Istihar Baraye Zaroorat e Rishta
اِشتہار برائے ضرورت رِشتہ
آپ کتنی تنخواہ لیتے ہیں؟ جی! ایک لاکھ تیس ہزار روپے۔ اس کے علاوہ آمدنی کے ذرایع کیا ہیں؟ جی! ہوم ٹیوشن، پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز سمیت آبائی زمین سے معقول آمدنی۔ آپ کے پاس اپنا ذاتی مکان ہے یا کرائے کے مکان میں رہتے ہیں؟ جی! ذاتی ہے۔ کتنے مرلہ کا؟ جی! تین مرلہ کا ہے۔ سوسائٹی میں ہے یا لوکل ائیریا میں؟ جی، لوکل ائیریا میں ہے لیکن سوسائٹی کی طرز پر تعمیر کیا ہے۔ بہن بھائی کتنے ہیں، والدین حیات ہیں یا فوت ہو چکے ہیں، پہلے شادی ہوئی یا نہیں۔ ہماری بیٹی کو ساتھ رکھو گے یا والدین کے ہمراہ وغیرہ وغیرہ۔
ایک طویل سوالات کا سیشن ہونے کے بعد وچولا یعنی رشتہ لائے ہوئے شخص کو اِشارہ کیا گیا۔ جناب نے یوں اِرشاد فرمایا: بہت خوب۔ سب ٹھیک ٹھیک ہے، اللہ خیرے گا۔ اب ہمیں رخصت دیجیے، ہم آپ کو استخارا کرکے بتلائیں گے، استخارا کے نام پر مجھ سے کئی بار مذاق ہو چکا ہے۔ یہ استخارا کیا چیز ہے بھیا! استخارا کا سادہ سا مطلب جو میری سمجھ میں تجربے سے گزر کر آیا ہے وہ یہ ہے کہ جب آپ کو رشتے کے انکار کی کوئی معقول وجہ سمجھ نہ آرہی ہو تو آپ جان چھڑانے کے لیے بیٹے یا بیٹی کے گھر والوں کو اُن کے منہ پر پیار اور اطمینان سے یہ کہتے ہیں کہ دیکھیں جی! ہم تو استخارا پر یقین رکھتے ہیں، اگر آپ کا بیٹا/بیٹی استخارا میں آگئے تو بات آگے بڑھائیں گے نہیں تو پھر جو قسمت میں ہوگا، ہم قسمت کے ہاتھوں مجبور ہیں کہ کچھ کر نہیں سکتے۔
مجھے استخارا کی حقیقت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اعتراض اِس بات پر ہے کہ پاکستانی معاشرے میں اِس وقت ٪91 لوگ استخارا کے نام پر رشتوں کو ٹھکراتے ہیں۔ استخارا کو بطور ہتھیار رشتہ پسند نہ آنے اور رشتہ جوڑ اور برابر کا نہ ہونے کی بنیاد بناتے ہیں۔ اسلام کو پاکستانی معاشرت میں عملی طور پر اس تناظر میں ٹکے کی عزت حاصل نہیں ہے، یہ جملہ سخت ہے، مجھے اس کی نزاکت کا اندازہ ہے لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ اسلام کے اُصول و ضوابط اور اعتقادات کا پاکستانی والدین نے ایسا بُرا حال کیا ہے کہ اسلام پر عمل پیرا شخص باردگر دھوکا کھاکھا کر منہ چھپانے کے لیے جگہ ڈھونڈتا ہے اور تنہائی میں روتا ہے کہ اُولاد پیدا کرکے کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ رشتہ دیکھتے وقت آمنے سامنے بیٹھ کر بیٹی/بیٹے میں جو نقص یا کمی کوتاہی نظر آگئی ہے اُس کی ہم بہ حیثیت والدین نشان دہی نہیں کرتے تاکہ آیندہ آنے والے رشتے سے پہلے اس کمی تا نقص کوتاہی کو دور کیا جاسکے یا پھر رشتے کے معیار کو تبدیل اورریوائز کیا جاسکے۔
پاکستانی معاشرے میں رشتہ دیکھنے کے لیے عورتوں کو آگے کیا جاتا ہے۔ مردوں کا کہنا ہے کہ رشتہ دیکھنے دکھانے کے معاملے میں ہم ذرا سُست اور غیر سنجیدہ ہیں، عورتیں اس کام کو اچھی طرح دیکھ ٹٹول کر کرتی ہیں۔ بھیا! بات سُنو، عورت نے رشتے میں کیا دیکھنا ہے۔ عورت اپنے بیٹے /بیٹی کے لیے وہی کچھ دیکھتی ہے جو اسے اپنے لیے رشتہ دیکھتے وقت چاہیے تھا اور باوجوہ کسی مصلحت کے وہ سب اِسے نہیں مِل سکا جس کی خواہش برس ہا برس سے محترمہ پالے ہوئے ہے۔
عورت یعنی ساس کے نزدیک لڑکی میں ظاہری حُسن اور خوبصورتی ہی نوے فیصد رشتے کی منظوری کی علامت ہوتی ہے۔ مزید اگر وہ سمارٹ ہے، پڑھی لکھی ہے، ملازمت کرتی ہے، امیر خاندان سے ہے، اکیلی ہے تو سونے پر سہاگہ۔ نکاح کی تاریخ لے کر اُٹھتی ہے اور اگر لڑکی دیکھنے میں خوش شکل نہیں ہے تو اِس میں ہزاروں کیڑے نکالے گی۔
یہ کیڑے نما نقص جو صدیوں سے عورتیں نکالتی آئی ہیں، ان میں ناک کا موٹا ہونا، دانتوں کی ترتیب خراب ہونا، ہونٹ موٹے ہونا، کمر زیادہ پتلی ہونا، ماتھا چوڑا نہ ہونا، آنکھیں اندر دھنسی ہونا، گال پچکے ہونا، پاؤں ٹیرھے ہونا، ہاتھوں کی لکیریں نمایاں ہونا، بال رف ہونا، چھاتی بہت چھوٹی ہونا، پیٹ کا بیلی بٹن بد نما، چال بے ڈھنگی ہونا، قد پست ہونا، ہنسی عجیب ہونا، چہرے پر دھبوں کے نشان ہونا، اُنگلیاں موٹی ہونا، کان لمبوترے ہونا، میسنی ہونا، کُھل کر نہ بولنا، شرم و لحاظ نہ ہونا، اُٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ نہ ہونا، کھانا پکانا نہ آنا، اکڑ ہونا، مغروری ہونا، کُنی ہونا، اچھی نہ لگنا، دل کو نہ چھوسکنا وغیرہ سے لے کر ہزاروں ایسے نقص نکالتی ہیں کہ بیٹی والے ہاتھ سے پکڑ کر ساس صاحبہ کو گھر سے دھکا دینا چاہتے ہیں لیکن مجبور سُن رہے ہوتے ہیں۔
اب آتے ہیں لڑکے کا رشتہ دیکھنے والی شخصیات کی طرف۔ جناب! لڑکے کی ماں یا بڑی بہن کے نخرے سنبھالے نہیں جاتے۔ اپنے بیٹے کو مغلیہ سلطنت کا واحد چشم و چراغ و منصب دار سمجھتی ہیں اور نقص نام کی کوئی چیز اپنے برخودار میں نہیں پاتی۔ ایک سے بڑھ کر ایک رشتہ دیکھنے کے لیے سیکڑوں رشتوں کو لڑکیاں دیکھتے ہی ٹھکرا دیتی ہے۔ لڑکا اگر خوبصورت ہے تو پھر دُنیا جہان کی لڑکیاں ایک ہلے میں رَد کر ڈالے گی کہ میرے بیٹے کے لیے کسی جنت کی حور ہی دُلہن بن کر آئے گی۔ بیٹا اگر پڑھا لکھا ہے پھر تو اماں جان کے ٹو پہاڑ پر چڑھ جائے گی اور اُترنے کا نام ہی نہ لے گی۔
بیٹا اگر ملازمت کرتا ہے یا کاروبار میں ٹھیک دیہاڑی لگاتا ہے اور اوپر تلے سے بھی چار پیسے پکڑ لیتا ہے تو تعریفیں کر کرکے بیٹی کے گھر والوں کو ڈپریشن میں مبتلا کر ڈالے گی لیکن رشتہ نہیں لے گی۔ بیٹا اگر تھوڑا کمینہ اور گھٹیا حرکات کا حامل ہے تو اسے دُنیا کا شریف النفس معصوم بچہ گرداننے میں زمین و آسمان کے قلابے ملا ڈالے گی۔ بیٹا اگر باہر منہ مارتا ہے تو ایسے ایسے متاثر کُن انداز سے پردہ پوشی کرے گی کہ بیٹی والوں کو لگے گا کہ معاشرے کے مجموعی کردار کی اعلیٰ ترین مثال اِس کے بیٹے میں نظر آتی ہے۔ بیٹے کے اندر دُنیا جہان کے نقائص ہونے کے باوجود کسی کی بیٹی کے اندر کوئی خوبی اِسے نظر نہیں آئے گی۔
یہ معاملہ تو صرف دیکھنے اور دکھانے کا ہے۔ رشتہ ہو جانے یعنی باہم رضامندی تک بات پہنچنے کا مرحلہ اتنا دُشوار گزار ہے کہ بیٹی والے حالات کی سنگینی کے آگے سرنگوں ہو کر اکثر و بیشتر ہتھیار پھینک دیتے ہیں۔ میں چھے ماہ سے رشتہ کیسا ہونا چاہیے اور رشتہ کرتے وقت کون سی باتوں کا خیال رکھنا چاہیے اور رشتے کیوں ٹوٹتے ہیں وغیرہ ایسے سوالات کو کیس سٹڈی بنا کر پاکستانی معاشرے کا تجزیہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
اس کیس سٹڈی کے نتیجے میں ایسے ہولناک اور تباہ کُن عوامل سامنے آئے ہیں کہ ندامت و حیرانی سے سر جُھک جُھک جاتا ہے۔ بَہ حیثیت پاکستانی والدین کمیونٹی اپنی اُولاد کے لیے ایسا رشتہ تلاش کرتی ہے جس کے بعد دُنیا کا کوئی روگ باقی نہ رہے۔ یعنی ایسا رشتہ ہاتھ لگ جائے جس سے نسلوں کی بھوک اور ننگ ختم ہو جائے۔ ایک ایسی اکلوتی لڑکی جس کے والدین دُنیا میں صرف زندہ اس لیے ہوں کہ بیٹی کو میرے بیٹے سے بیاہ کر اپنے پُرکھوں اور ہاتھوں کی کمائی اِسے دے کر خو دکُشی نما موت کو گلے لگا کر دُنیا سے چلے جائیں۔
ایک ایسا رشتہ مل جائے کہ لڑکا اکیلا ہو، کوئی اس کا والی وارث نہ ہو، زمین، جائیداد، بنگلہ، کار بھی موجود ہو، جو ہماری بیٹی کو دیکھتے ہی پکار اُٹھے کہ یہی ہے وہ حُسن کی دیوی جسے فقط میرے لیے تراش کر زمین پر اُتارا گیا ہے جو میری قسمت میں لکھ دی گئی ہے۔ مختصر مضمون میں اس موضوع کو سمیٹنا ناممکن ہے۔
مختصر یہی عرض کر سکتا ہوں کہ خدا کے لیے اپنی اُولاد کے لیے ایسا رشتہ تلاش کیجیے جو دونوں کے لیے ذہنی، قلبی، جسمانی اور روحانی طور پر ساز گار واقع ہو، دولت، حُسن، جائیداد اور نام و نہاد کے لالچ میں اپنی اُولاد کی زندگی برباد نہ کیجیے۔ آپ پر تو دُنیاوی چکا چوند کے حصول کا جِن سوار ہے اور بظاہری عوامل دیکھ کر آپ نے اپنے بیٹے/بیٹی کو جہنم نما رشتے کی چِتا میں ڈال دینے کے درپئے ہے۔ ذرا ٹوٹے پھوٹے اُن لڑکے لڑکیوں کی زندگی پر نگاہ دوڑایئے جن کی زندگی آپ جیسے والدین کے لالچ نے تباہ کر دی۔ یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تباہ حال بچے بچیاں دو، دو ہاتھوں سے دن رات آپ کو کوستے ہیں اور بُرا بُرا کہتے ہیں لیکن خاموشی کی زبان میں کہ آپ کی فرعونیت اور مذہبی اختیارات کے آگے اِن کا بس نہیں چلتا کہ بے ادبی کی معمولی خطا پر گھر سے نکال دیا جاتا ہے اور جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
خدا کے لیے اگر آپ کے پسند کیے ہوئے رشتے میں کوئی نقص نکل آتا ہے اور باوجود کوشش کے رشتہ نہیں چلتا اور بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے تو علاحدگی اِس قدر خوبصورت اور مثالی انداز میں کریں کہ آگے بڑھنے کے لیے مطلقہ شخص کو یہ نہ کہنا پڑے کہ میرے پیدا کرنے والوں نے میرے ساتھ یہ ظلم کیوں کیا ہے۔
رشتے احساس کی فضا میں پرورش پاتے ہیں، ذمہ داری کے پانی سے پھلتے پھولتے ہیں اور اخلاص کی مٹی میں نمو پاتے ہیں۔ لالچ اس معصوم نہال کو اُگنے سے پیشتر تپتی دُھوپ کے تھپیڑوں سے جُھلسا دیتا ہے۔ خدا کے لیے رشتہ دیکھتے اور پسند و قبول کرتے وقت زمینی حقائق کو مدِنظر رکھیئے۔ جھوٹ مت بولیے، لالچ مت کیجیے۔ دُھوکا مت دیجیے۔ میڈیکل امراض کو مت چھپائیے، پیسے کی ہوس چھوڑ دیجیے۔ مال و منال اور حسب نسب کی کہنہ روایت سے نکل آئیے۔
انسان کو انسان کی نظر سے دیکھیئے۔ آپ نے جو بویا ہے وہی کاٹنا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ گندم بوئی جائے اور سرکنڈے کاٹنے پڑیں۔ آپ مجھ سے زیادہ سمجھدار ہیں۔ میں وہ شخص ہوں جس کی زندگی اسی لالچ کی نذر ہوگئی ہے، تباہ و برباد ہو کر بھی آباد ہونے کی جستجو میں غرق ہوں، نہ چاہتے ہوئے بھی اُن کرداروں کو معاف کرچکا جنھوں نے یہ زہر میری زندگی میں گھولا۔
دُنیاوی زندگی کو رب تعالی نے آزمائش کے نکتہ نظر سے پیدا کیا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کی اُولاد کو کوئی دُکھ نہ پہنچے اور زمانے بھر کی خوشیاں اور کامیابیاں آپ کی اُولاد کی قسمت میں لکھ دی جائیں۔ اُولاد، دولت، شہرت، عزت کو جب آزمائش قرار دے گیا ہے تو یہی اٹل اور ناقابلِ تغیر اُصول ہے جسے ہر حال میں کارفرما ہو کر رہنا ہے۔
یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اس حقیقت کو دل سے قبول کر لیں اور زمین پر قدموں کو محسوس کرتے ہوئے اپنی اُولاد کے رشتے کریں یا اپنی ضد منوا کر اُولاد کی زندگی تباہ کر ڈالیں۔ یا درکھیے! غلطی کی معافی ہے لیکن حد پھلانگنے کی معافی نہیں ہے۔