Middle Class Maon Ki Qurbani Ya Be Waqoofi
مڈل کلاس ماؤں کی قربانی یا بے وقوفی

میں اپنے بچوں کو نہیں چھوڑ سکتی، میں نے انھیں اپنی کوکھ سے پیدا کیا ہے، بے شک وہ کچھ نہ دے، میں خود ملازمت کرکے اپنے بچوں کو پال پوس لوں گی لیکن بھیک مانگنا گوارا نہیں کروں گی، اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ مجھے اسی طرح ذلیل کرکے خوش ہو نا ہے اور اپنی انا، کو تسکین پہنچانی ہے تو کوئی بات نہیں، وہ اپنا شوق پورا کر لے، میں بچوں کو پال لوں گی۔
یہ بات تو ٹھیک ہے آپ ان بچوں جیسے تیسے پال لیں گی، سوال یہ ہے کہ یہ بچے صرف آپ کے تو نہیں ہیں، آپ دونوں کی باہمی رضامندی سے پیدا کیے گئے ہیں۔ کسی بھی وجہ سے آپ دونوں کی آپس میں نہیں بن رہی تو بچوں کی پرورش و تربیت کا ذمہ آپ اکیلے کیوں اُٹھا رہی ہیں؟ یہ دونوں کی ذمہ داری ہے اوردونوں اس ذمہ داری میں برابر کے شریک ہیں۔
مجھے کچھ فرق نہیں پڑتا، میں ماں ہوں اور ماں اپنے بچوں کے لیے آخری حد تک جاسکتی ہے۔ یعنی اگر تم اپنے بچوں کے لیے سرِراہ بھیگ مانگ کر پیٹ بھرنے کی حالت کوپہنچا دی جاؤ گی تو کیا ایسا کر لو گی۔ جی، ہاں، کیوں نہیں۔ میں ماں ہوں، ایک ماں اپنے بچوں کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے اور باپ؟ وہ انجوائے کرے۔ میں کیاکہہ سکتی ہوں۔
یہ مکالمہ ایک، دو عورتوں سے نہیں ہوا۔ اپنی کہانی سمیت بیسویوں ایسی لڑکیوں یعنی ماؤں سے اس موضوع پر بات ہوئی ہے۔ سبھی کا یکساں جواب ہے کہ میں ماں ہوں اور میں اپنے بچے کو جانور کے حوالے نہیں کر سکتی، بے شک وہ مجھے بچوں کا جیب خرچ نہ دے، بے شک وہ اپنی جائیداد سے حصہ بھی نہ دے، میں ماں ہوں اور ایک ماں اپنے بچوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گی۔
سوال یہ ہے، ہزاروں برس سے ایک عورت بچوں کو پالتے پوستے آئی ہے۔ مرد، اس معاملے میں پتلی گلی نکل جاتے ہیں، کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں۔
پاکستانی مڈل کلاس معاشرے میں شادی کے بعد بچے پیدا کرنے کی اس قدر جلدی ہوتی ہے جیسے ان کے کان میں کسی نے پھونک دیا ہے کہ ٹھیک نو ماہ کے اندر پہلا بچہ پیدا ہو جانا چاہیے اور چار پانچ سال میں پانچ بچے ہر حالت میں پیدا کرنے ہیں خواہ اس کے لیے سُولی پر لٹک کر یہ عمل انجام دینا پڑے۔ انھیں یوں گمان ہوتا ہے جیسے ہم نے بغیر وقفہ کے پانچ چھے بچے پیدا نہیں کیے تو ہمارے حصے والے بچے رب تعالیٰ کسی اور کو دے دے گا اور ہم ان بچوں سے محروم رہ جائیں گے۔
شادی کے بعد میاں بیوی کو سوائے مباشرت کے کوئی اور کام نہیں ہوتا۔ دن رات یہی کام ہوتا ہے کہ ایک حمل کے بعد دوسرا ٹھہرتا جائے اور بچوں کی فوج ایک دوسرے کو مارنے کاٹنے کے لیے تیار ہو جائے۔ پاکستانی معاشرے میں بارہ تیرہ برس کے بچے بچیوں کےذہن میں شادی کے تصور کو شعور ی و لاشعوری طور پر انڈیلنا شروع کر دیا جاتا ہے۔
اُولادِ آدمؑ کو بالغ ہوتے ہی ایک بات کی دُھن سوار ہوتی ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو، ہماری شادی ہو جائے۔ اس خواہش کو پیدا کرنے اور شدید کرنے میں سب سے زیادہ قصور ہمارے والدین کا ہے جو دن رات یہی درس دیتی ہیں کہ شادی کے بعد کیا کرو گے، شادی کے بعد میرا منہ کالا کرواؤ گی، شادی کے بعد مجھے جوتے کھلواؤ گی، شادی کے بعد یہ کرنا، شادی کے بعد وہ کرنا، شادی کے بعد یہ ہوگا، شادی کےبعد وہ ہوگا۔
لڑکے لڑکیاں اپنے دوست احباب اور اعزاہ و اقربا کے درمیان اُٹھتے بیٹھتے درسی کتابوں کی طرح شادی کے معاملات کا سلیبس یاد کرتے رہتے ہیں جس کا امتحان شادی کہ پہلی رات شروع ہو کر اُس وقت مسلسل جاری رہتا ہے جب تک پانچ چھے بچے پیدا نہ ہو جائیں۔ ایک دوسرے کےاوپر چڑھے رہنے کاعمل یوں تو ستر بہتر برس جاری رہتا ہے تاہم پانچ چھے بچوں کی پیدائش کے اس عمل میں سرحدی بارڈر کی حفاظت کی طرح لمحہ بھر غافل رہنا گوارا نہیں کیا جاتا۔
پاکستانی مڈل کلاس معاشرت میں شہروں کی نسبت دیہات میں ایک تصور یہ پایا جاتا ہے کہ اگر ایک بچہ لے کر بیوی کو پیٹ سے خالی رکھا گیا تو کوئی دوسرا، میری جگہ بھرائی کر جائے گا۔ اس وہم و اندیشے کے پیشِ نظر میاں صا حب اپنی بیگم پر کسی صورت بھروسہ نہیں کرتا اور دن رات پیٹ بھرائی کے مذہبی ومعاشرتی مردانہ تفاخر کے عمل کو انجام دینے کی بھرپور کوشش جاری رکھتاہے۔
ایک تصور یہ بھی پایا جاتا ہے کہ خاوند صاحب تین چار برس میں تین چار بچے لگاتار پیدا نہیں کرے گا تو اس کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ اس میں مردانہ پن کی کمزوری ہے اور یہ نامرد ہے اس لیے اس سے کچھ بن نہیں رہا۔ سرِ راہ لوگ طعنے مارتے ہیں کہ تجھ سے کچھ نہیں بنتا تو ہماری سہولت بلامعاوضہ دستیاب ہے، ہم سے استفادہ کر لو۔ یہ جملہ سننے کے بعد میاں صاحب کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے، میاں سیدھے گھر جاتے بیوی کو پکڑتا ہے اورحمل ٹھہرا کر نیچے اُترتا ہے۔
حمل ٹھہرنے کے بعد بھی اسے اپنے نطفے سے حمل کے ٹھہرنے کا یقین نہیں آتا، بدگمانیوں کے غلیظ تصورات سے معمور خیا لات اس کے ذہن میں بچے کی پیدائش کے بعد اُس وقت تک غالب رہتے ہیں جب تک نومولود کے جسم کا عکس اپنے بدن کے مطابق متشکل و منعکس ہونے کا یقین نہ کرلے۔
پاکستان میں آبادی کے بے تحاشا اضافے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ بچوں کی پیدائش کا معاشرتی دباؤ ہے جسے کسی صور ت نظر اندا ز کرنا میاں بیوی کے بس کی بات نہیں۔ شادی کے تین چارماہ بعد ہر طرف سے ایک ہی سوال سننے کو ملتا ہے کہ گود، ہری ہوئی کہ نہیں۔ کوئی گڑ بڑ ہے یا جنسی کمزوری کا اندیشہ ہے تو ہم مدد کرنے کو تیار ہیں۔ سال گزر جائے تو مشورے ملنے لگتے ہیں، طلاق دے کر دوسری عورت لے آؤ، خلع لے کے دوسرا شوہر تلاش کر لو، اس سے کچھ نہیں ہونے والا۔
دو، تین سال یونہی گزر جائیں تو لوگ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھنے نہیں دیتے، منحوس، بدقسمت اور شوم تصور کرکے خوشی کے مواقع پر مدعو کرناگوارا نہیں کرتے۔ یہ وہ معاشرتی دباؤ ہے جو رشتے کی ہاں کے ساتھ میاں بیوی کے ذہن میں شدت اختیار کرنے لگتا ہے۔ اس دباؤ کے پیشِ نظر لڑکے ہر حوالے سے مرد ہونے کے باوجود اپنی تسلی کے لیےنیم حکیموں کے پاس کُشتے لینے جاتے ہیں جو لاکھوں روپے بٹور کر ان کر مردانگی کا ستیا ناس کر دیتے ہیں اور انھیں ایسے کمپلیکسز کا شکار کر دیتے ہیں انھیں یہ یقین ہو جاتا ہے کہ میں تو نامرد ہوں مجھ سے بیوی کو خوش کیا جائے گا نہ بچے پیدا کر سکوں گا۔
لڑکیوں کو بچوں کی پیدائش اور حمل کے ٹھہرنے کے آزمودہ دیسی و بدیسی طریقہ ہائے مباشرت سکھائے جاتے ہیں۔ گلی محلے کی مشاق تجربہ کار بوڑھی عورتیں اس کام میں پیش پیش ہوتی ہیں۔ یہ فن انھیں گویا وراثت میں ملا ہوتا ہے، ایسے ایسے پوز بتاتی ہیں کہ بغیر کچھ کیے ذہن جنسی تلذذ کی تسکین سے سیر ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ تو بطور ریہرسل لڑکی کے اوپر چڑھ کر انھیں پوز بنانے اور صحیح طرح سے پورا، اندر لیتے وقت درد ہونے کا جھوٹا رونا رونے اور "میں مر گئی، ہائے میں مرگئ" کی نسوانی آوازیں نکالنے کی پریکٹس کروائی جاتی ہے۔
معاشرتی دباؤ کی اس شدت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پہلے تین چار برس میں تین چار بچے پیدا ہو جاتے ہیں۔ بچے پیدا کرنے کے بعد میاں صاحب کو ہوش آتا ہے کہ مجھ سے تو کوئی کام نہیں آتا اور نہ میں کچھ کر سکتا ہوں۔ میاں صاحب کی نااہلی اور نالائقئی کی قلعی کھلنے کے بعد ایک دوسرے پر تہمتیں، الزامات لگائے جاتے ہیں اور گلے شکوؤں کے بم پھوڑے جاتے ہیں۔
میاں صاحب کو چوں کہ بچے پیدا کرنے کے بعد ان کی پرورش و تربیت کے لیے کماکر لانے کا فکر ہی نہیں ہوتا۔ شادی کے بعد والدین بچوں کو کسی کام پر لگانے یا کاروبار کروا کے دینے یا مستقل روزگار اختیار کرنے کی بجائے اپنی گود میں بٹھا کر رکھتے ہیں۔ پہلا بچہ والدین کی خواہش سے پیدا کرنا بحکم والدین فرض ہو جاتا ہے، اس فرض کی انجام دہی یعنی پہلے بچے کی پیدائش تک لڑکا کچھ کرے نہ کرے لیکن بیوی پر چڑھا رہے اور تب تک نہ اُترے جب تک بچہ میاؤں میاؤں کرتے ہوئے شرمگاہ سے اُچھل کر باہر نہ گر پڑے۔
توقع کے برعکس بیٹی پیدا ہونے سے گھر میں کہرام مچ جاتا ہے، خوش قسمتی سے بیٹا پیدا ہو جائے تو مٹھائیاں بٹتی ہیں، ڈھول پٹتے ہیں اور پٹاخے چھوٹتے ہیں۔ یعنی ایک نکمے، نالائق، کند ذہنی اور بے روزگار شخص نے اپنے جیسا ایک اور نمونہ پیدا کرنے کی جو غلطی کی ہے، اُس کی شاباشی شریکوں کو لُللی والا نومولود، وارث دکھا کر دی جاتی ہے۔ اس طرح کی ہلا شیری جب لڑکے کو ملتی ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ روزی کما کر بیوی کے ہاتھ دھرنے کی ضرورت ہی کیا ہے، ماں باپ سلامت رہیں۔ مجھے تو ٹھیک نو ماہ بعد ایک بچہ پیدا کرکے والدین کی جھولی میں ڈالتے جانا ہے۔ اللہ اللہ
پاکستانی معاشرت میں مہنگائی کی ماری ہوئی اکیسویں صدی میں بھی پانچ چھے بچوں سے کم پیدا کرنے کی سزا، نامردی کے طعنے کی صورت دی جاتی ہے۔ ایک، دو بچوں کے بعد وقفہ کرنے کا مطلب معاشرے کی زبان کو اپنے اوپر کھلوانے کے مترادف ہے۔ ہر طرف سے یہی سننے کو ملتا ہے کہ بس، ایک، بس، دو، ہی، ان سے کیا بنے گا، چار، پانچ تو پیدا کریں، فیملی تو پوری کریں۔ اوقات سے زیادہ بچے پیدا کرنے کا رجحان شہر و دیہہ میں برابر ہے۔
میں گاؤں جاتا ہوں تو دوستوں سے پوچھتا ہوں، کیا ہو رہا ہے، اکثر کہتے ہیں کچھ نہیں، فیملی پوری کر رہے ہیں۔ یعنی ان کے خیال میں چھے سات بچے پیدا کرنے بعد کمانے کا سوچا جائے گا۔ یہ دُلہے میاں ہیں جن کی اپنی عمر تیس چوبیس برس کی ہے، چار پانچ بچے پیدا کر چکنے کے بعد مزید فیملی مکمل کرنے کا سوچ کر ہاتھ پاؤں توڑے گھر میں بیٹھے ہیں۔ ان کے والدین سے پوچھا جائے کہ آپ نے گھر میں بچوں کی فوج بڑھانے کے علاوہ انھیں کسی اور کام کے لائق کیوں نہیں کیا تو جناب فرماتے ہیں، اللہ کی مرضی ہے وہ دے رہا ہے ہم کیسے روک سکتے ہیں، جب تک اللہ دیتا رہے گا، آتے رہیں گے، وہ رازق ہے وہ بہتر جانتا ہے۔
یہ جملہ سن کر بندہ اس قدر شرمساری محسوس کرتا ہے کہ چلو بھر پانی میں ڈوب جانےکا من چاہتا ہے۔ بندہ بے بس و لاچار ہو کر آسمان کی طرف دیکھتا ہے پھر اُس مسکین عورت کی طرف دیکھتا ہے جس کے اختیار میں میاں کے نیچے لیٹ کر بچہ جننے کے علاوہ اور کوئی صورت موجود نہیں۔ بڑے آپریشن کے چکر میں 45 فیصد عورتیں زچگی میں جان سے جاتی ہیں لیکن کیا فرق پڑتا ہے۔
اس معاملے میں ہماری مسکین عورت بڑی چالاک پائی گئی ہے۔ اس کے کان میں جانے کس نے یہ پھونک دیا ہے کہ اگر تم نے چار پانچ بچے پیدا نہیں کیے تو اس گھر میں تمہاری ساس نندوں نے قدم نہیں جمنے دینے۔ تمہیں ہر حال میں چار پانچ بچے پیدا کرنے ہی ہوں گے اور وہ بھی مسلسل، تاکہ ساس نندوں کے درمیان تمہیں اپنے بچوں کی کثرت کی وجہ سے نکالنےکی نوبت نہ آئے، اس طرح ساس نندوں کے علاوہ میاں کو بھی بچوں کی فوج سے کنٹرول کرنے میں آسانی میسر آسکے گی۔
اس عورت کے ذہن میں یہ ناسور بھی بھرا جاتا ہے کہ اپنے میاں کو روزانہ اپنے اوپر چڑھایا کرو تاکہ اس کے عضو تناسل کی شدت میں اتنی کمی وقوع پذیر ہوجائے کہ کسی اور عورت کے پاس جانے کا خیال بھی نہ آسکے۔ یعنی اب سبھی کو سبھی سے خطر ہ ہے کے مصداق طرفین سے میدان فتح کرنے کی دُھن سوار ہوتی ہے۔
سوال یہ ہےکہ بچوں کی فوج پیدا کرنے کے بعد ان کی تربیت و پرورش کی ذمہ داری کون لے گا؟ عدالت میں بچوں کی کسٹڈی اور جیب خرچ کے حوالے سے ہر سال لاکھوں کیس کیے جاتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ان معاملات میں مبتلا رہا ہوں۔ میری ایک بیٹی ہے، اُس کا جیب خرچ لگا ہوا ہے، جو، ہر مہینے بیگم کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیتا ہوں۔ عدالت میں فیملی جج کے پاس روزانہ تین سو کے قریب کیسز لگتے ہیں۔ جج صاحب کا کمرہ غسل خانے سے چھوٹا ہے جس میں پانچ بندوں کے کھڑے ہونے کی گنجائش نہیں ہوتی، وہاں تین سو، مقدمات کی سنوائی تو دور، ٹھیک سے حاضری بھی نہیں ہو تی۔
تاریخ پر تاریخ پڑھتی رہتی ہے اور کیس کئی کئی سال فیصلے کے انتظار میں رینگتے رہتے ہیں۔ عورتیں سارا دن عدالتوں کے بوسیدہ بنچوں پر بچے گود میں لیے بیٹھی رہتی ہیں اور مرد، دوسری بیوی کو پھانسنے کے چکر میں دولت و آسائش و وفاداری کے جال بچھاتے رہتے ہیں۔
اس صورتحا ل کو دیکھتے ہوئے جب میں نے بیگم سے مقدمات نمٹانے کے لیے ذاتی طور پر ڈیل کی تو مجھے نامرد کہا گیا اور یہ طعنہ دیا گیا کہ تم کمزور، بزدل، ڈرپوک اور کاہل انسان ہو جو ایک عورت سے ڈر کر اُس کی شرائد پر جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔
ہمارے سماج میں مرد، عورت کے سامنے جھاگ کی طرح بیٹھ جائے تو سمجھ لیجیے کہ وہ مرد ہی نہیں ہے۔ طلاق و خلع کے معاملے میں مرد کی مردانگی ساتویں آسمان پر ہوتی ہے جسے ذرا سا نیچے سرکانے کے لیے پاکستانی عدالتوں کا قانونی سسٹم کئی برس صرف کر دیتا ہے۔ طلاق و خلع کے بعد جب بچوں کی کسٹڈی کا مرحلہ آتا ہے تو ہماری مشرقی عورت بازو پھیلا کر بچوں کو اپنی گود میں لینے کی دہائیاں دیتی ہیں اور روتی چلاتی ہیں مجھے بس میرے بچے دے دو، مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔
سوال یہ ہے، کب تک ایک عورت باہمی رضا مندی سے پیدا کیے ہوئے بچوں کو جان و عزت کی پروا کیے بغیر حالات سے مقابلہ کرتے ہوئے پالتی پوستی رہے گی، مرد اپنی فرعونیت میں سر عام دندناتا پھرے گااورکوئی اسے پوچھنے والا نہ ہوگا۔ طلاق و خلع کے وقت پنچایت میں بچوں کے خرچے اور حوالگی کا فیصلہ کرتے وقت یہ دیکھا گیا ہے کہ 98 فیصد بچوں کی کسٹڈی اور جیب خرچ دینے خاوند اور اس کے گھر والے انکاری ہوتے ہیں۔
اس موقع پر خاوند صاحب کا ایک ہی موقف ہوتا ہے، یہ بچے میرے نہیں ہیں، پتہ نہیں یہ کس کا بیچ ڈلو ا کر لائی ہے اور میر ےنام پر تھوپنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ جملہ سننے کے بعد عورت کی روح کانپ جاتی ہے، اپنی عصمت دری کے خوف سے چپ ہو جاتی ہے اور حوصلہ کرکے کہتی ہے، ہاں یہ بچے تمہارے نہیں ہیں، یہ تمہارا گندہ خون نہیں ہے، یہ کسی اور ہی کا بیچ ہے جومیں اپنی کوکھ میں سواد لینے کی غرض سے تمہاری غیر موجودگی میں ڈلوا، لائی تھی، چوں کہ یہ تمہارے نطفے سے پیدا نہیں ہوئے، تم خود، ان بچوں کی ولدیت سے انکاری ہو، اس لیے آج سے یہ میرے بچے ہیں اور میں ان کی ماں ہوں اور باپ بھی، انھیں میں خود پالوں گی، مجھے کسی سے بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ کہ کر بچوں کی فوج لے کر مجبورعورت اپنے ماں باپ کے رہنے کا آسرا مل جائے تو ٹھیک ورنہ جہاں امان ملے وہاں چلی جاتی ہے، اپنا تن من دھن بچوں کی دیکھ بھال پر صرف کر ڈالتی ہے۔ کسی عدالت میں جاتی ہے، نہ جیب خرچ کامطالبہ کر تی ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ بچے جوان ہو جاتے ہیں، شعور سنبھالنے کے بعد یہاں وہاں سے گن سُن لے کر ہونہار سیدھا ابا جان کے پاس جاتے ہیں اور اُس ماں کو بھول جاتے ہیں جس نے تہمت زدہ زندگی کے ساتھ ان کے بھوکے پیٹ فاقے کاٹ کر بھرے ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے، آخر کب تک عورت مرد کے پھیلائے ہوئے اس جال میں جذباتی ہوکر پھنستی رہے گی اور اپنی زندگی تباہ کرتی رہے گی۔ بچے ماں کے ہوتے ہیں، نہ باپ کے، نہ مذہب و معاشرت کے۔ بچے آدھے ماں اور آدھے باپ کے ہوتے ہیں۔ کسی ایک کو بچے کی پوری کسٹڈی کسی صورت نہیں دی جاسکتی۔ بچے ماں باپ یعنی میاں بیوی دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہیں۔
پاکستانی معاشرت میں طلاق وخلع کی صورت میں مذہب اور قانون میں بچوں کی کسٹڈی اور تربیت کی ذمہ داری ماں کو ترجیحاً دی گئی ہے۔ میں ذاتی طور پر اس تقسیم کے خلاف ہوں۔ اس کی وجہ مذہب و قانون کے اطلاق کی بغاوت کرنا نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک عورت جو طلاق و خلع کے بعد بچے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتی، اسے کیوں زبردستی بچے دئیے جاتے ہیں۔ قانونی طور پر بچے ماں کی خواہش کے برعکس باپ کو دینے کی گنجائش موجود ہے لیکن پدرسری سماج کا جبر قانون کو یہ راستہ اختیارکرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
عورت کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔ عورت کو قربانی کی دیوی ٹھہرا کر اسے جذباتی بلیک میل کرکے اس کا ذہن گیا ہے کہ مرد تو ہوتے ہی بے وفا ہیں، ان کے اندر بچوں کو پالنے پوسنے اور تربیت کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی۔ یہ عظیم کارنامہ صرف عورت ہی انجام دے سکتی ہے، اس لیے عورت کو اس عظیم کارنامے کےحصول میں بڑھ چڑھ کر پیشگی حصہ لینا چاہیے۔
ہماری برصغیری عورت مذکورہ مبالغانہ جذباتی نعروں سے اس قدر متاثر ہوئی ہے کہ اس کی جبلت میں یہ نعرے داعیات بن کر ازخود پیدا ہوگئے ہیں، اس نے خود کو ویسا ہی سمجھنا شروع کر دیا ہے کہ میں بچوں کے بغیر نہیں رہ سکتی اور بچے بھی میرے بغیر نہیں رہ سکتے، اس لیے کچھ بھی ہو جائے بچے تو میرے پاس ہی رہیں گے۔
پدر سری سماج کا یہ ایسا کارگر ہتھیار، ہے جو صدیوں سے کامیابی سے استعمال ہوتا آیا ہے۔ مرد کو اس بات کی دو سو فیصد یقین دہانی ہوتی ہے کہ بچے جتنے مرضی پیدا کر لو، علیحدگی کی صورت میں ان کی پرورش و تربیت کا ذمہ تو عورت کے سر ہی جانا ہے اس لیے مجھے زیادہ سوچنے اور فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس سوجی سمجھی چال کے پیشِ نظر مرد طلاق و خلع کے بعد پتلی گلی نکل جاتا ہے، بے چاری عورت بچوں کا گٹھڑ سر پر اُٹھائے توتی پیٹتی گمنام ہو جاتی ہے اور سوکالڈ مرد موقع پا کر دوسری اور تیسری بیوی گھر لے آتا ہے اور نئے سرے سے بچوں کی پیدائش کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ گویا ایک عورت نے دوسری اور تیسری عورت کو اپنی طرح برباد ہونے اور عمر بھر پیدا کی ہوئی اُولاد کی ذمہ داری نبھانے کے لیے موقع فراہم کر دیا ہے۔ یہ نہیں سوچا کہ مجھے برباد کرنے والا میری طرح کی ایک اور عورت کو برباد کرنے کا راستہ ہموار کر رہا ہے، مجھے اسے روکنا چاہیے تھا، ستم یہ کہ اس بات کا اسے شعور ہی کہاں ہے۔
میرا مقدمہ یہ ہے کہ طلاق و خلع کے بعد بچوں کی کسٹڈی اور تربیت کی ذمہ داری قانونی طور پر مرد کی ہونی چاہیے۔ مذہب کو تبدیل کرنا تو ممکن نہیں لیکن قانون کو تو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ طلاق و خلع کی وجہ بننے والی وجوہ میں نوے فیصد وجوہات لڑکے کے گھر والے وہ فیصلہ ساز افراد ہیں جنھیں بہو میں سوائے کیڑے نکالنے اور نقص ٹٹولنے کے اور کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ طلاق و خلع تک بات جانے کی بنیادی وجہ خاوند کی نااہلی کم اور اس کے گھر والوں کی بے جا، مداخلت زیادہ ہوتی ہے۔
انھیں یہ دیکھ کر آگ لگ جاتی ہے کہ ہمارا خون کسی اور کے لیے سب کچھ کرتا ہے او رہمیں پوچھناگوارا نہیں کرتا، کیوں نہ اس کی طبیعت صاف کی جائے۔ طبیعت صاف کرنے کے چکر میں دونوں کی زندگی کا آنگن ہی صاف کر دیا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں 84 فیصد عورتیں شادی کے بعد بچوں کی ذمہ داری اُٹھائے در، در کی ٹھوکریں کھاتی زندگی کے مشکل دن کاٹنے پر راضی ہو جاتی ہیں۔ انھیں جیب خرچ ملتا ہے اور نہ انھیں دوسرا مرد اپنے ہاں بیوی بنا کر رکھنے کو تیار ہوتا ہے۔ دوسری شادی کی بات ہوتے ہی گود سے چپکے ہوئے بچے کو الگ کرنے کی شرط رکھی جاتی ہے جسے عورت قبول نہیں کرتی، یوں اس کی زندگی دوسرے مرد کی توجہ اور سہارے سے ہمیشہ کے لیے محروم رہ جاتی ہے۔
جس بچے کی خاطر اس نے یہ قربانی دی ہوتی ہے، بڑا ہو کر صاحب زادہ، والدہ سے کہتا ہے، تو نے اپنی جھوٹی انا، ضد اور اکڑ کی وجہ سے مجھے میرے باپ سے برسوں محروم رکھا۔ میں تمہارے ساتھ کبھی نہ رہوں گا، میں اپنے باپ کے پاس ہی جاؤں گا۔ اس طرح زندگی بھر کی قربانی کا صلہ سوائے عبرت ناک شرمندگی کے کچھ اور نہیں ملتا۔
مذکورہ صورتحال کے پیشِ نظر میں ذاتی طور پر اس ذہنیت کی حامل پاکستانی ماؤں کو بے وقوف سمجھتا ہوں۔ ایک مرد کتنی آسانی سے تمہیں بے وقوف بنا کر ساری زندگی کا بوجھ اُٹھانے کے لیے تنہا چھوڑ جاتا ہے اور آپ بڑی آسانی سے اس بوجھ کو اُٹھانا گوارا کر لیتی ہیں۔
اس سوال کے جواب میں مجھے اکثر یہ جملہ سننے کو ملتا ہے: آپ مرد ہیں، آپ عورت کے جذبات کو سمجھ نہیں سکتے، آپ نے نطفہ اندام نہانی میں ڈالا اور بس، آپ کو کیسے محسوس ہو کہ بچہ نو ماہ پیٹ میں رکھ کر جننے کا تجربہ کیسا ہوتا ہے، نومولود کے لمس کا فطری احساس کیساہوتا ہے، تم مرد حضرات ایسا ہی کرتے ہو، تمہیں یہی زیب دیتا ہے، ہم مائیں ہیں، ہم ایسانہیں کر سکتیں۔
یہ بات ٹھیک ہے اور جیسا آپ سوچتی ہیں، ویسا ہی ہوتا ہوگا لیکن سوال یہ ہے، جب تک آپ اسی طرح بے لوث قربانی دیتی رہیں گے، ہم مرد پتلی گلی نکلتے رہیں گے، ایک کے بعد دوسری اور تیسری کے بعد چوتھی بیاہ کر لاتے رہیں گے اور ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینکتے رہیں گے۔ ذمہ داری کی جس اذیت سے تم گزرتی ہو، اُسی مشقت سے مرد کوگزارنا، ضروری ہے تاکہ پتہ تو چلے کہ مالی مدد و خونی سہارے کے بے یارومددگار بچوں کو کیسے پال پوس کر بڑھا کیا جاتا ہے اور معاشرے کی طعن و ملامت کو کیسےسہا جاتا ہے۔
خدا کے لیے علیحدگی کی صورت میں بچوں کی حوالگی اور جیب خرچ وغیرہ کے سلسلے میں جذباتی فیصلے کرنے کی بجائے عقلی فیصلے کیجیے۔ ایک نااہل سے بچے پیدا کرنے کے بعد جب وہ بیچ رستے تنہاچھوڑ کر بھاگنا چاہے تو اسے بھاگنے مت دیجیے، اس کا مقابلہ کیجیے، ہر وہ دروازہ کھٹکھٹائیے جو انصاف کا دعویٰ کرتا ہے، ہمت نہ ہاریے، ڈٹے رہیے، خواہ کوئی ساتھ نہ دے، بچے پیدا کرکے انھیں لاوارث چھوڑنے والا قاتل سے زیادہ قصور وار اور ذمہ داری ہوتا ہے۔ ایک قاتل کو معاف کیا جاسکتا ہے لیکن خون کے لوتھڑوں کی ذمہ داری سے انکاری کو معاف نہیں کیاجاسکتا۔
جس دن عورت طلاق و خلع کی صورت میں بچے کی پرورش اپنے ذمے لینے سے یکسر انکار کر دے گی، گود سے اُتار کر بچہ بیچ رستے رکھ دے گی اُس دن سوکالڈ مرد سماج کو پتہ چلے گا کہ بچہ پیدا کرنے اور پال پوس کر بڑا کرنے میں کتنا فرق ہے۔
خدا کے لیے وفا کے دیوی بننے کی بجائے پریکٹیکل ویمن بننے کی کوشش کیجئے۔ اب وہ دور نہیں رہا کہ بچوں پر قربان کی گئی خوشیوں کا نعم البدل اُولاد کی وفاداری کی صورت مل جائے گا۔ اب وہ زمانہ ہے، جس اُولاد کے منہ میں کبھی ایک نوالے کی بھوک کی کسرنہ چھوڑی ہو، وہ شعور سنبھالنے کے بعد طعنہ دیتی ہے کہ ہمیں آپ لوگوں نے دیا ہی کیا ہے۔ آپ نے پیدا کرکے ہم پر کوئی احسان نہیں کیا۔
میرا مشہور ڈائیلاگ ہوا کرتا تھا کہ میں کون سا آسمان سے آواز یں دیتا تھا کہ خدا کے لیے مجھے زمین پر اُتارو، آپ لوگوں نے باہمی رضا مندی اور خواہش سے مجھے پیدا کیا ہے اس لیے میرا حق ہے کہ میں آپ سے اپنی ضرورتوں کا تقاضا کروں۔ اب جب اپنی ایک بیٹی کو مہینے بعد جیب خرچ بھیجنا پڑتا ہے تو بہت تکلیف ہوتی ہے، برسوں بعد آج اپنے تکرار سے دہرائے ہوئے جملے میں چھپی فرعونیت یاد آتی ہے تو شرمندگی سے زمین میں گڑ جاتا ہوں کہ کس ڈھٹائی سے یہ جملہ والدین کو شرمندہ کرنے کے لیے بولتا رہا ہوں۔
میں سابقہ بیگم کو اس معاملے میں داد دیتا ہوں مجھ ایسے فرعون شخص کو نتھ ڈالنے کے لیے اس خاتون نے بہت پاپڑ بیلے ہیں۔ عزت و ناموس کی پروا کیے بغیر محترمہ نے پریکٹیکل ویمن ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ حالاں کہ وہ مجھ سے زیادہ کماتی ہے لیکن اُس کی کمائی اُس کی اپنی محنت ہے، وہ جہاں چاہے خرچ کرے، مجھ سے جیب خرچ لیا جانا ضرور ی تھا جو لیا گیا ہے اور چودہ سال تک لیا جاتا رہے گا۔ اب میں اسےبوجھ سمجھوں یا تکلیف تصور کروں۔
جس دن عورت طلاق و خلع کے بعد بچے کو میاں کے صحن میں رکھ اپنا آپ لے کر باہر نکلے گی اُس دن سوکالڈ مرد کی مردانگی کاجعلی بھرم پاش پاش ہوگا اور اسے پتہ چلے گا کہ مزہ لے کر بچے پیداکرنے کا مول کیا پڑتا ہے۔ مشرقی سماج کے جبر تلے مسلی ہوئی مظلوم عورتیں اس معاملے میں ذرا سی سنجیدگی پیدا کر لیں تو اگلے دس برس میں ملک کی آبادی میں تیس فیصد تک کمی ہوسکتی، عدالتوں میں آج تین سو فیملی کیسز کی سنوائی ہوتی ہے وہاں پچاس کیسز تک نوبت آجائے۔
مختصر یہ کہ وقت بدل چکا ہے، دُنیا کسی اور ہی، ڈگر پر سوار ہے۔ بچہ مشترکہ پیدا کیا ہے تو مشترکہ طور پر پرورش پائے گا۔ کوئی ایک اس کی تربیت کا مذہبی و قانونی طور پر ذمہ دار نہیں ہے نہ ہوگا۔ جذباتی فیصلہ کرکے لوگوں کو ضبط و صبر دکھانے کی غرض سے اسی طرح بچے کی سو فیصد ذمہ داری خود لے کر مذہب ومعاشرے سے ہمدردی حاصل کرنے کا شوق رکھتی ہیں تو یہ شغل جاری رکھیے۔ آپ کا رونا دھونا، واویلا پھرکسی نے نہیں سننا۔