Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Taleemi Nisab Mein Qanoon Ki Taleem Kyun Shamil Nahi?

Taleemi Nisab Mein Qanoon Ki Taleem Kyun Shamil Nahi?

تعلیمی نصاب میں قانون کی تعلیم کیوں شامل نہیں؟

کالج میں ہونے والے سالانہ امتحان کے سلسلے میں امتحانی سنٹر کے لیے بطور سیکورٹی گارڈ پولیس کی مدد درکار تھی، اس سلسلے میں پولیس اسٹیشن جانا ہوا۔ ایس ایچ اُو صاحب کے کمرے کے نزدیک ایک شخص نے میرا راستہ کاٹ کر مجھے روک لیا، وہ میرا دور کا واقف کار تھا۔ سلام و خیریت کے تبادلہ کے بعد میں نے اُس سے پوچھا کہ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ اِتنے میں حوالدار ایک لڑکے کو کمرے سے باہر لے کر آیا، لڑکا بُری طرح ڈرا ہوا تھا، اس کے چہرے پر ہوائیاں چھوٹ رہی تھیں، وہ کچھ بولنے والا تھا کہ حوالدارنے اُسے گالی بکی اور کہا کہ وہاں جا کر بیٹھ جاؤ، میں ابھی تمہارے باپ کو بلواتا ہوں، ہم دونوں کو سامنے دیکھ کر حوالدار نے کہا، جناب! اس لڑکے کا کیا کرنا ہے، صاحب کہہ رہے ہیں کل اسے عدالت میں پیش کرنا ہے، میں حیران ہوا کہ معاملہ کیا ہے۔

حوالدر نے کہا کہ اس کے باپ سے پوچھ لو، مجھے کیا پتہ، لڑکے کے باپ نے بتایا: دراصل بات یہ ہے کہ اِس نے دوستوں کے ساتھ مل کر پکی یعنی نشے والی سگریٹ پی ہے، جب یہ دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا، اتفاقاً وہاں سے پولیس کے دو اہلکار گزر رہے تھے، وہ اس علاقہ کو جانتے ہیں اور نشہ کرنے والے آوارہ لڑکوں پر نظر بھی رکھتے ہیں۔ اب آپ کو کیابتاؤں، اکلوتا بیٹا ہے، ہاتھ سے نکل گیا ہے، اس نے مجھے نہیں بتایا، مجھے تو تھانے سے فون آیا کہ تمہارا بیٹا حوالات میں بند ہے، تم فوراً پولیس اسٹیشن آجاؤ، میں جب پولیس اسٹیشن پہنچا تو یہ منشی کے پاس بیٹھا ہوا تھا، مجھے دیکھ کر رونے لگا اور کہنے لگا کہ ابا، میں نے کچھ نہیں کیا، میں نے تو سگریٹ کا ایک کش مذاق میں لگایا تھا اور مجھے نہیں پتہ تھا کہ مجھے اس طرح پکڑ کر یہاں لے آئیں گے، آپ مجھے یہاں سے گھر لے چلیں، میں آئندہ کبھی سگریٹ کی طرف دیکھوں گا بھی نہیں۔

میں نے منشی سے کہا صاحب، میرا بیٹا بے قصور ہے، تم بھی جانتے ہو، کچھ لے دے کے معاملہ رفع دفع کر دو، لیکن وہ مان نہیں رہا اور کہتا ہے ایف آئی آر ہوگئی ہے، صبح اسے عدالت میں پیش کرنا ہے، تم سے کچھ ہو سکتا ہے توکر لو۔ میں نے اُ س رنجیدہ دوست کی ساری بات تفصیل سے سُنی اور تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اچھا، دیکھتے ہیں کیا ہوسکتا ہے، میں ایس ایچ او کے آفس میں گیا، صاحب موجود نہ تھے، انتظار میں ہم بیٹھے تھے کہ میرے کاندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا اور کہا کہ سر، آپ، یہاں کیا کر رہے ہیں، میں نے اُسے دیکھا، ہمارے کالج کے پہلے بیج کا طالب علم تھا، میں نے کہا میں تو کالج کے لیے سیکورٹی لینے آیا تھا اور تم یہاں کیسے، اُس نے کہا کہ میری ہفتہ قبل یہاں پوسٹنگ ہوئی ہے، آپ میرے ساتھ آئیں، میں آپ کا مسئلہ حل کرواتا ہوں، آپ میرے کمرے میں آئیں، میں نے کہا، یار، پہلے اس بے چارے کا کچھ کرو، اس کا بیٹا آپ کے پیٹی بھائی بازار سے پکڑ لائیں ہیں اور بے گنا ہ ہے جبکہ یہ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ایف آئی آر ہوگئی ہے، اب کچھ نہیں ہوسکتا۔

ہونہار شاگرد نے کہا، سر، ایسی کوئی بات نہیں، ہم ڈراتے ہیں تاکہ یہ لونڈے آئندہ اس قسم کی حرکت نہ کریں، ایف آئی آر نہیں ہوئی، مجھے اس کیس کا علم ہے، آپ میرے ساتھ چلیں، دیکھ لیتے ہیں۔ آدھ گھنٹہ میں سارا معاملہ حل ہوگیا اور وہ صاحب بہت سے شکریے کے ساتھ بیٹا لے کر رخصت ہو گئے۔ یہ ایک معمولی واقعہ ہے، اس میں ایسی کوئی بات نہیں جس پر توجہ صرف کی جائے لیکن غور کریں تو اس میں بھیانک نتائج موجود ہیں۔

پہلا تباہ کُن اثر اس واقعہ کا یہ ہے کہ وہ لڑکا جس نے پکی سگریٹ کا کش لگایا ہے وہ کچھ دیر تک سگریٹ نہیں پیے گا لیکن بعد میں پکا نشئی بنے گا کیونکہ اس نے نشے کی کیفیت، لذت اور سزا کا ابتدائی نظارہ اور اندازہ کر لیا ہے، دوسرا منفی اثر اس کی شخصیت پر پولیس کے ادارے کے مجموعی تشخص کا پڑے گا، یہ لونڈا کبھی مشکل وقت میں پولیس سے مدد نہیں لے گا، جہاں پولیس والا دیکھے گا، راہِ فرار اختیار کرے گا اور ہمیشہ دل میں اس ادارہ کے بارے میں منفی سوچے گا اور جہاں بیٹھے گا، اس ادارہ کی برائی کرے گا، تیسرا نقصان یہ کہ اس کی نگاہ میں باپ کی عزت ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی ہے کہ باپ پولیس کے سامنے بے بس ہوگیا تھا اور باوجوہ گھر میں باس ہونے کے اور بطور والد رُعب جمانے کے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

چوتھا نقصان یہ کہ یہ لڑکا اپنے دوستوں میں دادا گیری کرے گا اور دل ہی دل میں یہ احساس پال لے گا کہ تھانہ وانہ کچھ نہیں ہوتا بس واقفیت اور پیسہ ہونا چاہیے کہ پیسہ اور واقفیت سے ہی دُنیا سلام کرتی اور آگے جھکتی ہے، پانچواں نقصان یہ کہ یہ لڑکا گھر والوں پر اپنا رُعب گانٹھنے کی کوشش کرےگا، اس کے بہن بھائی اس سے خوف کھانا شروع ہو جائیں گے، چھٹا نقصان یہ کہ محلے اور رشتہ داروں میں اس کی بدنامی کے قصے مشہور ہونے سے اس کی شخصیت بُری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی، یہ اپنے آپ کو درست اور ریاست کے نظام کو بُرا ٹھہرانے کی کوشش کرے گا۔

نقصانات کی یہ لمبی فہرست ہے جسے گنوانا مقصود نہیں ہے تاہم جو بات غور طلب ہے وہ یہ کہ اس لڑکے کی نفسیات پر اس واقعہ سے جو کاری حملہ ہوا ہے اس کے نقصانات دو چار سال بعد سامنے آئیں گے اور وہ اتنے بھیانک ہوں گے کہ قانونی سماج سمیت پورا خاندان اس لپیٹ میں آئے گا۔

مذکور مفصل تمہید عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے نظامِ تعلیم میں پاکستان پینل کوڈ کا ذکر تک موجود نہیں ہے، پانچویں جماعت سے لے کر بی اے تک کی لازمی مطالعہ پاکستان میں مختلف جرائم کی سزا اور اس کے ارتکاب کے نتیجے میں ہونے والی سزا اور بے گناہ ہونے کی صورت میں سزا سے بچنے کا طریقہ موجود نہیں ہے۔ جماعت دہم کا طالب علم سکول سے گھر آتے ہوئے راستے میں پولیس والوں کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور وہ اُسے کسی بہانے سے ڈرا دھمکا کر پولیس اسٹیشن لے جاتے ہیں اور والدین کو کہتے ہیں کہ بچے کو چھڑانے کے لیے ڈیل کرو تو وہ کیا کرے گا۔ ظاہر ہے قانون سے ناواقفیت کی بنا پر اُسے ہر و ہ کام مجبوری میں کرنا پڑے گا جو اِس وقت کا تقاضا ہوگا۔

سکول، کالج میں پڑھنے والے بچے سے اگر کوئی سرِ راہ اُلجھ پڑتا ہے اور لڑائی کے نتیجے میں سر پھٹ جاتا ہے یا شدید زخمی ہو جاتا ہے، پولیس کیس بنے گا تو اس معاملے کو قانون کی نظر میں کیسے حل کیا جائے گا، بچہ قانون نہیں جانتا اور نہ ہی اس کے والدین جانتے ہیں، یہاں اختیار، دولت، واقفیت اور دھونس کام آئے گا، دسیوں کیسز کو تجربے سے گزار کر دیکھا ہے، یہی بچے بڑے ہو کر معاشرے کے لیے ناسور بن جاتے ہیں جو قانون سے ناواقفیت کی بنا پر قانون کو ہمیشہ ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

تعلیمی سلیبس وضع کرنے والے اداروں اور حکومتِ وقت کو چاہیے کہ وہ ترجمۃ القرآن کی طرح قانونی تعلیم کی مبادیات کو بھی پانچویں جماعت سے بی اے کے نصاب میں کا حصہ بناکر باقاعدہ پڑھایا جائے، میٹرک، انٹر اور بی اے کے طالب علموں کے لیے پولیس انتظامیہ کی طرف سے مختلف جرائم کی نوعیت، اقسام، سزا اور عدالتی چارہ جوئی کے بارے میں ورکشاپ منعقد کروائی جائیں تاکہ قانونی تعلیم سے نا واقفیت کی وجہ سے ایک کثیر تعداد جو قانون کو ہاتھ میں لیتی ہے، ان نوجوان کو قانون سے مدد لینے کا طریقہ کار، قانون کے دائر ے میں رہنے کے آداب اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی سزاؤں کے بارے میں جملہ آگاہی ہو سکے، اس فعل سے نوجوان نسل جرم کرنے سے پہلے سوچے گی اور زیادتی ہونے کی صورت میں قانون کی تعلیم سے واقفیت کی بنا پر اپنا دفاع کرے گی جس سے معاشرے کی جملہ اقدار میں توازن پیدا ہوگا جس سے مجموعی صورتحال میں اعتدال اور ٹھہراؤ آئے گا۔

اسی طرح عدالت کی ٹرائل سمری کا پورا طریقہ کار ابتدائی معلومات کے ساتھ بچوں کو بتایا جائے، پاک فوج کے بارے میں بچوں کو آگاہ کیا جائے کہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت میں اس ادارہ کا کردار کتنا اہم ہے۔ نوجوان نسل عدلیہ، انتظامیہ اور مققنہ کے بارے میں جو معلومات سوشل میڈیا کے ذریعے حاصل کر رہی ہے وہ اتنی تباہ کُن ہے کہ یہ معلومات ان بچوں کو ریاست کے خلاف کر رہی ہے، 09 مئی کے واقعہ کے بعد نوجوان نسل میں پاک فوج کے بارے میں جو منفی تاثر اُبھرا ہے وہ بہت خطرناک ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ انتظامیہ کے اداروں کی مثبت، تعمیری اور کلیدی خدمات کو مختلف سمینارز اور ورکشاپس میں سامنے لایا جائے۔ نوجوان نسل کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، ملک کی ترقی اور خوشحالی کا واحد انحصار نوجوان نسل کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی ریاست اس معاملے میں پوری طرح ناکام ہو چکی ہے، حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ بیرونِ ممالک اگر ویزہ فری ملے اور پاسپورٹ کی شرط ختم کر دی جائے تو کروڑوں نوجوان رات کی رات ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں۔

نوجوان نسل کی ملک کے بارے میں اس طرح کی سو چ تباہ کُن ہے، اداروں کو غفلت کی نیند سے بیدار ہونا پڑے گا اور اپنے کردار سے نوجوان نسل کو آگاہ کرنا ہوگا اور انھیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ ریاست کے جملہ ادارے آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور آپ کی ہر ممکن مدد کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں، ملکی سالمیت کے استحکام کے لیے یہ قدم اُٹھانا اب نا گزیر ہوچکا ہے اور دیر تو پہلے ہی بہت ہو چکی۔

Check Also

Riyasat Se Interview

By Najam Wali Khan