Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Insano Se Wabasta Tawaquat Ka Radd e Amal

Insano Se Wabasta Tawaquat Ka Radd e Amal

انسانوں سے وابستہ توقعات کا ردِعمل

مجھے دو لاکھ روپے ادھار دیجئے تاکہ میں اپنے مکان کی تعمیر مکمل کر سکوں۔ اس وقت میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے۔ آ پ نے خود کہا تھا مجھ سے جب جتنے پیسے چاہیے ہوں گے، لے لینا۔ اس وقت آپ کی مدد کی ضرورت ہے کیوں کہ میں نے آپ کے بھروسے پر مکان کی تعمیر کو وسعت دی تھی، اب آپ اپنے کہے سے پِھر رہے ہیں۔

یار، بات سنو، میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے تم سے کہا تھا کہ میں تمہاری مدد کروں گا لیکن اس کا یہ مطلب تھوڑا ہے کہ اب میں تمہارے لیے خود کو مشکل میں ڈالوں، میرے اپنے بہت خرچے ہیں، میں بڑی مشکل سے گزارہ کر رہا ہوں، اتنے پیسے میرے پاس فی الحال نہیں ہے، میں دس پندرہ ہزار تک مدد کر سکتا ہوں، اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے۔

ٹھیک ہے، آپ نے مجھے یہ احساس دلایا کہ رب تعالیٰ کے مقابلے میں انسانوں پر توقع نہیں کرتے۔ رب تعالیٰ بہترین کار ساز ہے، وہ میری مشکل ضرور حل کرے گا، مکان کی تعمیر مکمل بھی ہوگی اور بر وقت ہوگی۔ یہ ایک واقعہ ہے جو زندگی میں بیشتر افراد کو پیش آتا ہے۔ گذشتہ دو مہینے سے پیسوں کے لین دین کے معاملے میں نت نئے تجربات ہوئے ہیں جس سے سبق ملا ہے کہ رب تعالیٰ کے علاوہ کوئی آپ کی توقعات پر پورا نہیں اُتر سکتا۔

یہ انسانی فطرت ہے، انسان اپنی حیثیت اور بساط سے بڑھ کر کام کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر کام کی تکمیل تک چین سے نہیں بیٹھتا۔ بیٹی کی شادی ہو، مکان کی تعمیر، ولیمہ کا فنکشن ہو، شریکوں سے مقابلہ بازی ہو، یا پھر اپنا آپ دکھانےکی اپنے آپ سے جنگ ہو، انسان ہمیشہ سے جلد باز اور موقع پرست رہا ہے۔ اس کی فطرت اسے نچلا نہیں بیٹھنے دیتی۔

دینِ اسلام نے میانہ روی اور اعتدال کو کارِ حیات کے معاملات کی انجام دہی کے لیے بہترین پیمانہ قرار دیا ہے لیکن انسان اس پیمانے کی پروا کیے بغیر پاوں کو چادر سے زیادہ پھیلاتا ہے۔ عزت اور بے عزتی کا فلسفہ بھی عجیب ہے، انسان چاہتا ہے کہ اس کی عزت کے خود ساختہ معیار کے مطابق لوگ اس سے معاملات کریں جبکہ اپنے تئیں خود کو ٹکے کی عزت نہیں دیتا۔

نفس کُشی اچھی چیز ہے لیکن شخصیت کشی ذرا بھی سراہنے کا عمل نہیں۔ انسان بے جا قسم کی توقعات پال لیتا ہے یعنی فضول اور لایعنی قسم کی توقعات کی تکمیل کے لیے اپنے جیسے انسانوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے اس کی خودداری اور قناعت پسندی کی انفرادیت پتلی گلی نکل لیتی ہے اور خواری و ندامت پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ انسان رفتہ رفتہ خود کو اس نہج پر لے آتا ہے جہاں اسے سمجھنا اور سمجھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک انسان ادارہ بن جاتا ہے اور ادارے کی جملہ ساکھ اس کی جھوٹی انا کا شاخسانہ بن جاتی ہے۔ یہ چاہتا ہے کہ مجھے کائنات کے احسن ترین عنصر کے طور پر دیکھا، سراہا اور پرکھا جائے۔ انسان عجب فطرت رکھتا ہے، دوسروں کے اسباب پر نظر رکھتا ہے جبکہ اپنا آپ کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتا۔ کئی ایک قباحتیں اس نے خود سے اپنے لیے بجا قرار دے کر گود لے رکھی ہیں جن کی وجہ سے اس کی شخصیت مجروح ہو جانے کےباوجود، ان سے پیچھا چھڑانا، اس کے بس کی بات نہیں۔

پاکستانی معاشرے میں گزشتہ دو برس سے جس نفسا نفسی کا دور، دورہ ہے، یہ بھی ایک لعنتِ وسیع ہے جس کی لپیٹ سے شائد ہی کوئی بچا ہے۔ گھر سے باہر قدم رکھتے ہی آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ جنگل کے بھیانک ترین حصے میں پھسل پڑا ہوں جہاں خود کو بچا کر سلامت لے جانا ممکن نہیں۔ ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر براجمان شخص سے لے کر گلی محلے کے نکمے ترین آدمی تلک نفسی نفسی کا راگ سننے کا ملتا ہے۔

انسانوں سے وابستہ اخلاقی و سماجی اور تمدنی توقعات کی گراوٹ کا اندازہ چند مثالوں سے دیکھیے۔ صبح چھے بجے دودھ والے کے پاس گیا، دودھ والے نے دو کلو دودھ برتن میں ڈال دیا، دودھ کی پیمائش والے برتن کو پکڑنے سے مجھے شک ہوا۔ گھر آکر دودھ کو دوبارہ میزان کیا تو پتہ چلا، دو سو گرام دودھ کم ہے۔ سات اخبار والے نے مہینے کا بل دیا، واجبات ادا کرنے کے بعد پرچی پر نظر پڑی تو پتہ چلا کہ چھے دن کا اضافی بل ڈالا گیا ہے۔ آٹھ بجے ناشتہ ملتا ہے، بریڈ نہیں تھی، دکان دار کے پاس گیا، بریڈ ڈیڑھ سو روپے کی تھی، ایک سو ستر کی دی، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ رات کو بریڈ نے خود سے اپنا ریٹ بڑھا لیا ہے۔

نو بجے آفس کے لیے روانہ ہونے سے پہلے سبزی والے سے سبزی خریدنے گیا۔ 80 روپے کھیرا، تول کر دینے کے بعد 100 گرام کم ڈالا اور، سو روپے میں سے دس روپے واپس دے کر باتوں میں یوں لگایا کہ میں دس روپے لینے کی غرض سے دکاندار کا منہ دیکھتا رہا جبکہ دکان دار دس روپے کا نوٹ گود میں گِرا کر مجھ سے یوں بے نیاز ہوگیا جیسے یہ خود ہی میرے پاس از اراہ تلطف محو، گفتگو ہے۔

آفس کے راستے میں حمام کی دکان پر رُکا، خط بنوانا تھا، حجام نے جلد بازی میں اُسترے کے وار سے عین ٹھوڑی کے درمیان کٹ لگا کر ہمارے چہرے کی تابانی میں اضافہ کیا، پانچ سو کا نوٹ دیا تو ظالم نے ڈیرھ سو روپے کاٹ کر بقایا مجھے دیا، یعنی 100 روپے میں خط بنانے والا پانچ سو، کا چینج پچاس روپے رکھ کر دیتا ہے۔ شام تک بقیہ معاملات بھی یونہی ادا ہو رہے ہیں۔

ریاست کی ناکامی کی اس سے بڑی وجہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ اب کسی چیز کا کوئی متعین ریٹ نہیں ہے۔ من مرضی اور مرضی ہی مرضی ہے، کوئی پوچھنے والا اور سرزنش کرنے والا نہیں ہے۔ مزے کی بات یہ کہ سبھی ایک دوسرے کو اپنی مرضی سے لوٹ رہے ہیں اور سبھی ایک دوسرے سے لٹ رہے ہیں۔ ریٹ میں کمی کرنے والے کو دکان سے نکالا نہیں جاتا بصورتِ دیگر رویہ ایسا ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ گویا، اب دکاندار کی مرضی کے ریٹ پر چیز خرید کر دکاندار کا شکریہ ادا کرنا فرض ہوگیا ہے کہ اس نے ہمیں اپنا گاہک بنا کر عزت بخشی ہے۔

اخلاقی تقاضے کیا ہیں اور سماج کس اطوار پر زیست کے جملہ معاملات کی انجام دہی کا تقاضا کرتا ہے، اس سے کسی کو غرض نہیں ہے۔ غزہ میں آئے روز سیکڑوں جانیں مذہب پر قربان ہو رہی ہیں، ان شہدا کے لیے مساجد و خلوت میں نمازوں میں دُعائیں مانگی جارہی ہیں جبکہ اندرونی حالت یہ ہے کہ غزہ میں شہید ہونے والے شہدا کے نام پر لاکھوں روپے نذرانوں کے بٹورے جارہے ہیں۔ اپنے بچے کہنا ماننے سے گریزاں ہیں اور بغاوت کا عَلم اُٹھانے وراثت کی منتقلی کے درپئے ہیں اور حاجی صاحب فجر کی نماز میں غزہ کے لیے رو رہے ہیں۔

عجب صورتِ حال ہے، ایک عجیب وحشت اعصاب پر طاری ہے، یوں لگتا ہے جیسے پاکستانی معاشرے کی بنیاد زمین چھوڑ چکی ہے۔ انسانی فطرت میں یہ عنصر ودیعت کیا گیا ہے کہ انسان ایک دوسرے کے دُکھ سکھ کا ساتھی ہے۔ دینِ اسلام میں انسانوں کو باہم جسم قرار دے کر انسانی عظمت کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے، ماتم اس بات پر ہے کہ مثلِ جسم انسانیت اپنے ہی سپوتوں کے کرتوت سے سسک رہی ہے۔

کبھی نہ ختم ہونے والی نزاعات نے نفسانی خواہشوں کو ایسا بے لگام کیا ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے مجھے اپنا حق لینا ہے چاہے اس کے لیے مجھے لاشوں سے گزرنا پڑے اور خون کی ندیاں بہانی پڑے۔

انسانوں سے وابستہ توقعات کا ماتم رونے کو جی کیوں نہ چاہے کہ اب انسانوں کی شکلوں میں بھیڑیوں سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ گلے ملتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ بغل کے چھرے سے وار نہ کر ڈالے، ہاتھ ملاتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے کہ ناحق قتل کا خون نہ لگ جائے۔ کسی کے سامنے ادب سے جھکتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کہ کوئی دیکھ نہ لے۔

خواب دیکھنے اور آرزوئیں پالنے کے زمانے گئے۔ تعبیریں بھیانک روپ دھارے عجب سوانگ رچائے خوابوں کی تعاقب کے سرفروشاں ہیں۔ کوئی ہے جو یہ کہے کہ میں بہت سکون میں ہوں، مجھے انسانوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ شعرا نے انسانی ارزانی کی خوب ماتم سرائی کی ہے۔ ندا فاصلی نے انسانی منافقت کو جس طرح واضح کیا ہے، یہ انھی کا خاصہ ہے، کہتے ہیں:

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

بشیر بدر نے انسانوں کی نفسیات کو اپنے تئیں خوب واضح کیا ہے۔

اسی لیے تو یہاں اب بھی اجنبی ہوں میں
تمام لوگ فرشتے ہیں آدمی ہوں میں

کیف بھوپالی میری طرح پٹے ہوئے شاعر ہیں، انھوں نے انسانوں سے وابستہ توقعات کا رونا، یوں رویا ہے۔

سایہ ہے کم کھجور کے اونچے درخت کا
اُمید باندھئے نہ بڑے آدمی کے ساتھ

عاصم واسطی نے انسانی فطرت کی منافقانہ تلون مزاجی کو کیا خوب شاعرانہ رنگ دیا ہے۔

مری زبان کے موسم بدلتے رہتے ہیں
میں آدمی ہوں مرا اعتبار مت کرنا

ساحر لدھیانوی نے انسانی فطرت کے بے رحم داعیات کے جابر و حاکم عنصر کو جس طرح بے باکی سے بیان کیا ہے، یہ ان کی شاعرانہ عظمت کا اختصاص ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان بدل جاتا ہے، انسانوں سے وابستہ توقعات کا ماتم کرنا پڑتا ہے جب انسانوں نے خواب دکھا کر تعبیر سے محروم کیا ہوتا ہے۔

انسان معصوم، فرشتہ سیرت ہے لیکن میں کیا کروں اور کیا کہوں کہ مجھ پر انسانوں نے جہاں کئی احسان کیے ہیں وہاں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ نے میں کوئی کسر بھی روا، نہ رکھی ہے۔ انسان کو بدلنا لازم ہے، بدلے، مگر اس قدر نہیں کہ انسانیت ہی بھول جائے۔

زمین نے خون اُگلا، آسماں نے آگ برسائی
جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گزری

Check Also

Bohat Deir Ka Di Meharban Aate Aate

By Dr. Ijaz Ahmad