غلطی ہے؟ اُس نے اپنا بیڑا تو غرق کیا، میری بھی لُٹیا ڈبو دی۔ طلاق لے لو۔ یہ ناممکن ہے۔ پھرصبر کرو۔ صبر ہی تو نہیں ہوتا۔ کسی اور کے ساتھ کرلو۔ یہ بھی نہیں ہوسکتا۔ کیوں؟ جی نہیں چاہتا۔ جی نہیں چاہتا یا ڈر لگتا ہے۔ ڈر لگتا ہے۔
تم کیا چاہتی ہو؟ کچھ نہیں۔ اپنی کہانی مجھ سے شئیر کرنے کا مقصد۔ من ہلکا کرنا۔ کسی اور کو بھی یہ سب بتایا۔ نہیں۔ کیوں؟ کوئی ملا ہی نہیں۔ ملا نہیں یا بھروسہ نہیں۔ بھروسہ نہیں۔ مجھ پر ہے؟ جی ہے۔ کیوں؟ کیوں کہ تم اس موضوع پر لکھتے ہو، بولتے ہو اور بہت کچھ جاننے کے علاوہ ایک اچھے راز دار بھی ہو۔ اگر میں اس گفتگو کو مضمون کی شکل دے دوں؟ دے دو۔ ڈر نہیں لگتا۔ نہیں لگتا۔ کیوں؟
اس میں ڈرنے والی کیا بات ہے، مجھ ایسی ہزاروں خواتین اس اذیت کا شکار ہیں۔ فرق یہ ہے کہ وہ بتاتی نہیں، چھپاتی ہیں۔ میں نے برسوں چھپایا لیکن اب نہیں چھپتا۔ آج من بہت دُکھی تھا، اتفافاً تم سے بات ہوگئی۔ ضبط کی قوت ختم ہو چکی ہے، دل نے چاہا، تو اپنا آپ کھول دیا۔ اچھا ہے، کوئی پڑھے گا، کوئی نہیں پڑھے گا۔ کوئی ہنسے گا اور کوئی محسوس کرے گا۔
ایک مجبور انسان کیا کر سکتا ہے، وہ صرف روسکتا ہے، اپنی بد نصیبی پر، نا آسودہ خواہشوں پر، سوکھے بدن پر، کربِ آگہی پر۔۔