Intizar Ki Barish Mein Bheegti Larki
اِنتظار کی بارش میں بھیگتی لڑکی

چلیں، ڈاکٹر صاحبہ۔ نہیں، ابھی کچھ دیر اور بیٹھنے کو جی چاہتا ہے۔ وقت زیادہ ہوگیا ہے، سبھی جاچکے ہیں، اب تو ہال والے بھی سامان سمیت رہے ہیں، ہمیں دیکھ کر ہچکچا رہے ہیں۔ آپ بھی کمال کرتے ہیں، اتنی دیر بعد ملے ہیں، کچھ دیر اور۔ اچھا، یوں کرتے ہیں، باہر کسی چائے والے ڈھابے میں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔
ہاں، یہ ٹھیک رہے گا، کتنے برس ہوگئے آپ کے ساتھ چائے پیئے ہوئے۔ چلیں، اُٹھیں۔ ہال سے باہر نکلے تو قریب قریب کوئی ڈھابہ دکھائی نہ دیا۔ شہر میں کوئٹہ چائے والوں کا قبضہ ہے۔ پٹھانوں کو چائے اچھی بنانا آتی ہے لیکن بٹھانے کا سلیقہ ابھی نہیں آیا۔ ہمیں دیسی ڈھابے والے چچا کی تلاش تھی جو ایک زمانے سے فقط چائے بناتا، پیتا اور پلاتا آیا ہو۔ اس کی پرانی کیتلی میں جمے ہوئے برسوں کے دودھ کی مہک باقی ہے، ذرہ ذرہ سے ٹوٹے پرانے کپوں پر جانے کتنے عشاق ہونٹوں کا لمس رقصاں ہے۔ محبت، چائے، کتاب اور نگاہ کبھی جھوٹی نہیں ہوتی۔
یہاں تو کوئی چائے والا موجود نہیں۔ ہم گاڑی یہیں پارک کرتے ہیں، آج پیدل چلتے ہیں، ایک کلومیٹر ہدف مقرر کر لیتے ہیں، قسمت اچھی ہوئی تو ڈھابہ مل جائے گا ورنہ لوٹ آئیں گے۔ ٹھیک ہے، چلتے ہیں، میں ذرا سینڈل اُتار لوں، یہ جوتے مجھے محض دکھاوے کے لیے پہننا پڑتے ہیں حالاں کہ انھیں پہن کر میں ذرا، اچھی نہیں لگتی۔
حقیقت پسند ہوگئی ہو۔ تم نے ابھی محسوس کیا، میں تو شروع دن سے حقیقت پسند تھی، تمہیں ایک نمبر کے دکھاوے باز اور جعل ساز انسان تھے۔ اچھا، یہ باتیں ابھی کرنا ضروری ہیں۔ باتوں کا کیا ہے کبھی بھی، کہیں بھی ہو سکتی ہیں، یہ تو سچ ہے کہ تم ایک نمبر کے دل پھینک فراڈیے ہو، جس کا دل ہزاروں کے لیے دھڑکتا ضرور ہے اور ملا کسی کو بھی نہیں۔
نہیں، ایسی بات نہیں ہے۔ ایسی ہی تو بات ہے، سینکڑوں کو میں جانتی ہوں، ہزاروں کو آپ جانتے ہوں گے۔ دوپٹہ سیدھا کرلو، لوگ دیکھ رہے ہیں۔ اب کیا دیکھنے کو باقی رہ گیا، جو دیکھنے لائق تھا، وہ تمہارے انتظار کی بیل پر کھل کھل کر مرجھا گیا، عورت کا جسم محبت کی مٹی سے گوندھا ضرور جاتا ہے لیکن چاہت کے سراب میں صحرائی ہو جاتا ہے۔
باتیں گہری کرنے لگی ہو، فلسفہ پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ نہیں یار، زندگی نے سکھا دیا ہے کہ انسان کو کسی پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ انسان بنیادی طور پر لالچی، حریص اور دغا باز ہے، اس کی فطرت میں فقط اپنی ذات کی تشہیر کا تکبر بھرا ہے، اس کی سوچ میں منافقت موجزن ہے، اس کی عادات میں جعل سازی دھڑکتی ہے، اس کی طبیعت میں تلون پنپتا ہے، اس کی شخصیت میں عیب جوئی کی لیاقت، اس کی چال میں ظاہر داری ہے، اس کی ہر، ہر، ادا میں سو، سو طرح کے استحصالیہ داعیات کارفرما ہیں۔
بس کرو، خدا کے لیے، آپ کے خیالات بڑے اوٹ پٹانگ ہوگئے ہیں، تم ایسی تو نہ تھی۔ تم بھی تو ایسے نہ تھے، تم جانتے ہو، میں بہت معصوم، نرمل اور کومل جذبات کی حامل لڑکی تھی۔ پہلی بار تمہیں دیکھا تو دل نے مہر لگا دی کہ بس! یہی ہے اور کوئی نہیں، تم جانتے ہو، میں نے پہلی بار نظر بھر کر فقط تمہیں دیکھا اور ہمیشہ کے لیے تمہاری ہوگئی۔ تمہارے لیے تو میں فقط ایک وقت گزاری کا بہانہ تھی مگر میرے لیے تم زندگی کا حاصل تھے اور پھر لاحاصل ہو گئے۔
بھولی بسری کہانیوں کی راکھ ٹٹولنے سے کیا ملے گا۔ بھولی بسری کہانیوں میں اپنے آپ کو ڈھونڈتی ہوں، اُس معصوم، چنچل، شوخ اور الھڑ مٹیار کو ڈھونڈتی ہو، جس کی زندگی کا سرمایہ حیات تم لوٹ کر لے گئے، پلٹ کر کبھی احوال جاننے کی کوشش بھی نہ کی کہ میں کس قیامت خیز سانحات سے گزری۔
میں نے جو ٹھیک سمجھا وہی کیا، یہ ایک سخت فیصلہ تھا جو مجھے کرنا پڑا۔ سارے سخت فیصلے میرے لیے ہی کرنے تھے۔ ہمارا ملنا قسمت میں نہیں لکھا تھا۔ میں قسمت کو نہیں مانتی، قسمت، تقدیر، مقدر وغیرہ سب بکواس ہے، دُنیا عالم ممکنات ہے، یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے، ہر ناممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے، یہاں کرشمے اور معجزے ہر آن ظاہر ہوتے ہیں۔
تمہارا دل کہیں اور تھا اور جسم کہیں اور، میں کبھی کبھی سوچتی ہوں، تم اتنی آسانی سے لوگوں کا دل کیسے توڑ سکتے ہو، پھر خیال آتا ہے تم میں دل ہی نہیں ہے، تم شائد دل سے بنے ہی نہیں ہو، دل اور تم دونوں علاحدہ علاحدہ خلق کیے گئےہیں، میں جانتی ہوں، تم ایک وقت میں ہزار لڑکیوں سے محبت کا دعویٰ تو کر سکتے ہو لیکن سچے دل کے ساتھ کسی ایک کے ساتھ نباہ کرنے کی صلاحیت سے مستقل محروم ہو، میں یہ بھی جانتی ہوں کہ تم نے فقط اپنی اَنا کی تسکین کے لیے مجھے بیچ رستے چھوڑا۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
اُسے کہنا کہ ہوشیار، رہے
عشق رستے میں چھوڑ دیتا ہے
باہر آتی نہیں دراڑ کوئی
ہجر اندر سے توڑ دیتا ہے
تم کو اپنی مثال دیتا ہوں
عشق زندہ بھی چھوڑ دیتا ہے
مجھے لگا، شاعر نے یہ شعر فقط میرے لیے کہے ہیں، واقعی تم نے مجھے بیچ رستے چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔ آج میں دُنیا کے لیے ایک کامیاب عورت ہوں، گاڑیاں روپیہ پیسہ اسٹیس اور وہ سب کچھ جس کے لیے دُنیا ترستی ہے، میرے پاؤں تلے دھرا رہتا ہے۔ میرا خاوند مجھے اس قدر چاہتا ہے کہ میں نظر سے اوجھل ہو جاؤں تو دیوانہ ہو جاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے پندرہ برس تمہارے انتظار میں پوری ایمانداری کے ساتھ گزارنے کے باوجود اپنے ذہن و قلب و روح پر مخالف جنس کا سایہ تک نہ پڑنے دیا لیکن تم لوٹ کر نہیں آئے۔
محسن! تم لوٹ کر نہیں آئے، دن مہینوں اور برسوں میں بدل گئے لیکن تم لوٹ کر نہیں آئے۔
وہ رہا دیسی ڈھابہ، بالکل ویسا ہی جیسا ہم سوچ رہے تھے۔ چلو، وہاں بیٹھ جاتے ہیں۔ ہاں، یہ جگہ ٹھیک ہے۔ چچا! دو، چائے، چینی کم اور پتی نارمل اور ہاں، پکا کر دینا بالکل ویسا ذائقہ ہو جیسا ہم آپ سے توقع کر رہے ہیں۔ نہیں چچا، ہم اسی ٹوٹے ہوئے بنچ پر ہی بیٹھنا چاہتے ہیں اور ہاں! ہمیں روزمرہ استعمال والے کپ میں چائے دینا، ہم پرانی وضع کے ہیں، اتفاقاً مل بیٹھے ہیں۔
آپ پانی لیں گی۔ نہیں، بس چائے پینے کا من تھا، باتیں کرتے کرتے نہیں ہی نہیں چلا، ہم اتنی دور آگئے۔ تمہارے شکوے ختم ہوتے تو پتہ چلتا۔ اچھا، باتیں نہ بناؤ، یہ بتاؤ، آج کل کس کی زلفوں کے اسیر ہو، شاعری کرتے ہو، یا توبہ کر چکے اور کچھ کمانے کی فکر بھی ہے یا بھابھی کی کمائی پر نظر رہتی ہے۔
نہیں، اب میں بدل گیا ہوں، محبتوں کے کاروبار سے بے نیاز ہوگیا ہوں۔ بڑی بیٹی سکول جاتی ہے، بیٹا بھی چھوٹا ہے، دونوں بہت شرارتی ہیں، بیٹے کا نام عارفین اور۔۔ بیٹی کا نام میں جانتی ہوں۔ ہاں، تو کیا، تم مل نہ سکی تو کیا تمہارے نام سے تمہاری یاد کا تصور تو رہتا ہے۔
بھابھی کیسی ہے۔ ٹھیک ہے، خوش رہتی ہے، بچوں سے لگاؤ زیادہ رہتا ہے، مجھ سے ہزاروں گلے ہیں لیکن زبان پر نہیں لاتی۔ کبھی کبھی بے چین ہو کر بہک جائے تو کہتی ہے کہ تمہارے جسم پر میرا اختیار ضرور ہے لیکن دل تک رسائی نہ ہوسکی۔ میں نے اُسے بتا دیا تھا کہ میرے دل میں اتنی وسعت ہے کہ اس میں کل کائنات کی خواتین آسانی سے سماسکتی ہیں۔
میں اس معاملے میں ایسا ہی ہوں، مجھے لگتا ہے مجھے خاتون بنایا جانا تھا پھر اچانک فیصلہ تبدیل کیا گیا۔ جب سے شعور سنبھالا ہے، اپنے اندر کی عورت کو عمر کے ساتھ خود پر غالب ہوتے ہی دیکھا ہے۔ پتہ نہیں کیوں خواتین کو دیکھ کر مجھے لگتا ہےکہ ایسی لاکھوں کروڑوں خواتین میرے دل میں ٹھکانہ کیے ہوئے ہیں، میرا جسم مرد کا ہے لیکن روح عورتوں والی ہے۔
یہ سب بکواس ہے، اگر تم میں ممتا کی ذرا بھی حِس ہوتی تو میرا دامن چھوڑ کر جگہ جگہ منہ مارنے کی نوبت ہی نہ آتی۔ نہیں یار، میں کوئی اور بات کر رہا ہوں، تم ہر بات کو گھما پھرا کر اپنی طرف کیوں لےجاتی ہو۔ اس لیے کہ مرد کو فقط ایک عورت کافی ہوتی ہے۔ ایک عورت کے دل میں مرد کے لیے اتنی محبت ہے کہ کل جہان کی محبتوں کا عرق نکال کر اس کی ہتھیلی پر دھرا جائے تو ہرمل کے دانے سے کم جگہ گھیرے۔
بڑے عجیب آدمی ہو تم ویسے، عمر گزر گئی لیکن نہ سوچ بدل سکی اور نہ خیالات۔ چائے لیجیے بھیا! شکریہ چچا! ایک گھونٹ لے کر کہنے لگی، چائے مزےکی ہے۔ ہاں، واقعی، مزےکی ہے۔ کیک رس لو گی، نہیں یار، اب نہیں۔ یہ تو تمہاری پسند کے ہوتے تھے، ہاں، ایک وقت تھا جب ایک کپ چائے اور دو کیک رس اور سارا دن پار۔ کیا دن تھے یار، بس گزر گئے۔
یہ وقت بھی عجیب ہے، گزر جاتا ہے، کسی کے لیے ٹھہرتا نہیں ہے۔ ہاں، سچ کہا، یہ بھی تمہاری طرح ہے کہ ٹھہرا ہی نہیں۔ یہ تو ہے، انسان وقت کے آگے بےبس ہوتا ہے، وقت کا منہ زور گھوڑا دوڑتا چلا جاتا ہے اور سوار کو بھی دوڑائے لیےجاتا ہے۔ نہیں بے وقوف! وقت کو، اسیر کرنے کی خواہش صداقت سے معمور ہو تو وقت کو لگام دینا کون سی بڑی بات ہے۔ کئی لوگ گزرے جنھوں نے وقت کی رفتار کو تھام کر دکھا دیا کہ انسان اگر چاہے تو کچھ بھی ممکن ہوسکتا ہے۔
ہاں، میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں تمہارے لیے سٹینڈ نہیں لے سکا، دراصل میں ڈر گیا تھا، گھبرا گیا تھا، حالات سے مجبور تھا، ذمہ داریوں کا بوجھ تھا۔ لیکن میں تو تمہارے ساتھ کھڑی تھی نا! غور کرو، ذرا سوچو! پندرہ سال میں کتنے مہینے، دن، ہفتے، گھنٹے اور منٹ ہوتے ہیں۔ میں سمجھ سکتا ہوں، لیکن اب وقت گزر گیا، تم خوش ہو، یہی میں چاہتا تھا، شائد میں تمہیں وہ سب نہ دے سکتا جو آج تمہارے پاس ہے۔
میں نے تم سے کبھی کوئی تقاضا نہیں کیا، فقط محبت کا حصول ہی میری خواہش اور زندگی کا حاصلِ حیات تھا۔ آج میرے پاس جو کچھ ہے وہ تمہاری اُس وقت کی ایک مسکراہٹ سے زیادہ قیمتی اور عزیز نہیں تھا۔ تم نہیں سمجھ سکتے اور کبھی سمجھ بھی نہ سکو گے۔
چائے مزے کی تھی، ختم ہوگئی۔ چلو، واپس چلتے ہیں، کتنے پیسے چچا! ۔۔ نہیں چچا، پیسے لیں آپ، چائے بہت مزےکی تھی، پیسے تو لیں نا۔ آپ بھی کمال کے ہیں چچا۔۔ کیسا بندہ ہے یار، اُس نے چائے کے پیسے ہی نہیں لیے، کمال ہے، اس نفسانفسی کے دور میں آج بھی پرانی اقدار کے حامل لوگ موجود ہیں۔
اُس نے لینے بھی نہیں تھے، وہ بھی اس تجربے سے کہیں گزرا ہے، اس لیے وہ پیسے نہیں لے سکتا تھا۔ تم کیسے جانتی ہو، میں عورت ہوں، مرد کی نگاہ کو پڑھنے کا فطری ہنر رکھتی ہوں، پتہ ہے محسن! عورت فقط ایک نگاہ میں دیکھ لیتی ہے کہ سامنے والے مرد کی نگاہ کے پیچھے ذہن میں کیا چل رہا ہے، رب تعالیٰ نے ہم عورتوں کو ایسی صفات سے آراستہ کیا ہے کہ ہم خود اپنی محافظ ہیں اور کسی کی جرات نہیں کہ کوئی ہمارے وجود کو میلی آنکھ سے دیکھ لے، یہ الگ بات کہ جسے ہم قُرب عطا کر دیں وہ بے شک ہمیں میلا چیکٹ کرکے چلا جائے۔
سڑ ک کے درمیان میں مت چلو، رش کم ہے پھر بھی آمدو رفت تو ہے، بہت پروا ہے میری۔ ہاں نا، پروا، تو ہے۔ کاش، محسن! تم تھوڑا سا حوصلہ کر لیتے اور مجھ پر بھروسہ کرتے، ہم ایک اچھی زندگی گزار سکتے تھے، مل جل کر مشکل وقت کاٹ لیتے، دیکھو، نا، وقت اب بھی تو گزر گیا، لیکن یار، مزہ نہیں آیا۔ زندگی بھی نا، بس، کیا ہے، فقط مٹی کا کھلونا ہے جس کے حصول کی ضد میں ہم ہیرے کھو دیتے ہیں۔ جس نے بھی کہا ہے سچ ہی کہا ہے کہ یہ دُنیا عالمِ امتحان ہے، یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کے لیے آزمائش ہے، دیکھو تم مجھے نہ مل سکے اور میں کسی کو نہ مل سکی۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے کو چاہنے کے باوجود ایک نہ ہو سکے، برس ہا برس کے انتظار کا حاصل بھی انتظار ہی رہا۔ محبت بھی عجیب ہے اور ہم انسان بھی عجیب ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
یاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا
شعر اچھا ہے۔ شعر اچھے ہی ہوتے ہیں، میں شاعری تو نہیں کرتی لیکن سُنا ہے شاعر بہت کرب سے گزرتا ہے پھر کہیں جا کر شعر خلق ہوتا ہے۔ کچھ نیا لکھا ہے تو سناؤ، تمہاری بکواس شاعری پر بھی میں اوائلِ محبت میں مرا کرتی ہے، ہائے کیا دن تھے۔
اچھا، میرے ہمنام شاعر کے اشعار سُنو: ارشاد!
چاہت میں کیا دُنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری
روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی ہے مٹی کی اپنی مجبوری
اک آوارہ بادل سے کیوں میں نے سایہ مانگا تھا
میری بھی یہ نادانی تھی اس کی بھی تھی مجبوری
مدت گزری اک وعدے پر آج بھی قائم ہے محسنؔ
ہم نے ساری عمر نباہی اپنی پہلی مجبوری
میری محبت کی پہلی بارش تم پر، برسی تھی محسن! لیکن کیا فائدہ، تم صحرا تھے، صحرا ہی تھے، زرخیر نہ ہوسکے۔ مجبوریاں بارشوں کو صحرا کر دیتی ہیں ڈاکٹر صاحبہ، میں تو پھر ایک مجبور زدہ شخص تھا جس نے چاہا بھی اور بتایا بھی نہیں۔
نا، نا، یہ مت کہو، تم نے بلک بلک کر مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا، تم نے چاند ستارے توڑ کر لانے کے وعدے کیے تھے، تم نے وہ سب کچھ کرنے کی قسمیں کھائیں تھیں جو میں نے کبھی تصور بھی نہیں سوچا تھا۔
پروین شاکرنے تم جیسے مردوں کے لیے شاید کہا ہے:
کیسے کہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اُس نے
بات تو سچ ہے مگربات ہے رسوائی کی
وہ رہی آپ کی کار۔ پہنچ گئے ہم تو، سبھی جاچکے ہیں، مہمانوں میں ہمیں رہ گئے۔ یہ وہی گاڑی ہے جس کی تصویر پانچ سال پہلے تم نے وٹس ایپ کی تھی۔ جی، وہی ہے۔ گاڑی تو بدل لو، لڑکی تو ہفتے میں بدل لیتے تھے۔
گاڑی بدلنا مشکل ہے۔ واہ، کیا بات ہے، آخر سچ منہ سے نکل ہی گیا تمہارے، یہ ہے تم مردوں کی اصلیت، لڑکی بدلنے میں ہفتہ نہیں لگتا اور گاڑی بدلنے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔
ہم لڑکیوں کی قسمت بھی عجیب ہے، کاش ہم گاڑیاں ہوتیں، بار بار تبدیل کرنے کی نوبت تو نہ آتی۔
بارہ بج چکے ہیں، اب ہمیں چلنا چاہیے۔ پھر کب ملو گی۔ یہ آخری ملاقات ہے محسن! ہم کینڈا سٹیل ہو رہے ہیں، میرے خاوند کو پتہ ہےکہ میں تم سے آخری بار ملنے کی غرض سے بہانہ بنا کر اس فنکشن میں آئی ہوں، وہ مجھے روک سکتا تھا لیکن اُس نے مجھے نہیں روکا، وہ جانتا ہےکہ میرے دل میں اُس کے لیے کتنی محبت ہے اور وہ مجھ پر اندھا اعتبار کرتا ہے، میں اندھے اعتبار کے مرد کو ماضی کے دُھوکے باز عاشق پر قربان نہیں کرسکتی۔
میں تم سے اس لیے ملنے آئی کہ مجھ سے ملنے کی تمہاری دیرینہ خواہش تھی۔ تمہاری خواہش میرے فرض سے معتبر تو نہیں لیکن محبت میں کوئی معیار اور میزان نہیں ہوتی۔ یار، یہ زندگی یوں بھی گزر گئی، ویسے بھی گزر جانی تھی اور ایسے بھی گزر ہی گئی نا۔ کوئی فکر نہیں پڑتا، فکر تبھی پڑتا ہے جب دل میں خلا پیدا ہو جائے۔
چلو، ادھر آؤ، گلے ملو۔ کیا کر رہی ہو، لوگ دیکھ رہے ہیں۔ دیکھنے دو، میں کسی سے نہیں ڈرتی۔ یار، یہ آخری جھپی ہے، اس کے بعد ہم شائد کبھی نہ مل سکیں، میں تمہارے جسم کا لمس اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتی ہوں، کیا پتہ کل ہو نہ ہو، زندگانی کا کیا بھروسہ ہے۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
مجھے رونا آرہا ہے لیکن میں رونا نہیں چاہتی، چلو، اپنا خیال رکھنا، بھابھی کو سلام کہنا اور بچوں کو میری طرف بہت سا پیار کرنا۔ یہ کچھ کھلونے تمہارے بچوں کے لیے اور یہ تصویروں کا البم جس میں ہم دونوں کی یادیں نتھی ہیں، تم رکھ لو، اب یہ میرے کسی کام کی نہیں ہیں۔
یہ انگوٹھی بھی لو، اس کا نگ مجھ سے گم ہوگیا ہے، اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ تمہارے پاس میری کوئی نشانی ہی نہیں، میں جانتی ہوں۔ اچھا، وقتِ رخصت زیادہ سینٹی نہ بنو۔
کبھی میری ضرورت پڑے تو یاد کر لینا۔ میرے پاس جو کچھ ہے وہ تمہارا ہی تو ہے۔
ایک آخری بات!
کیا ہوا جو تم نے مجھے اُس طرح نہیں چاہا
جس طرح میں نے تمہیں چاہا
کیا ہوا جو تم میرے لیے کھڑے نہ رہ سکے
کیا ہوا جو تم بیچ رستے چھوڑ کر چلے گئے
کیا ہوا جو تم سے وعدہ نبھا، نہ ہوسکا
کیا تم جانتے ہو!
میں نے خدا سے زیادہ تمہیں خدا سے چاہا
اور چاہت سے زیادہ تمہیں چاہت سے چاہا
یعقوبؑ کی طرح پندرہ برس تمہارا انتظار کیا
تم، اس بات پر ہمیشہ فخر کرنا
کہ ایک معصوم لڑکی نے اپنی زندگی کا حاصلِ کل
تمہاری محبت کے دکھاوے پر قربان کر دیا
محبت میں کسی ایک کو قربانی دینا پڑتی ہے
الحمداللہ!
یہ انتظار میرے حصے میں آیا
یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے
اچھا۔
خدا حافظ!
خدا حافظ۔