Pakistani Samaj Ustad Ki Izzat Kyun Nahi Karta?
پاکستانی سماج اُستاد کی عزت کیوں نہیں کرتا؟
پاکستانی سماج میں اُستاد کی عزت کیوں نہیں ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر مکتبہ فکر سے برابر اُٹھایا جا رہا ہے۔ 5 اکتوبر ہر سال یومِ استاد کے طور پر دُنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ دُنیا بھر میں اُستاد کی تکریم کے حوالے سے سیمنار اور محافل کا انتظام کیا جاتا ہے جہاں اساتذہ کی خدمات کا تحسین آمیز انداز میں نہ صرف اظہار کیا جاتا ہے بلکہ اساتذہ کے جملہ کام و خدمات کو سراہتے ہوئے انعام و اکرام سے بھی نوازا جاتا ہے۔ پاکستان میں 5 اکتوبر آیا اور گزر گیا۔ کہیں کوئی سمینار اور ٹیچر ڈے کی سلیبریشن کا اہتمام مین اسٹریم میڈیا پر دکھائی نہیں دیا۔
پاکستانی مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر سیاست کے گٹھ جوڑ اور توڑ جوڑ کی خبروں کا چرچا ہے۔ پاکستانی سماج کے چار بڑے مسئلے ہیں۔ نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان۔ ان تین شخصیات نے پاکستانی مین اسٹریم میڈیا کو یرغمال بنا یا ہوا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر ان شخصیات کی حرکات و سکنات اور جملہ افعالِ سیاست گردی کے علاوہ اور کچھ دیکھانا اور سامنے لانا گویا ایک بے کار اور لایعنی عمل ہے۔
پاکستانی سماج کو مذکورہ تین شخصیات نے تنزل کے جس دھانے پر پہنچا دیا ہے وہاں سے واپسی کا سفر ناممکن ہے۔ تقسیم کے بعد سے تنزل کا یہ سلسلہ شروع ہوا جو ہنوز تسلسل سے جاری ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جناح کی وفات کی خبر سامنے آئی۔ لیاقت علی خان کا قتل اخبارات کی زینت بنا۔ فاطمہ جناح کی سیاست میں مداخلت سے سیاسی بے وفائی کا قصہ۔ ایوب خان کے مارشل لا کی داستان۔ بھٹو کی مقبولیت سے قتل تک کی کہانی ہو۔ ضیا الحق کی طویل آمریت۔ نواز شریف کی ڈرامائی شوخیاں۔ جنرل مشرف کی بدمعاشیاں اور اواخر میں عمران خان کی زہر آلود گالیاں۔
گذشتہ پچھتر برسوں میں مین اسٹریم میڈیا پر جرنیلوں اور سیاست دانوں کی جملہ کارگزاریوں کی داستانوں کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ سیاست کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جسے مین اسٹریم میڈیا تک رسائی ہونا چاہیے۔ کسی بھی ملک کا سماج ایک اندھے، بہرے اور گونگے بچے کی طرح ہوتا ہے جس کی آنکھ، کان اور حسِ ادراک اس ملک کا میڈیا ہوتا ہے۔ میڈیا پر جو دکھایا جاتا ہے وہی سماج کا علمی مظہر ہوتا ہے۔ سماج میں پنپنے والی مثبت اور منفی اقدار کی تعمیر و تشکیل اور تخریب و تسوید میں میڈیا کا کلیدی کردار ہے۔
اُستاد کو معمار کی حیثیت حاصل ہے اور طالب علم کو اس کا خام مسالہ تصور کیا جاتا ہے۔ اُستاد اپنے علم کے ذریعے سماج کی ترتیب کرتا ہے اور اسے دُنیا کے بہترین اور مثالی سماج کے سامنے کھڑا ہونے کی طاقت بہم پہنچاتا ہے۔ پاکستانی سماج میں اُستاد کی اہمیت سب پر عیاں ہونے کے باوجود اس سے جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ پاکستانی سرکاری و نجی سکولز، کالجز اور جامعات میں اُستاد کی عزت کا معیار کیا ہے؟ اس پر کچھ بھی کہہ لیا جائے اور سمجھا لیا جائے، حقیقت کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاتا۔
سرکاری سکولز کے اساتذہ پر آج کل انتظامیہ کی سختی کا پریڈ چل رہا ہے۔ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ سکولز کو بند کر دیا جائے۔ وجہ یہ سامنے لائی گئی ہے کہ اساتذہ بچوں کو کچھ نہیں پڑھا رہے۔ سوال یہ ہے کہ اساتذہ سکولز میں غیر حاضر کیوں ہیں؟ سکولز میں اساتذہ کی تعداد بچوں کے تناسب سے کس نے پوری کرنی ہے؟ اساتذہ کو قصور وار ٹھہرا کر انتظامیہ کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ سکولز کے اساتذہ کو پاکستان میں ہونے والے ہر طرح کے الیکشن میں ڈیوٹی پر مامور کیا جاتا ہے۔ مردم شماری استاد کرے گا۔ پولیو کے قطرے استا د پلائے گا۔ الیکشن کے ووٹ استاد ڈلوائے گا۔ سیاسی جلسوں میں استاد جائے گا۔ سیاست دانوں کے لیے گراؤنڈ استاد بھرے گا۔ وزیر اعظم کے استقبال میں استاد تماشائی بنے گا۔ استاد کو پڑھانے کے علاوہ ہر کام میں استعمال کیا جائے گا۔ جب استاد کو سکول میں رہنے ہی نہیں دینا تو پھر یہ الزام اس پر کیوں لگایا جائے کہ وہ کلاس روم میں نہیں آتا۔ بچوں کو نہیں پڑھاتا۔
انتظامیہ نے استاد کو اللہ میاں کی گائے سمجھ لیا ہے کہ اس سے جو بھی کام لیا جائے یہ مزدور ہر وقت بے مول دستیاب ہے۔ پاکستانی سماج میں جہاں دیگر اداروں میں غافل، سست اور ہڈ حرام کی کثرت ہے وہاں شعبہ تعلیم میں بھی سست، غافل اور نالائق اساتذہ کی کمی نہیں ہے۔ شعبہ تعلیم میں وابستہ اساتذہ کی تنخواہ کا موازنہ عدلیہ، انتظامیہ اور سول سروسز کے اداروں سے کرکے دیکھ لیں۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ پاکستانی سماج کی اخلاقیات کو تباہ کرنے والا سیاست دان ہے یا اُستاد۔ پاکستانی سماج میں منفی سیاست کی ترویج، منفی مذہبی منافرت کی تبلیغ، منفی تہذیبی انتشار کی تفہیم اور ملکی حب الوطنی کی تقسیم کا بیج کون بو رہاہے۔ اساتذہ کو ان کے کام اور کام کے معیار کے حوالے سے پرکھ ٹٹول کر دیکھیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا سلیبس اور نجی تعلیمی اداروں کا سلیبس کیا ایک جیسا ہے۔ زمین آسمان کا فرق ہے میاں!
سیاست دان کا بیٹا ایچی سن میں پڑھتا ہے اور غریب کا بیٹا سرکاری سکولز میں جس کا استاد مردم شماری کی نکیل سے گذشتہ چھے ماہ سے باندھاہوا ہے۔ پاکستان کے اندر سیکڑوں پاکستان بستے ہیں۔ جس کے پاس دولت کا جتنا بڑا غلہ ہے وہ اُسی قدر پُر آسائش، سہولتوں سے آراستہ اور بے فکری مدام کےپاکستان میں رہ سکتا ہے۔ اساتذہ کو نالائق ثابت کرنے سے، ان کی کارکردگی کو صفر دکھا کر سرِ عام رُسوا کرکے کیا ملے گا بھائی!کچھ کرنا ہے تو تعلیمی اداروں میں سیاست کی مداخلت کو ختم کریں۔ اساتذہ کی تنخواہوں کو عدلیہ، انتظامیہ اور سول سروسز کے برابر نہ سہی تاہم قریب قریب کر نے کی ہمت دکھائیں۔ شاہانہ اور بادشاہانہ اداروں کی طرح بجلی کا بل اور گھر کا خرچہ انھیں بھی دیں۔
سوال یہ ہے کہ ملک چلانے والے جب خود تعلیمی اداروں کی کارکردگی کو سوالیہ نظر سے مین اسٹریم میڈیا پر دیکھائیں گے توپاکستان کے تعلیمی نظام پر سوال اُٹھانے والوں کو کیسے روکا جائے گا۔ دُنیا بھر میں کوئی ایک مثال ایسی سامنے لائیے کہ جہاں تعلیمی اداروں میں سیاست کی مداخلت ہوتی ہے۔ اساتذہ کو کٹھ پُتلی کی طرح اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دُنیا بھر میں دُنیاوی ترقی کا واحد راستہ تعلیم کا حصول (مادری زبان میں) ہے۔ پاکستان کی اپنی کوئی زبان ہی نہیں ہے۔ کبھی ہم عرب بن جاتے ہیں، کبھی انگریز اور کبھی ترک۔ آج کل ہم ارتغرل غازی بن رہے ہیں۔
ہماری کل ہی سیدھی نہیں ہے۔ سیدھا سا اصول ہے۔ طاقتور کا غصہ ہمیشہ کمزور پرنکلتا ہے۔ ہماری غلطیوں، کوتاہیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کیجیے اور غصہ بھی کیجیے لیکن ہمیں اتنی عزت تو دیجیے کہ ہم بہ حیثیت اُستاد آنکھ اُٹھا کر چل سکیں۔ بنیادی ضرورتوں کے حصول کی فکر سے ماورا ہو کر پاکستانی سماج کے پروردہ نونہالوں کی مثالی تربیت کر سکیں۔ ماتم اس بات پر ہے کہ ہم کلاس میں بچوں کو گالی گلوچ اور نفرت آمیز روئیے سے اجتناب کا درس دیتے ہیں اور آپ مین اسٹریم میڈیا پر آکر اپنے حریفوں کو الف ننگی گالیاں بکتے ہیں اور چور، ڈاکو، لٹریے، بدمعاش کہہ کر نہ صرف مخاطب کرتے ہیں بلکہ انھیں چور، ڈاکو اور غدار ثابت کرکے چھوڑتے ہیں۔
جناب عالی! بچہ ہم سے کچھ نہیں سیکھ رہا۔ بچہ آپ سے وہ سب کچھ سیکھ رہا ہے جو آپ شعوری اور لاشعوری طور پر سیکھانا چاہتے ہیں۔ بچے ہماری عزت نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے ہمیں جھوٹا اور آپ کو سچا سمجھتے ہیں۔ دن رات چوبیس گھنٹے آپ کے ارشادات کو سُنتے ہیں اور ان پر مِن و عن ایمان لا کر اپنی وفاداری کا اظہار (کمنٹ کی صورت میں)بھی کرتے ہیں۔ ہم بے قصور ہونے کے باوجود قصور قرار دئیے جاچکے۔ مبارک ہو! آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے اور ہم معمارِ قوم ہونے کے باوجود مسمارِ قوم کے خطاب سے نواز دئیے گئے۔