Monday, 10 February 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Taqseem Ne Hamen Kya Diya

Taqseem Ne Hamen Kya Diya

تقسیم نے ہمیں کیا دیا؟

کل رات "ویر زارا" انڈین مووی دوبارہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ مووی دیکھ کر یوں لگا جیسے سینکڑوں برس کی تڑپتی روحیں باہم مل گئی ہیں۔ محبت کے جذباتی سینز، رُلانے کے لیے کافی تھے۔ یہ مووی پہلے بھی دیکھی تھی لیکن متاثر نہیں ہوا تھا۔ اس بار جانے کیوں محبت کے بہتے دریا میں بھیگتا چلا گیا۔ مووی دیکھنے کے بعد ذہن میں کئی سوالات اُبھرے جن کے جوابات مجھ سمیت آپ سبھی جاننا چاہتے ہیں۔

بات یہ ہے کہ انڈین سینما میں ہر طرح کی فلمیں بنتی ہیں۔ محبت پیار، ایکشن، تھرلر کے علاوہ دونوں ملکوں کی تقسیم کے حوالے سے سینکڑوں فلمیں بنائیں گئیں ہیں۔ ان فلموں میں کہیں بھارت کو اور کہیں پاکستان کو غلط اور قصور وار ٹھہرایا گیا۔ تقسیمِ پاکستان کا سانحہ دونوں ملکوں کا مشترکہ المیہ ہے جس کے بارے میں پچھتر برس گزرنے کے بعد تائید و تردید کی بحث جاری ہے۔

ہندوستان کی تقسیم درست تھی یا غلط۔ یہ سوال ہر اُس ذہن میں اُبھرتا ہے جو مشترکہ ہندوستان کی چھپائی ہوئی اصلی تاریخ پڑھنے کی جرات کرتا ہے۔ یہ بات تو مسلمہ ہے کہ ہندوستان کو مسلمانوں نے تقسیم کیا اور نہ ہی ہندوؤں نے۔ اس زمین کو دو، ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا اُصولی فیصلہ "برطانیہ عظمہ" نے کیا تھا۔

ملک کی تقسیم سے پہلے اور بعد کے حالات کا تجزیہ کرنے سے بارہا یہی نتیجہ سامنے آیا ہے کہ برطانیہ "سیکنڈ ورلڈ وار" کے بعد مخالفین سے اس قدر پسپا ہوگیا تھا کہ اسے ہندوستان پر حکومت جاری رکھنے میں بے پناہ مشکلات کا سامنا تھا۔ ہندوستان میں کانگرس اور مسلم لیگ کی آئے روز مقبولیت و سیاسی مداخلت کی وجہ سے برطانیہ عظمہ یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ بہت جلد ہمیں ہندوستان کو خالی کرنا ہوگا۔ اس وقت ہندوستان میں آزادی، تقسیم، فسادات، لوٹ مار اور خانہ جنگی کی وارداتیں عروج پر تھیں۔

برطانیہ چاہتا تھا کہ جس قدر جلد ممکن ہو، اس نزاعات کا مستقل حل تلاش کیا جائے۔ مسلمانوں کی نسبت ہندو، اس بات پر مصر تھے کہ آبادی کے تناسب سے "لوکل گورنمنٹ" قائم کرنے اور اختیارات کے آزادانہ استعمالات کی اجازت دی جائے جس کا تجربہ بطور ریہرسل کانگرسی وزارتوں 1937 میں کیا جاچکا تھا۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں کے مقابلے میں ہمیشہ کم رہی ہے۔ بنیادی طور پر ہندوستان کی سر زمین ہندوؤں کی ملکیت ہے جس پر یہ قوم قربیاً پانچ ہزار سال سےآباد ہے۔ ہندو مت مذہب کو دُنیا کا قدیم ترین مذہب تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمان ساتویں صدی کے اوائل میں بظاہر تجارت کی غرض سے آکر یہاں آباد ہوئے تھے۔

ہندوستان کی تقسیم کو لے کر برطانیہ پریشان تھا کہ اس کا حل کیسے نکالا جائے۔ برطانیہ یہ چاہتا تھا کہ ہندوستان کو تقسیم نہ کیا جائے بلکہ یہاں مخلوط حکومت بنا کر اس کو سپروائز کیا جائے تاکہ ہندوستان کے جملہ وسائل کو استعمال کرکے دیگر خطوں میں موجود حکومت کو قائم رکھا جاسکے۔ ملکہ الزبیتھ کی زیرِ نگرانی یہ منصوبہ "سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی" میں کافی دیر سے زیر بحث تھا لیکن اس کی عملی شکل یوں ممکن نہ تھی کہ مسلم لیگ "متحدہ ہندوستان" کے اس منصوبے کو قبول کرنے پر تیار نہ تھی۔

وسیع تر مفاد کے پیشِ نظر برطانیہ عظمی نےجون 1948 تک ہندوستان کو پاکستان و ہندوستان میں تقسیم کرنے کا ایجنڈا پبلک کر دیا۔ تقسیم کا حتمی عمل 14 اگست 1947 کو اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ تقسیم کے موقع پر باقاعدہ کی گئی منصوبہ بندی کے تحت سینکڑوں برس سے ایک ساتھ رہنے والے ہندوستان کے باسیوں کو مذہب کے بیانیے پر اشتعال دلا کر نفسانی غصے کی منافرت کو نہایت چالاکی سے ایسی ہوا دی گئی کہ آناً فانًا ہر شخص ایک دوسرے کی جان و مال اور عزت و عصمت کا پیاسا ہوگیا۔ اس منصوبہ بند، رام لیلا نے وحشت و دردندگی کا ایسا سوانگ رچا، کہ بیس لاکھ کے قریب بے قصور انسان اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔

تقسیم ہوئی، لکیر کے دونوں طرف لاکھوں لوگ مارے گئے، دو ملک بن گئے۔ ہزاروں برس سے ایک ہی زمین کے باسیوں کے درمیان منافرت کی دائمی سرحد قائم ہوگئی۔ خون کی ہولی کا رنگ ابھی پھیکا نہیں پڑا تھا کہ 1948 میں بے بنیاد بیانیے کو بہانہ بہا کر دونوں ملکوں نے پہلی باقاعدہ جنگ لڑی۔ یعنی بھوکے لوگوں نے بھوک بانٹنے کی بجائے تن سے لٹکتے چیتھڑوں کو بھی اُتار کر پھینک ڈالا، یعنی ننگے ہو کر اپنی ننگ کا تماشا پوری دُنیا کو دکھایا۔

ظلم و بربریت کی آندھی رُکی تو تقسیم کے موضوع پر طرفین کے بکاؤ مورخین نے اخباروں، رسالوں اور کتابوں میں ایسے ایسے جھوٹ بولے اور تاریخی واقعات کو مسخ کرکے اپنے اپنے بیانیے کو خوب پروان چڑھاکر وہ زہر اُگلا کہ سرحد کے دونوں طرف بسنے والے معصوم لاعلم انسانوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا ڈالا۔

چلیں، مان لیتے ہیں کہ 1948,1965,1971 کی تینوں جنگیں بھارت نے پہلے شروع کیں اور ہم مجبور پاکستانیوں کو ناچاہتے ہوئے اپنے دفاع کے لیے میدان میں اُترنا پڑا۔

سوال یہ ہے کہ گزشتہ پچھتر برسوں سے ہم نے اس بات کا فیصلہ کیوں نہیں کیا کہ آخر کب تک مذہب کے نام پر ہم ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہیں گے، سپر پاور ممالک کے اسلحے کو خرید کر بے گناہ لوگوں کومارتے رہیں گے اور قرض در قرض لے کر پیدا ہونے والے بچوں کی زندگی کو جنہم بناتے رہیں گے۔

ہندوستان کی خوش قسمتی سمجھیے یا کچھ اور جانیے۔ تقسیم کے بعد ہندوستانی گورنمنٹ تھوڑے بہت نقصان کے ساتھ اپنی سمت کو درست راہ پر گامزن کرنے کی پالیسیوں پر کام کرتی رہی جبکہ پاکستان اوائل تقسیم سے محنت کے سبق کا اعادہ کرنے کی بجائے یہاں وہاں ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش میں غرق سرگرداں رہا۔ 1948 کی جنگ میں بُری طرح ناکامی کے بعد جب روٹیوں کے لالے پڑگئے تو بغیر سوچے سمجھے امریکہ کے پاس جا کر چند ٹکوں کے عوض بطور غلام اپنے آپ کو رہن رکھوا، آئے۔

عجیب بات ہے سینکڑوں برس برطانیہ کے غلام رہ کر آزادی کی نعمت ملنے کے بعد بھی ہمارے حکمرانوں کو شرم نہیں آئی کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی بجائے امریکہ کی گود میں جاکر بیٹھ گئے۔ ان کے آلہ کار بن کر ایسے پٹھو بنےکہ نصف صدی غلامی میں گزار کر یہ احساس نہیں ہواکہ کب تک بھیک کے سہارے زندہ رہیں گے۔ گداگری چھوڑ کر ماضی کے کیے ہوئے فیصلوں کو ریوایز کرنے کی بجائے دھٹائی کے ساتھ رہن کی رسم کو نبھا رہے ہیں۔

ہمارے سوکالڈ حکمران سخت فیصلےکرنے کی بجائے یہاں وہاں امداد کے لیے جب بھیک مانگ رہے تھےاس وقت ہندوستان نے جاگیر یں ختم کرکے "جاگیردانہ سماج" کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔ پرانے قوانین کو متروک کیا، میرٹ کے خلاف اکھاڑ پچھاڑ کے جملہ مصنوعی نظام کو یک قلم موقوف کیا اور وہ سب کچھ کیا جو کرنا ضروری اور ناگزیر تھا۔ چند برسوں میں ہندوستان نے ترقی کی شاہراہ پر اپنے قدم ایسے جمائے کہ آج پچھتر برس بعد ہندوستان دُنیا کی پانچویں بڑی معیشت کی منڈی بن چکا ہے اور ہم بھکاری کی حیثیت سے کشکول لیے دُنیا بھر میں بھیک مانگ رہے ہیں۔

ایک وقت تھا جب ہم اکڑ کر ہندو کو گالی بکتے تھے اور ان پر تھوکنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ آج یہی ہندو، ہمیں انسان کی حیثیت سے دیکھنا نہیں چاہتے۔ دونوں ملک ایک ساتھ تقسیم ہوئے اور ایک ساتھ ترقی کے برابر مواقع میسر آنے کے باوجود پاکستان نے سپر پاور ممالک کی غلامی اور منشی گیری کرنے کو اپنی ترقی و خوشحالی کا ثمرہ قرار دے کر بے شرموں کی طرح دُنیا بھر میں کشکول لیے گداگری کی۔

ہندوستانی حکمرانوں نے اپنے لوگوں کو محنت، صبر، قناعت اور استقلال کا سبق دیا۔ آج ہندو کی ذہنیت دیکھیے، وہ ہماری حالت دیکھ کر ہنسنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ مودی جب یہ کہتا ہے کہ "پاکستان اپنی موت آپ مرچکا، اسے مارنے کی ضرورت نہیں رہی"۔ اس سٹیٹمنٹ کے بعد ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہونا چاہیے تھا مگر ہم موٹی سی گالی نکال کر بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ بکواس کرتا ہے۔ انشا اللہ! پاکستان جلد ترقی کی منازل طے کرے گا۔ جو اس ملک کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا، اُس کی آنکھیں نکال لیں گے۔ بھیا! ہم اس قابل ہی نہیں رہے کہ کوئی ہمیں میلی آنکھ سے دیکھے۔ ہم نے اپنی صاف شفاف آنکھوں سے اس ملک کو اس قدر میلا کچیلاکر ڈالا ہے کہ اب کسی کی میلی آنکھ کا اس پر اثرِ بدنہیں ہونے والا۔

عجیب بات ہے، تین جنگیں ہم نے ہندوستان کے ساتھ لڑیں اور تینوں جنگوں میں چھپائی ہوئی تاریخ کے مطابق پہل ہم نے کی۔ ہندوستان اور پاکستان کا مشترکہ دُشمن تو برطانیہ تھا۔ آزادی کے بعد بدلہ تو برطانیہ سے لینا چاہیے تھا، جنگ تو برطانیہ کے خلاف ہونی چاہیے تھی۔ مزے کی بات یہ کہ برطانیہ سینکڑوں برس حکمرانی کرتا رہا اور جاتے جاتے کمال ہوشیاری سے ہمیں آپس میں لڑوا کر چلتا بنا۔ ہم بغیر سوچے سمجھے شوق سے ان کے پھیلائے ہوئے باہمی منافرت کے جال میں پھنس گئے۔ ایک دوسرے کو مارنے اور صفحہ ہستی سے مٹا ڈالنے کی مہم میں ایسے کود گئے کہ چار بڑی جنگوں کے علاوہ سینکڑوں مدبھیڑوں سے ہم نے اپنا بیڑا غرق کر ڈالا۔

چلیں جی! یہ تو تاریخ ہے، یہاں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں جن کے جوابات ہر کسی کے اپنے بیانیے، سوچ، افکار اور طرزِ تفکر پر منحصر ہیں۔ تقسیم سے آج تک جو کچھ بھی ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ تاریخ کس قدر درست اور مبنی بر حقیقت ہے، سبھی جانتے ہیں۔ تاریخی واقعات کو مسخ کرکے اپنی مرضی کے بیانیے کو تاریخ کے واقعات پر مسلط کرنا برسوں پرانی روایت کا چلن ہے جس کا ہر ملک کے صاحبِ اقتدار حکمرانوں نے بکاؤ مورخین کے توسط سے فائدہ اُٹھایا ہے۔

الحمد اللہ! پاکستان ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ اس ملک کی قسمت خراب ہے یا اس ملک کی قسمت پر کسی کے جبر کی حکمرانی ہے جو اسے اپنی مرضی سے نوک پلک سنوارنے کی اجازت نہیں دیتا۔ کیا پاکستان کی دھرتی بانجھ ہے؟ کیا پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی ہے؟ کیا پاکستان کے پاس وسائل کی کمی ہے؟ کیا پاکستان کے پاس افرادی قوت کی کمی ہے؟ کیا پاکستان کے پاس ترقی کرنے کے ذرائع موجود نہیں ہیں؟ کیا پاکستان میں پڑھے لکھے اور ذہین نوجوانوں کی کمی ہے؟

جی نہیں، پاکستان کے پاس وہ سب کچھ موجود ہے جو اسے چند برسوں میں ترقی پذیر ممالک کے ہراول دستے میں شامل کر سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں چند ادارے ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ ملک ترقی کرے۔ یہ ادارے گزشتہ پچاس برس سے منصوبہ بندی کرتے آئے ہیں کہ اس ملک کو ہمیشہ کمزور رکھنا ہے۔ اس ملک کی عام رعایا کو اتنی ڈھیل اور آزادی نہ دی جائے کہ یہ ہمارے مفادات کے ساتھ باہمی ٹکراؤ کی صورتِ حال کو پیدا کر دے۔

اس ملک کی بد قسمتی یہ ہے کہ اس میں پیدا ہونے والا ہر بچہ (ماسوائے چند خاندانوں کے) پہلے امریکہ کا غلام ہے، پھر انتظامی اداروں کا غلام ہے، پھر سیاست دانوں کا غلام ہے اور آخر میں ریاستِ پاکستان کے مذاقیہ قانون کے عملِ نفاذ کا غلام ہے۔ رہی سہی کسر ریاستِ پاکستان کی معاشی صورتحال نکال دی ہے کہ جس نے غلام رعایا سے پیٹ کی روٹیاں تک چھین لی ہیں۔

غلامِ ابن غلام کی برس ہا برس رائج اس روایت نے ایک ہی جینز کی درجنوں نسلوں کو غلامی کے طوق میں جکڑ رکھا ہے۔ اس ملک کے نظم و نسق کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ یہاں چور، ڈاکو، بدمعاش، لٹیرے کو عزت و تحسین دی جاتی ہے جبکہ ایمانداری، شرافت، لیاقت اور قابلیت کے وصف سے متصف اذہان کو ذلیل و رُسوا کیا جاتا ہے۔

مزے کی بات یہ کہ اس ریاست کے سیاست دانوں کی ملک کے محافظوں سے ہمیشہ ان بن رہتی ہے۔ محافظوں کی سرمایہ داروں سے نہیں بنتی۔ سرمایہ داروں کی منتظموں سے چھینا جھپٹی رہتی ہے۔ منتظمین، بین الااقومی غنڈوں کی منشی گیری سے تنگ ہیں جن کی آشیر باد کے بغیر محض ایک کال پر پورے ملک کے سیاسی نظام کا دھڑن تختہ کر دیتی ہے۔

"ویر زارا" مووی میں تو کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ اس مووی کے اسکرپٹ میں چھپے بیانیے پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہےکہ دونوں ملکوں میں کوئی فرق پہلے تھا نہ اب ہے۔ دونوں کی مٹی، موسم، مزاج، خوراک، اطوار اور مزاج ایک سے ہیں۔ کہیں کوئی فرق موجود ہی نہیں۔ مذہب، رنگ، نسل، ذات پات اور اونچ نیچ تو ہمارے ہاں بھی موجود ہے۔ یہاں جو کھاتا ہے وہ برہمن سے کم نہیں ہے، جو کماتا ہے وہ کھشتری سے ہم نہیں ہے، جو بول سکتا ہے وہ ویش سے کم نہیں ہے اور جو سہہ سکتا ہے وہ شودر سےکم نہیں ہے۔

ایک بات طے ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کی ترقی ہندوستان کے ساتھ حالات نارمل کیے بغیر ممکن ہی نہیں۔ یہ بات تقسیم سے پہلے بھی کہی جاتی رہی ہے اور تقسیم کے بعد بھی۔ بات یہ ہے کہ اگر پاکستان اور ہندوستان کے حالات نارمل ہو جائیں گے تو امریکہ کا اسلحہ کون خریدے گا، امریکہ کے ڈالرز کی غلامی کون کرے گا، امریکہ کی پٹھو گیری کون کرے گا؟

چلیں امریکہ کو سمجھا بجھا کر راضی بھی کر لیں، سرحدوں کے محافظوں کو کون سمجھائے گا کہ ان کی روزی روٹی کا انحصار ہی دونوں ملکوں کی باہمی منافرت اور سرحدی چپلقشوں پر ہے۔ یہ دُکان کبھی بند ہوتی نظر نہیں آتی۔ یہ دُکان اُس وقت بند ہوسکتی تھی جب اس دُکان کے مالک کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ مخالفین کو زیر کرنے اور اپنی شکست کی پسپائی کو چھپانے کے لیے ہم نے شوق شوق سے اس دُکان کے مالک کو جھولیاں بھر بھر کرسودا سلف دیا۔

نیز، احتساب سے بے نیاز اپنا کاروبار بڑھانے کی اجازت کے ساتھ کسی قسم کی در اندازی نہ ہونے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی۔ برس ہا برس کی یقین دہانی اور احتساب کی ماورائی نے اس دُکان کو اتنا منافع دیا ہے کہ جگہ جگہ اس دُکان کے سُپر مارٹ بن گئے ہیں جو اپنے اندر دُنیا بھر کی بھوک مٹانے کا سازو سامان رکھنے کے باوجود بریڈ کا ایک ٹکڑا کسی کو دینے پر تیار نہیں ہے۔

لگتا یوں ہے، اس ملک کی قسمت میں یہی کچھ لکھا ہے کہ ووٹ کے ذریعے عارضی طاقت حاصل کرنے والے ہاتھ میں کشکول لیے جگہ جگہ دُنیا میں بھیگ مانگتے رہیں۔ مانگی ہوئی خیرات و بھیک سے پہلے اپنی جھولی بھریں، کچھ گداگری کے سہولت کاروں کی آستین میں ٹھونسیں اور جو بچ رہے وہ محفوظ جگہوں پر انویسٹ کر دیں تاکہ مشکل وقت میں آسانی فراہم کرنے والے خفیہ راز داران ہاتھوں کی مدد کرکے گداگری کا نیا موقع لے سکیں۔

میری دادی تقسیم کے وقت اُنیس برس کی تھی۔ جب میں تقسیم کے وقت کے قصے اِس سے سنتا تھا تو وہ کہتی تھی، ہمارے ابا کہتے تھے: ہم نے ساری زندگی ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ گزاری ہے، ہمیں آج تک کسی نے عبادت کرنے اور اپنے طریقے سے زندگی گزارنے کے لیے نہیں روکا۔ پتہ نہیں تقسیم کے بعد کیا ہوگا۔ دادی کہتی تھی۔ تقسیم کے وقت ہمارا سارا گھر جل گیا، اس بلوے میں میری دو بہنیں ماریں گئیں۔ میری ماں کے پیٹ میں بچہ تھا جسے چھت سے نیچے پھینک دیا گیا اور وہ بچے سمیٹ تڑپ تڑپ کر مر گئی۔ میں جان بچانے کی غرض سے خوف کے مارے گندم کی بوریوں میں چھپ گئی۔

رات کے وقت باہر نکلی تو ایک سکھ نے مجھے پہچان لیا، وہ اپنے گھر لے گیا۔ اپنی بہن کے سکھوں والے کپڑے پہنا کر راتوں رات مجھے ایک محفوظ مقام تک چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ راستے میں بلوائیوں نے زبردستی مجھے چھیننا چاہا لیکن اس سکھ نوجوان نے مجھے لٹیروں سے بچایا۔ اس کوشش میں اس کا سارا جسم زخمی ہوگیا تھا لیکن اس نے میری عزت پر داغ نہ لگنے دیا۔

اگلے دن جب بارڈر پر میں پہنچی تو میرے کپڑے قریباً پھٹ چکے تھے، سارے رستے میری عزت محفوظ رہی۔ پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے ہی مسلمان لڑکوں کی جسم چیرنے والی نظروں نے میری روح کو زخما ڈالا۔ اِس وقت میں رونے لگی اور مجھے رہ رہ کر اُس سکھ نوجوان کی حیا اور وفاداری یاد آتی رہی۔ مجھے یہی لگتا کہ میں ہندوستان کی زمین پر محفوظ تھی اور یہاں آکر غیر محفوظ ہوگئی ہوں۔ تین دن کے بعد میں روتی پیٹی بچتی بچاتی تمہارے دادا کے ہاتھ لگ گئی جس نے رحم کھا کر اپنے گاؤں لانے پر مجھے راضی کر لیا اور عزت سے اپنی بیوی بنا کر مجھے ایک نئی زندگی دی۔

سوال یہ ہے کہ تقسیم کرنے والے یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ہزاروں برس ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کی عزت کے محافظ رہے ہیں۔ وہ کون سے شر پسند عناصر تھے جنھوں نے دو ملکوں میں بٹنے والی پوتر زمین کے سینے کو لہو سے سیراب کر ڈالا۔ کسی ہندو نے کسی مسلمان کو نہیں مارا۔ ورغلا کر بہکائے ہوئے مشتعل ہجومِ ناہنجار نے مصنوعی بیانیے کی خودساختہ غلط فہمیوں کو بنیاد بناکر غیرت اور مردانگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے برس ہا برس سے ایک دوسرے کی جا ن ومال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرنے والوں کے خود گلے کاٹے۔

دردندگی و المناکی کا یہ وقت گزر گیا۔ برصغیر کے اس المناک کا سانحے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون ہے؟ کس کا قصور زیادہ ہے اور کون بے گناہ ہے؟ اس کا فیصلہ کوئی نہیں کر سکا۔ دو خاندانوں میں برسوں سے چلتی تلوار بازی کو اگر روکا نہیں جائے گا تو مزید معصوم انسان تلوار کی پیاس بجھانے میں کام آتے رہیں گے۔

کیا اب بھی ہمیں یہ سوچنا نہیں چاہیے کہ دُنیا بھر میں ٹکے ٹکے کی خیرات مانگنے کی بجائے ہم خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونےکی کوشش کریں۔ ملک کی اشرافیہ کو اگر شرم، غیرت اور احساس کا ذرا بھی پاس ہے تو باہم بیٹھ کر سوچیں کہ ہم نے اپنی اُولاد کے لیے اتنا کچھ جمع کر لیا ہے کہ سینکڑوں پُشتیں آرام سے بیٹھ کر کھا سکتی ہیں۔ اب ہمیں انسان بن جانا چاہیے۔

زمین کے ان خداؤں کو ہم جیسے نالی کے گدلے پانی میں رینگنے والے کیڑے مکوڑوں پر کیوں رحم نہیں آتا جن کی نسلیں تقسیم سے پہلے بھی غلام تھیں اور آزادی کے بعد بھی غلام ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم پاکستانی نہیں ہیں؟ کیا ہمارے پرکھوں نے اس وطن کی آزادی کے لیے اپنا تن من دھن قربان نہیں کیا؟ کیا ہمارے بزرگوں نے اپنی جمی جمائی سلطنت کو ملک بنانے والوں کے دکھائے ہوئے خوابوں کی تعبیر کی نذر نہیں کیا؟ کیا ہمارے بزرگوں نے اپنی اُولاد، عزت، آبرو اور جان و مال کو اس وطن کی تعمیر کے لیے ہنسی خوشی قربان نہیں کیا؟ ہندوستان میں رہ جانے والےمسلمانوں نے اُس وقت یہ فیصلہ کیوں نہیں کیا جو ہمارے باپ داد نے کیا تھا؟

سوال یہ ہے کہ پاکستان بنانے والوں نے ہمارے بزرگوں کو جو خواب دکھائے تھے اُس کی تعبیر اتنی بھیانک کیسے ہوسکتی ہے؟

بہ حیثیتِ پاکستانی ہمارا حق ہے کہ ہم بھی آپ کی طرح نہ سہی کم از کم عزت سے دو، وقت کی روٹی کھا تو سکیں۔ وقار کے ساتھ نہ سہی، ایک عام انسان کی حیثیت سے مر تو سکیں۔ شان کے ساتھ نہ سہی، شرافت سے بہ حیثیت پاکستانی زندگی تو گزار سکیں۔

کیوں ہمیں بار بار یہ بتایا اور سمجھایا جاتا ہے کہ تمہارے ووٹ کی کوئی عزت نہیں ہے، تمہارے وجود کی کوئی شناخت نہیں ہے۔ تمہارے ہونے اور نا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تم غلامِ ابن غلام ہو اور غلام ابنِ غلام ہی رہو گے۔

کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم مجبور ہو کر بغاوت کریں؟ کیا ہم بھی باغی جتھوں کی طرح پہلے اپنے گھر کو نذرِ آتش کریں پھر آپ کے محلوں کو جلا کر راکھ کر ڈالیں۔

کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم مل کر بھوک بانٹ لیں؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ اپنے محل کے دروازے نہ سہی، کھڑکی کا، ایک پٹ ہی کھول دیں؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ کے بچے ہمارے بچوں کے ساتھ نہ پڑھیں، لیکن اُسی معیار کی تعلیم کے موقع فراہم کیے جائیں؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم ایک ساتھ ایک ہی صف میں کھڑے ہو جائیں جہاں محمود، اور، ایاز کے درمیان کوئی فرق باقی نہ رہے؟

جناب عالی! حوصلہ تو کیجیے، ہاتھ تو دیجیے، بھروسہ تو رکھیئے۔

دیکھتے ہیں! کیسے یہ ملک ترقی نہیں کرتا۔

Check Also

Youm e Siyah, Masnoi Zahanat Aur Nusrat Javed

By Nusrat Javed