Talaq Kyun Di Jaye?
طلاق کیوں دی جائے؟

"تم شادی کر لینا" یہ آخری جملہ تھا جسے سننے کے بعد میں عدالت کی سیڑھیوں سے نیچے اُترا۔ یہ ہماری آخری ملاقات تھی، مدت گزری، ہم ملے نہ کبھی مل سکیں گے۔ بیٹی کا جیب خرچ عدالت نے ماہنامہ مقرر کر دیا تھا جس میں سال کے بعد 10 فیصد اضافہ بھی لاگو ہے۔ بیٹی سے پندرہ دن کے بعد عدالت میں ہفتے کے روز ملاقات کی جاسکتی ہے۔
آخری ملاقات کے بعد میں سیدھا گھر آگیا۔ دل بہت دُکھی تھا۔ گزشتہ دو برس سے آئے روز عدالتوں میں پیشیوں کی ذلت آمیز کارروائی سے نجات کے بعد جیسے سبھی آلام ختم ہو گئے۔ جی بھر کر دو، تین دن ڈیپ سلیپ یعنی گہری نیند لے کر شدید دباؤ کی غالب شعوری کیفیت کو پسِ پُشت ڈالنے کی کوشش کی۔
جب حواس نارمل ہوئے تو چائے بنائی۔ کرسی پر بیٹھ کر، رشتے کی ہاں سے لے کر طلاق کے بعد آخری ملاقات تک کی واردات کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے کی کوشش کی۔ 2018 میں گھر والوں نے رشتہ دیکھنے کی غرض سے میرے سامنے رشتوں کے پرپوزل رکھے۔ ہمارے ایک ماموں ہمارے گھر کے چھوٹے بڑے فیصلے کرتے آئے تھے۔
اماں کی ماموں سے ذہنی کیمسٹری میچ تھی، اس لیے یہ دونوں بہن بھائی ہمارے فیصلے کرتے تھے۔ ابا جان کو اللہ میاں کی گائے ڈیکلیر کرکے خانگی معاملات و مسائل سے حتیٰ الاامکان دور رکھا جاتا تھا۔ ان کا کام روزی کمانا اور لا کر اماں کے ہاتھ پر رکھ دینا تھ۔ اماں جانے اور گھر کے جملہ معاملات کی انجام دہی جانے۔
میری غیر موجودگی اور لاعلمی میں میرے لیے کئی رشتے دیکھے گئے تاہم اماں کو سکول کی اُستانی پسند تھی، جبکہ ابا، کو ایک پڑھی لکھی بہو کی خواہش تھی۔ ماموں کی بیٹیوں کے رشتوں کے لیے میں نے رضا مندی ظاہر نہیں کی تھی، اس بات کا قلق ہونے کی وجہ سے شائد ماموں چاہتے تھےکہ میرا رشتہ کسی ایسی جگہ ہو جہاں مجھے ناکوں چنے چبوائے جائیں اور یہ عبرت دلائی جائے کہ کس طرح بڑوں کے آگے منہ کھولا جاتا ہے اور ان کےکیے گئے فیصلوں کے خلاف بغاوت کی جاتی ہے۔
2018 کے نومبر کے وسط میں ہمارا رشتہ ایک مستند وچولا کے ذریعے سابقہ بیگم کے گھر والوں کو دکھایا گیا۔ اس وقت گاؤں کے مکان زیرِ تعمیر تھے۔ بیگم کے گھر والے زیرِ تعمیر گھر کی مٹی پر بیٹھ کر ہمیں پسند کر گئے۔ 31 دسمبر 2018 کو ہمارا نکاح ہوگیا۔ نکاح کے بعد ویڈ لاک پالیسی کے ذریعے ہم شہرِ لاہور ٹرانسفر ہو کر آگئے۔
بیگم کی سرکاری ملازمت کا یہ پہلا فائدہ براہ راست ہماری جھولی میں پڑا، تو فرطِ محبت سے دل باغ باغ ہوگیا۔ 23 مارچ 2019 کو ہماری شادی یعنی بیگم کی رخصتی کا وقت طے پایا۔ یہ معاملہ بخوبی بھی طے ہوا۔ رشتے کے انتخاب سے لے کر شادی کے دن تک ہمارے گھر والوں اور بیگم کے گھر والوں کے درمیان مجھے نہیں معلوم کہ کون سی شرائط کا تبادلہ ہوا جنھیں باہمی افہام و تفہیم سے قبول کر لیا گیا۔ ان شرائط کا پنڈورا باکس رفتہ رفتہ بعد میں کھلا جو ہماری طلاق کا سنگِ بنیاد بنا۔
مکلاوے والے دن چھوٹی بہن کا اپنے خاوند سے جھگڑا ہوا جو ہماری شکست کی پہلی وجہ بنا۔ اسی دن بیگم کو ساتھ لے کر آناً فاناً لاہور میں بنے ہوئے گھر میں چلے آئے۔ یہ دن حیران کُن تھا، یعنی بغیر سوچے سمجھے، اعلانِ بغاوت کر دیا گیا جس کی پاداش میں عبرت ناک سزا سنائی گئی جس کا اطلاق ایسا صبر آزما تھا کہ نانی دادی سب یاد آگئی۔
شادی کے بعد کوئی دو ماہ گزرے ہوں گے کہ چھوٹی چھوٹی بے وجہ باتوں کو لے کر ہمارے اختلافات شروع ہوگئے۔ بیگم کی طرف سے اپنے گھر کی طرزِ زیست اور رکھ رکھاؤ کے معیارات کے اختلافات تھے جبکہ میری طرف سے میرے گھر والوں کی ہمارے معاملا ت میں بے جا مداخلت کے قضیے تھے جن کو ٹیبل ٹاک کے ذریعے سمجھانے کی بجائے ہر شخص نے اپنے علم و فہم کے مطابق بڑھاوا دینے کی کوشش کی۔
اسی نزاعات میں رب تعالیٰ نے ایک بیٹی عطا کی۔ سال بھر لڑائی جھگڑے کے دنگل بپا رہے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ان دونوں میاں بیوی کا آپس میں جھگڑا کیا ہے۔ بیگم نے دو، چار دفعہ خلع لینےکی کوشش کی لیکن ہم منکر رہے۔ ایک، دو مرتبہ ہم نے زور آزمائی سے طلاق دینے کی کوشش کی لیکن ہم سے کچھ نہ بنا۔ سینکڑوں اسباب گھر کو بسانے کے لیے موجود تھی۔ ہم میاں بیوی بھی یہی چاہتے تھے کہ ہم بسے رہیں اور گھر کو اُجڑنے نہ دیں۔
پھر ایسی کیا وجہ ہوئی کہ ہمارا رشتہ برقرار نہ رہا۔ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ علیحدگی کی وجوہات پر روشنی ڈالی جائے تو یہ کالم ضخیم کتاب کی صورت اختیار کر جائے گا لیکن بات وہی کہ جب نباہ ممکن نہ رہے تو الگ ہوجانا بہتر ہے۔ بیگم کو مجھ سے ہزار شکوے اور شکائیتں رہیں۔ پہلے پہل جو خوبیاں مجھ میں گنوائیں گئیں وہ آخر کو میری کمزوریاں ثابت ہوئیں۔ بیگم میں جو اوصافِ حمیدہ موجود تھے وہ ہمیں زہر لگنے گلے۔
ایک دوسرے کو کتا، کتا کہنے میں طرفین کے خاندانوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جہاں تک ممکن ہو سکا، ایک دوسرے پر طعن وملامت کے پتھر اُچھالے گئے۔ "جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی" والی ضرب المثل کے مصداق ہی جب میاں بیوی علیحدگی پر راضی ہیں تو خاندان والے کیا کر لیں گے، یعنی ہم الگ ہو کر رہے۔
علیحدگی کو برسوں گزر چکے۔ بیٹی بیگم کے پاس ہے اور ہم تنہا زندگی کے ایام کاٹ رہے ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے پر گلے شکوے ہیں اور محبت و انس بھی بہت ہے۔ چاہ کر بھی ایک دوسرے کو معاف کر سکتے ہیں نہ ایک دوسرے کی خوشی کے لیے پھر سے ایک ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
ہم دونوں میں کچھ مشترک عناصرِ مخالف ہیں جو ہمیں ایک دوسرے کا مستقل ہمسفر نہ بنا سکیں۔ ہم دونوں کمال درجے کے انا پرست اور گھمنڈی ہیں۔ ہم میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانےکی شدید آرزو ہے۔ ہم دونوں میں پڑھا لکھا ہونے کا تکبر، فرعونیت کی حد تک پایا جاتا ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے بہن بھائیوں سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ ہم دونوں زمانے کے مصائب و آلام کے مارے ہوئے ہیں۔ ہم دونوں نے اپنے خاندان کے لیے بہت کچھ قربان کیا ہے۔ ہم دونوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پڑھائی کی اور اعلی ملازمت کے حصول کے لیے پاپڑ بیلے ہیں۔
ہم دونوں خوش شکل اور ذہین ہونے کے ساتھ شاطر و چالاک اور حد درجہ کنجوس واقع ہوئے ہیں۔ ہم دونوں زمانے کی رسموں کے باغی اور اپنی ذات کے طلسم میں مبتلا ہیں۔ ہم دونوں عجیب و غریب سوچ و افکار کے مالک ہیں۔ ہم دونوں زندگی کو سنجیدگی سے لینا اور اعتدال کا رویہ اختیار کرنا بے وقوفی سمجھتے ہیں۔ ہم دونوں اپنا روپیہ پیسہ ایک دوسرے پر خرچ کرنا حرام اور ناجائز سمجھتے ہیں۔
ہم دونوں دین کے معاملے میں جاہل ہونے اور دُنیا کے حوالے سے سیانے پن کا راگ الاپتے ہیں۔ ہم دونوں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے عزیزوں و احباب کی مداخلت کو اپنی شکست کی وجہ سمجھتے ہیں۔ ہم دونوں زندگی بھر ایک دوسرے کے لیے تنہا بیٹھے رہنے کا اعادہ کیے ہوئے ہیں جبکہ تجدیدِ نکاح کے مذہبی و معاشرتی جائز مواقع سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کریں گے۔
ہم دونوں اس انتظار میں ہیں کہ دوسرا پہل کرے اور میرے پاؤں پر گر کر معافی مانگ لے تو مزید ساتھ رہنے کا سوچا جاسکتا ہے۔ ہم دونوں بیٹی کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنے کو تیار ہیں لیکن بیٹی کے لیے اپنی جھوٹی انا، خود ساختہ تکبر اور مصنوعی ڈھٹائی کو ترک کرنا گوارا نہیں کرتے۔ ہم دونوں اپنے آپ کو زمانے کا مظلوم ترین انسان سمجھ کر معاشرے سے ہمدردی سمیٹنے میں ایک دوسرے سے سبقت لیے ہوئے ہیں۔
ہمیں احساسِ ندامت سے قطعاً فرق نہیں پڑتا کہ ہماری وجہ سے دو خاندان تباہ و برباد ہو گئے۔ ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم نے کتنے دلوں کو دکھایا ہے، کتنے معصوم اور بے گناہ لوگوں پر تہمتیں دھری ہیں اور کتنے انسانوں کو بے قصور دشنام طرازی کے نشتر سے گھائل کیا ہے۔ ہمیں کوئی سمجھانے والا نہیں ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں کوئی ورغلا نہیں سکتا، کوئی بہلا نہیں سکتا، کوئی آزما نہیں سکتا۔ ہم اپنا مقدمہ رب کے سامنے رکھ کر ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرانے کی تیاری کر رہے ہیں۔
ہم بیٹی کے سوچتے ہیں لیکن وہ ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہے، یہ سوچ کر ہم افسردہ ضرور ہوتے ہیں لیکن سنجیدہ نہیں ہوتے۔ ہم بے وفا، بد دماغ، جاہل اور حد درجہ بدتمیز ہونے کے باوجود خود کو ذہین و فطین اور مبنی بر حق سمجھتے ہیں۔ ہم یہ ہیں اور ہم وہ ہیں اور ہم ہی ہم ہیں۔ وغیرہ وغیرہ
بات یہ ہے کہ دو انسانوں کو مذہبی رشتے میں جوڑنے کے لیے ہزاروں لوگوں کی کوشش اور محنت شامل ہوتی ہے۔ یہ لوگ رشتہ کرتے وقت کبھی یہ نہیں سوچتے کہ جن دو، انسانوں کو ہم آپس میں جوڑ رہے ہیں کیا یہ برس ہا برس ایک دوسرے کے ساتھ چل بھی سکیں گے یا نہیں۔ جن خصائص و اوصاف کو سامنے رکھ کر رشتہ کر رہے ہیں، کیا وہ اس قدر اہم اور متعلقہ ہیں کہ انھیں کی بنیاد پر رشتہ کامیابی سے تا دمِ آخر چلتا رہے گا۔
عموماً دیکھا گیا ہےکہ رشتے کے انتخاب سے لےکر شادی کے دن تک ہر طرف سے جھوٹ بولا جاتا ہے، سبز باغ دکھائے جاتے ہیں، زمین سے پاؤں اوپر اُٹھا کر یقین دلایا جاتا ہے۔ کچھ نہ ہونے کا یقین اور کچھ ہو جانے کے اندیشے کو بے معنی اور لایعنی قرار دیا جاتا ہے۔ کسی کو اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ یہ رشتہ چند دن چلنے والا ہے۔ اس کے باوجود ناچتے گاتے اور پھدکتے پھرتے ہیں۔
پاکستانی مڈل کلاس معاشرے میں شادیاں انسانوں سے نہیں ہوتیں، ایک دوسرے کے مال و اسباب اور جائیداد سے ہوتی ہیں۔ لڑکا لڑکی کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا، طرفین کے گھروں کی وسعت سے لے کر گھر میں موجود اشیاء کی فراوانی سے رشتے کی ہاں اور ناں کا معاملہ نپٹایا جاتا ہے۔ آپ کیا دے سکتے ہیں اور آپ کیا لیں گے سے بات شروع ہوتی ہے۔
خواب دکھانے سے لے کر تعبیر جھٹلانے تک رام لیلا کا سوانگ منافقت و دکھاوے کے اسٹیج پر رچا جاتا ہے۔ ہر ممکنہ کوشش کے باوجود جب رشتہ برقرار نہیں رہتا تو طرفین کے سوکالڈ پڑھے لکھے، مشاق تجربہ کار معمر افراد، یعنی فیصلہ سازی کے پنچایتی ماہر ین روبرو بیٹھ کر ایک دوسرے کو کتا کتا کہتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمہاری بیٹے میں سارا قصور ہے ہماری بیٹی تو معصوم اور فرشتہ سیرت ہے۔
سوال یہ ہےکہ جب شادی کے وقت پلیٹیں بھر بھر کر بریانی کی کھائی جاتی ہیں، چکنی بوٹیوں کے انبار تلے بھوک کی تشنگی بجھائی جاتی ہے تو طلاق کے موقع پر منہ سے انگارے کیوں برستے ہیں۔ شادی کی طرح طلاق کے معاملے کو بھی باہم افہام و تفہیم سے بیٹھ کر سلجھا لینا چاہیے۔ رشتے کے انتخاب کے وقت جب لڑکی لڑکے سے پوچھا نہیں گیا تو طلاق کے وقت انھیں کیوں قصور وار ٹھہرا یا جاتا ہے۔ لڑکا اگر نکما، جاہل، نامرد، بے روزگار، نکل آیا ہے تو، اب طعن وملامت کرنےکا کیا فائدہ۔
پاکستانی مڈل کلاس معاشرے میں شادی تو دُھوم دھام سے کی جاتی ہے، ہر کوئی خوشی سے ڈھول کے آگے بھنگڑا ڈالتا ہے۔ طلاق و خلع کے وقت سب کے منہ کیوں سوجے ہوتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ طلاق و خلع کے وقت رب تعالیٰ کے فرامین اور دین کی تعلیمات یاد آجاتی ہیں جبکہ شادی کے وقت دین انھیں تعلیمات کو پس پشت ڈالتے ہوئے محض دُنیا داری کے تقاضوں کو اولیت دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں شادی کا طریقہ کار درست ہے اور نہ طلاق و خلع کا۔ ہر چیز میں منافقت، دکھاوا، زور زبردستی اور جبر کا نظام نافظ ہے۔
جس کا بس چلتا ہے، دوسرے کو پچھاڑنے اور ذلیل و رُسوا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنے لڑکے کو سمجھانے کی بجائے لڑکی والوں کو دنگل میں پسپا کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ لڑکی کے نقص کو واضح کرنےکی بجائے لڑکے کو نامرد قرار دےکر قصہ تمام کر دیا جاتا ہے۔ دو، انسان جب بالغ ہو گئے اور شادی کے قابل ہوگئے تو شادی کرنے والے ان دو بالغ افراد کو بٹھا کر یہ کیوں سمجھا نہیں سکتے کہ دیکھو بھئی! ہم نے آپ کی رضا مندی سے شادی کروادی۔
اب آپ نے اپنی زندگی کے نظام خود چلانا ہے۔ ہماری ضرورت ہوگی تو ہم مشورے اور راہنمائی کے لیے آجائیں گے لیکن اپنی ناکامیوں کا سارا نزالہ ہم پر مت گرائیں۔ ہم صرف سہولت کار ہیں اس سے زیادہ ہماری مداخلت آپ کے معاملات میں نہیں ہوگی۔ آپ باشعور اور بالغ ہیں، اپنی زندگی کے فیصلے آپ دونوں نے خود کرنے ہیں۔ اگر آپ دونوں کو یہ محسوس ہو، کہ ہمارا باہم نباہ مشکل ہے اور ہم ساتھ نہیں رہ سکتے تو ہمیں بلا کر اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیجیے، یا خود اپنی مرضی سے الگ ہو جائیے۔
ہم سے مدد لیں گے تو ہم کوشش کریں گے کہ بیٹھ کر معاملات کو سلجھایا جائے بصورت دیگر ہنسی خوشی بغیر الزام و قصوروار ٹھہرائے ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں۔ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں یا سوچی جاسکتی ہیں۔ پنچایت کے ماہرین اور فیصلہ ساز والدین و احباب کو ایسا کرنے سے موت پڑتی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے ہاں شادی، طلاق، خلع اور علیحدگی کے معاملات و مسائل کا کسی کو علم نہیں ہے۔ یہ ہر گھرکی کہانی ہے۔ کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں طلاق وخلع کے معاملات نہ ہوئے ہوں۔
جہاں شادی ہوتی ہے وہاں طلاق بھی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ شادی پر خوشی منانے والے طلاق کے وقت رونا دھونا کیوں کرتے ہیں۔ ایک کو چھوڑ کر دوسرےکے پاس جانے کے لیے اتنا ذلیل و خوار کیوں ہونا پڑتا ہے۔ ایک دوسرے سے ذہنی ہم آہنگی نہیں ہو سکی تو دونوں بیٹھ کر فیصلہ کر لیں کہ کیا کرنا چاہیے۔ جب کوئی صورت واضح نہ ہو تو ہنسی خوشی ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں۔
پاکستانی معاشرے میں 90 فیصد طلاقیں عدالتوں میں ہوتی ہیں۔ طلاق کے بعد جیب خرچ، سامان کی واپسی، بچے کا خرچہ، بیوی کا نان و نفقہ غیرہ ایسے پچاسوں قسم کے مقدمات جھوٹے سچے کیے جاتے ہیں۔ طلاق کے بعد خود بھی عدالتوں میں خوار ہو تے ہیں اور مخالف کو بھی خوب ذلیل کیا جاتا ہے۔
کیا ہم جنگل میں رہ رہے ہیں، کیا ہمارے ہاں شعور کی کمی ہے، کیا ہم جاہل، گنوار اور بالکل نکمے ہیں۔ میں نے ایک عورت کو طلاق دی یا میں نے ایک مرد سے خلع لے کر علیحدگی اختیار کر لی۔ کیا اب میں ساری عمر شادی نہیں کروں گا۔ یہ تو ممکن نہیں ہے، شادی کرنی ہے تو مخالف جنس سے ہی کرنی ہے۔ یعنی عورت مرد سے اور مرد عورت سے شادی کرے گا۔ ایک عورت چھوڑ کر دوسری عورت سے شادی کرنے کے لیے پہلی والی عورت کو عزت کے ساتھ الگ کرنے سے دوسری عورت کا حصول آسان کرنے میں کیا دقت ہے۔ اسی طرح ایک مرد کو چھوڑ کر دوسرے مرد کے پاس جانے کے لیے پہلے مرد سے حُسن سلوک سے علیحدگی کےمعاملات کر لینے میں کیا قباحت ہے۔
ستم یہ ہےکہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ میرے معاملے میں بیگم نےآٹھ دس کیس عدالت میں کیے تھے جبکہ میرا محترمہ اور ان کے گھر والوں سے یہی تقاضا رہا کہ تھانوں عدالتوں میں جا کر معاملے کو نپٹانے سے بہتر ہے کہ ایک جگہ بیٹھ کر بات کر لیتے ہیں اور مہذب انداز میں الگ ہوجاتے ہیں۔
دو برس کی خواری کے بعد یعنی دس بارہ لاکھ روپے ضائع کرنے کے بعد، ایک دوسرےکے خاندان کو ذلیل و رُسوا کرنےکے بعد، ایک دوسر ے پر ہر طرح کے نیچ الزامات لگانے کے بعد، ایک دوسرے کو کبھی ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھنے کی نہج پر پہنچانے کے بعد بھی باہم بیٹھ کر ہی معاملات طے پائے گئے تو کیا فرق رہا، ایک پڑھے لکھے اور جاہل و گنوار انسان میں۔
ہم پڑھے لکھے ہوں یا جاہل و گنوار، شادی کے وقت سبھی معاملات نہایت سیلقے اور عمدگی سے کرلیتے ہیں لیکن علیحدگی کے وقت جنگل کے درندوں کی طرح ایک دوسرے کو چیر پھاڑنے کے درپئے ہو جاتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں عورت کے معاملے میں مرد نے ہمیشہ عورت سے زیادتی کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت نے ہمیشہ معاملے کو طول دینےکی بجائے باہمی افہام و تفہیم سے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی ہے لیکن مرد حضرات اپنی اکڑ اور جھوٹی مردانگی کے دکھاوے کی وجہ سے عورت کو ذلیل کرنے اور کسی جگہ کا، نہ چھوڑنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔
طلاق ہونے اور گھر نہ بسنے کی موٹی موٹی پانچ چھے وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ طرفین کی ماں اور بڑی بہن، دوم، عورت کا مرد کی خواہش کے مطابق جہیز نہ لانا، سوم، بہو کا خاوند کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی بے لوث چاکری نہ کرنا، چہارم، ملازمت کرنے والی بیوی کا اپنے خاوند کو تنخواہ نہ دینا، پانچ، بیوی کا مشترکہ گھر میں یعنی جوائنٹ فیملی میں ساتھ نہ رہنا۔ چھے، مرد کا جنسی اعتبار سے بیوی کو مطمئن نہ کر سکنا۔ سات، مرد کا بے روزگار رہ کر بیوی پر ظلم و ستم کرنا۔ اس سے آگے کی وجوہات زیادہ اہم نہیں ہے۔ ان وجوہات میں کوئی ایسی وجہ نہیں جو بات کو طلاق تک جائے۔
مذکورہ مسائل کا حل یہ ہےکہ میاں بیوی جہاں رہنا چاہتے ہیں وہ رہیں، ماں باپ کی خدمت بیوی پر فرض نہیں ہے۔ ملازمت کی کمائی خاوند کو دینےکی بیوی جبراً مجاز نہیں ہے۔ ماں اور بڑی بہن کی مداخلت میاں بیوی میں کسی صورت جائز نہیں۔ جوائنٹ فیملی میں تب تک رہا جائے جب تک خود اپنی کمائی سے یا والدین کی وراثت سے الگ گھر نہ بن جائے۔ مرد، جنسی طور پر کمزور ہے تو بیوی علاج ہونے تک صبر کرے۔
ایک بات تو طے ہے کہ جب تک عورت جہیز کے ٹرک بھر کرمیاں کے گھر لاتی رہے گی، طلاق کے اسباب جنم لیتے رہیں گے۔ جہیز میاں کے گھر پر قبضہ کرنے کا موثر ذریعہ ہوتا ہے۔ عورت کو جہیز دینے کی بجائے تعلیم اور شعور دیجیے۔ جہیز بنانا خاوند کی ذمہ داری ہے، وہ اپنی مرضی سے جس چیز کی ضرورت ہے اپنے گھر میں بیوی کے آنے سے پہلے ارینج کر لے۔
دوسرا، شادی کے موقع پر برات کی رسم کو بالکل ختم کرنا ہوگا۔ بارات کے دن گھر کے مخصوص افراد کے علاوہ یعنی دس افراد سے زیادہ شریک نہیں ہوں گے۔ ولیمہ پر خواہ ہزاروں لوگوں کو میاں صاحب بلالیں۔ اس ترتیب کو درست کرنا ضروری ہے۔ کالم طویل ہونے کے پیشِ نظر اواخر میں یہی کہوں گا کہ طلاق لینے کی ایک وجہ ہوتی ہے اور ساتھ رہنے کے سینکڑوں اسباب ہوتے ہیں لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ ایک وجہ اہم ہو جاتی ہے اور سینکڑوں اسباب بے معنی ہو جاتے ہیں۔
طلاق سے پہلے اور بعد کی زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ طلاق دینے کے سو بہانے ہوں اور بسے رہنے کی ایک وجہ ہو تو بسے رہنے میں آفیت ہے۔ طلاق دینے سے پہلے طلاق یافتہ افراد سے ملیے، ان سے پوچھیے کہ طلاق کے بعد کیسی زندگی گزر رہی ہے۔ طلاق یافتہ مرد /عورت کی حیثیت سے معاشرہ انھیں کس نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ان سے پوچھیے کہ طلاق دینے کی وجوہات درست اور مبنی بر حقیقت تھیں یا محض انا، لالچ، خود غرضی، اکڑ، پھنے بازی، جہالت، غرور اور ضد کی وجہ سے زندگی تباہ کرنے کا پچھتاوا ہے۔
زندگی خوبصورت ہے، اسے خوبصورت بنائے رکھنے کی کوشش میں جہاں پھول ہاتھ کو چھوتے ہیں وہیں خار ہاتھوں کو زخماتے بھی ہیں۔ رب تعالیٰ نے ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا ہے۔ خوشی کے ساتھ غم اور ہنسی کے ساتھ افسردگی ہے۔ زمین ہے تو آسمان بھی ہے۔ اللہ کے بندو! زمین کے ساتھ وابستہ رہو، آسمان بننے کی خواہش میں زمین سے مت کٹو۔
بے شک رب تعالیٰ کو طلاق انتہائی نا پسند ہے۔ رب تعالیٰ کی نا پسندیدہ چیز کو شوق سے دعوت دینے والے مردود قرار دے کر عبرت بنا دیے جاتے ہیں۔ میں عبرت کی جا، ہوں اور یہ کہانی آپ کو دعوت فکر دیتی ہے کہ ایسے نا پسندیدہ عمل سے حتیٰ الا امکان گریز کیجئے۔ نہ چاہتے ہوئے کبھی یہ نوبت آجائے تو فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے آپ میں نقص ٹٹولیے۔ جذبات سے ہٹ کر، غیر جانبدار ہو کر، اللہ کو حاضر و ناظر جان کر، صدقِ دل سے یہ ناراضی و ناچاقی کی وجوہات پر غور کیجئے اور یہ سوچئیے کہ کیسے گھر کو بچایا جاسکتا ہے۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آئے تو رب تعالیٰ سے مدد مانگیے۔ جس جگہ نزاعات ہے وہاں سے چند دن کے لیے دور چلے جائیے، روزے رکھیے، اعتکاف میں بیٹھ جائیے، شمالی علاقہ جات میں چلے جائیے، دوستوں کے ہاں پناہ لے لیجیے۔
یہ بھی ممکن نہ ہو تو خاموش ہو جائیے، ہتھیار ڈال دیجئے، پسپائی اور شکست کو جز وقتی قبول کر لیجیے۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو رب تعالیٰ سے مدد مانگیئے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں، جب انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے آپ فیصلہ کریں گے تو سبھی نقائص اپنی ذات میں نظر آئیں گے۔
اگر آپ مرد ہیں تو عورت کو بسانا آپ کا کام ہے، طلاق دے کر مرد بننے سے بہتر ہے گھر بسا کر عورت بنے رہیے۔ اگر آپ عورت ہیں تو مرد کو سنبھالنا آپ کا کام ہے، مرد کو محبت کی چادر میں سمیٹ لیجیے، اس کے پاؤں میں گر جائیے، اسے کسی طرح رام و راضی کر لیجئے۔
میں نے یہ تجزیہ سب کچھ کھو دینے کے بعد کیا تھا۔ آپ یہ تجزیہ پہلے کیجیے۔ خدا، آپ کو استقامت دے۔ آمین۔