Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Ghairat Ke Naam Par Qatal Ka Muqadma

Ghairat Ke Naam Par Qatal Ka Muqadma

غیرت کے نام پر قتل کا مقدمہ

غیرت کے نام پر قتل کی واردات آئے روز ہمارے ملک میں ہو رہی ہیں۔ اس طرح کی واردات میں تیزی سوشل میڈیا کے فروغ کے بعد زیادہ آئی ہے۔ غیرت کیا چیز ہے، غیر ت کا تعلق کس بیانیے سے ہے، غیرت کے جذبے میں شدت کب پیدا ہوتی ہے۔ غیرت سے پاکستانی سماج کیا مراد لیتا ہے، غیرت لفظ کی نفسیات کیا ہے۔ غیرت لفظ کی تحلیل نفسی کیسے کی جاتی ہے۔

پدر سماج، غیرت کے تصور کو کس طرح دیکھتا ہے، عورت غیرت کے بیانیے کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے۔ سماج غیرت کے حوالے سے کیا نکتہ نظر رکھتا ہے، قانون غیرت کو کس طرح ہینڈل کرتا ہے، عوامی سطح پر غیرت کی تھیری کیسے کام کرتی ہے، ان پڑھ، جاہل اور بے شعور انسان غیرت کو کیا سمجھتا ہے۔ پڑھا لکھا سوکالڈ ممی ڈیڈی طبقہ غیرت کو کس زاویئے سے آنکتا ہے۔

اس قبیل کے دسیوں سوالات ہیں جو غیرت لفظ کے ساتھ متصل ہیں۔ دو چار دن ہفتے بعد ملک کے کسی کونے میں کسی لڑکی کا قتل ہو جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر آناً فاناً وڈیوز آپ لوڈ ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ دیکھے، سوچے، سمجھے اور آنکے پرکھے بغیر کہ اس قتل کی اصل وجوہات کیا ہیں اور اس قتل کو غیرت کا قتل کہا جا سکتا ہے یا نہیں۔ یہ قتل کسی ذاتی دشمنی کی بنیاد پر ہوا ہے یا کہ محض کسی مذہبی، نسلی، امتیازی، علاقائی یا ذاتی تعصب کی وجہ سے وقوع پذیر ہوا ہے۔

غیرت کے نام پر قتل ہونے والی سینکڑوں خواتین کو آج تک انصاف اس لیے نہیں مل سکا کہ پاکستانی سماج کی پدرسرانہ سوچ نے اس عمل کو مذہبی و سماجی نکتہ نظر سے جائز اور مبنی پر حق قرار دے رکھا ہے۔ ثنا یوسف کا کیس ہمارے سامنے ہے۔ ایک سترہ سال کی لڑکی جس کا تعلق شمالی علاقہ جات سے ہے، پڑھائی کی غرض سے اسلام آباد منتقل ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا کے "ٹک ٹاک" ایپ کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کو منوانے اور "ویوز" حاصل کرنے کے لیے چند مہینوں میں وائرل ہو جاتی ہے۔

ایک خبر نشر ہوتی ہے کہ ثنا یوسف کو کسی نے گولیاں مار کر ابدی نیند سُلا دیا ہے۔ ایک وڈیو کے آنے کی دیر ہے، ہزاروں وڈیوز آپ لوڈ ہو جاتی ہیں۔ ملک بھر کی خواتین مردوں کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیتی ہیں اور مرد غیرت کے نام پر قتل کرنے کے معرکے کو جائز اور ٹھیک قرار دینے کے لیے میدان میں آجاتے ہیں۔

مین اسٹریم میڈیا کا کام اتنا ہے کہ جو خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہے، اُسی کو ہیڈ لائن بنا کر چینل پر نشر کر دیتا ہے، مین اسٹریم میڈیا پر خبر چلنے سے قانونی ادارے حرکت میں آتے ہیں، ایک طوفانِ بت تمیزی کے بعد خبر ہیڈلائن سے غالب ہو جاتی ہے، دو، چار ہفتے بعد پھر کسی معصوم، بے گناہ عورت قتل ہو جاتی ہے روایتی انداز میں پھر سے غیر ت کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری کے بعد مونی ٹائیزیشن کے ذریعے ڈالرز کما لیے جاتے ہیں۔

پاکستانی سوشل میڈیا کسی دلال کی طرح صرف پیسہ کمانے کو اپنا دین و ایمان بنانے ہوئے ہیں۔ ثنا یوسف کیس میں راقم نے جس شخص کو بھی سُنا ہے، اُس کی اپنی ایک کہانی ہے۔ سوشل میڈیا کچھ کہ رہا ہے، مین اسٹریم میڈیا کچھ اور کہ رہا ہے۔ ثنا کے عزیز کچھ اور کہانی سُنا رہے ہیں، مقتول کی شناخت اور پکڑ دھکڑ کو لے کر پولیس کچھ اور ہی کہانی الاپ رہی ہے۔

کوئی کہتا ہے کہ ثنا یوسف نے لڑکے سے دوستی نہیں کی، لڑکے نے غصے میں آکر گولی مار کر محبت کو اپنے ہاتھوں انجام کو پہنچا دیا۔ کوئی کہتا ہے کہ لڑکی کو مشہور ہونے کا شوق تھا، اچھا کیا، اس کا شوق پورا ہوگیا۔ کوئی کہتا ہے، یہ ایک گند تھا، جسے ایک غازی نے بہادری سے صاف کر ڈالا، کوئی کہتا ہے، جیسا کرو گے، ویسا بھرو گے، کوئی کہتا ہے لڑکیوں نے تماشا بنایا ہوا ہے، انھیں اپنا آپ دکھانے کا شوق ہے تو انجام بھی ایسا ہی ہوگا۔

سوشل میڈیا بندر کے ہاتھ لگی ماچس کی طرح ہے جو اپنی مرضی سے جب جہاں جیسے چاہے آگ بھڑکا دیتا ہے۔ قانون اس معاملے میں غلط خبر اور فرضی معلومات وائرل کرنے والوں کو گرفت میں لینے کی روایتی کوشش سے آگے نہیں بڑھتا۔ سائبر کرائم ایجنسی کو سیاست دانوں کی کالز ٹیپ کرنے اور ننگی وڈیوز کو فرانزک کروانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں۔ عدالتیں بھنگ پی کر سوئی رہتی ہیں، برس ہا برس کیسز چلتے رہتے ہیں، تاریخیں پڑتی ہیں، سائلین انصاف کے لیے رُل جاتے ہیں اور انصاف دینے والوں کی تنخواہیں مع مشاہروں کے باقاعدگی سے ادا ہوتی رہتی ہیں۔

شعور سنبھالنے کے بعد غیرت کے نام پر قتل کا سب سے پہلا واقعہ راقم نے اپنے گاؤں میں بچپن میں دیکھا تھا۔ ایک جاٹ فیملی کی بیوہ خاتون تھی، اس کی ایک بیٹی تھی جس کی عمر سترہ برس کے قریب تھی، بیوہ والدہ کے پاس کسی ایک شخص کو اپنی عصمت سونپ کر عزت سے زندگی بسر کرنے کا اختیار نہیں تھا کہ شریکے برادری والے اس پر بازاری عورت کا بہتان لگاتے اور وہ خون کے آنسو پی کر رہ جاتی۔ ایک دن سکول جاتے ہوئے پتہ چلا کہ سمیرا کو کسی نے قتل کر دیا ہے۔

ہم سکول سے واپس جائے وقوعہ پر پہنچے تو پتہ چلا کہ سمیرا کے ایک دور کے کزن کے سمیرا کو پسٹل کی تین گولیاں مار کر ہلاک کر ڈالا ہے۔ بات سے بات نکلی تو پتہ چلا کہ سمیرا کا اپنے کسی کزن سے رابطہ رہتا تھا، اس نے دور کے کزن کی جنسی خواہش پوری کرنے سے انکار کیا، جس پر کزن صاحب نے تین گولیاں مار کر ہمیشہ کے لیے سمیرا کا کام تمام کر ڈالا۔ پولیس آئی، دس بیس چور اچکوں اور ضمانت پر رہا ہوئے نوجوانوں کو شبے کی بنیاد پر اُٹھا کر لے گئی۔ ایک ماہ بعد کسی کو پتہ نہیں تھا کہ سمیرا کے قتل کے بعد اس کے مقتول کا کیا بنا، سمیرا کا قتل غیرت کے نام پر تھا کہ ذاتی تعصب اور بغض کی بنیاد پر، اس کا فیصلہ آج تک نہیں ہوسکا۔

پاکستان میں گزشتہ بیس برس سے غیرت کے نام پر قتل کی سینکڑوں وارداتیں ہو چکی ہیں، ان قتل کی ہوئی خواتین کے قاتل 95 فیصد دو، چار ماہ میں رہا ہو کر دندناتے پھرتے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کی ہولناک واردات کی زیادہ شہرت قندیل بلوچ کے قتل سے ہوئی تھی جس نے پاکستانی سماج کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد پاکستانی عدالتیں حرکت میں آئیں، سیاست دانوں نے بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا، پارلیمنٹ میں قانون پاس کیے گئے لیکن عمل آج تک نہیں ہو سکا۔

قندیل بلوچ کتنی قصور وار تھی اور کتنی بے گناہ تھی، اس کا فیصلہ کوئی نہ کر سکا۔ قندیل بلوچ پر بنی فلم میں بھی مبہم حقیقت کو آشکارا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قندیل بلوچ کے علاوہ آسیہ زبیر، سامعہ شاہد، مشاغل، ایم اداس، سعدیہ شیخ سمیت سینکڑوں خواتین ہیں جنھیں غیرت کےنام پر قتل گیا ہے۔

پاکستانی سماج میں مرد حضرات سے پوچھا جائے کہ غیرت کی چیز ہے، ایک عورت اگر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنا چاہتی ہے تو آپ کو تکلیف کیوں ہوتی ہے؟ پدرسری سماج کی جانب سے غیرت کے نام پر قتل کے فلسفے کی تائید میں سب سے پہلے مذہب کا ہتھیار سامنے لایا جاتا ہے۔ بڑے معصومانہ انداز میں کہا جاتا ہے کہ اسلام عورت کو ایسا کرنے کی اور ویسا کرنے، یوں کرنے کی اور ووں کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

سوال یہ ہے کہ مرد، اس سماج میں جنسی خواہش کی تسکین کے لیے جس پر چاہے ہاتھ ڈال دے، جس کی چاہے گردن دبا دے اور جس کی چاہے چادر پامال کر دے، اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ عورت اگر سر کا دوپٹا بھی سِرکا دے تو قیامت آجاتی ہے۔ اسلام نے منہ اور ہاتھ پاؤں کو کھلا رکھنے کی اجازت دی ہے جبکہ ہمارے سوکالڈ پڑھے لکھے سماج میں سب سے زیادہ منہ اور ہاتھ پاؤں کو ڈھانپ کر رکھنے کی تاکید دکھائی دیتی ہے۔

بہن کا دوپٹا ہوا کے جھونکے سے سِرک جائے تو بھائی کا زناٹے دار تھپڑ گال پر طعنے کی صورت زخم دار نقش چھوڑ جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ ابا حضور کے ساتھ اماں صاحب بھی بیٹے کو سپورٹ کرتی ہیں کہ اس حرام زادی کا گلہ دبا دو، جنم کلموہی سر سے دوپٹہ اُتار کر ہرل ہرل پھرتی رہتی ہے۔ کالجز یونیو رسٹی اور سکولز میں پڑھنے والی بچیاں ہر دو منٹ کے بعد اپنے دوپٹے ٹھیک کرتی رہتی ہیں کہ کہیں دوپٹا سِرک گیا تو دفعتاً تھپڑ پڑ جائے گا۔

پدر سماج معاشرے میں جہاں اتنی گھٹن ہوگی وہاں عورت نے کیا اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا ہے۔ شہر کی صورتحال ذرا مختلف ہے۔ پاکستانی کے دیہات میں آج بھی یہی دستور قائم ہے کہ لڑکی کو اپنے بارے میں سوچنے اور انفرادی رائے قائم کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ بہن اور بیٹی کے معاملے میں بھائی اس قدر متشدد ہیں کہ تھپڑ، لات مارنا ثواب کا کام سمجھتے ہیں۔

پاکستانی سماج میں عورت عمر بھر پٹتی اور مار رکھاتی رہتی ہے۔ بچپن سے لڑکپن تک بھائیوں سے بات بات پر مار رکھاتی ہے، جوان ہونے پر طعنوں، شکوں، الزامات و بہتان تراشی کی زد میں رہ کر مضمحل خوابوں کی تعبیر ڈھونڈے میں ہراسانی کا شکار رہتی ہے۔ شادی کے بعد سسرال میں وہ دُرگت بنتی ہے کہ رہ رہ موت یا د آتی ہے۔

پاکستانی سماج میں عورت کو بُرا کہنا، الزام تراشنا، گالی بکنا، کردار کُشی کرنا، مار پیٹ کرنا اور گھر سے نکال دینے کی دھمکیاں دینا مردوں کا وتیرہ بن چکا ہے۔ اس میں قصور سوشل میڈیا کا نہیں ہے، ہمارے سماج کے فرسوہ نظام کا ہے جس نے مرد اور عورت کی تمیز کو مذہبی بیانیے سے جُدا کرکے معاشرت کے اطوار پر متعین کیا ہے۔ گویا آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔

شہروں میں مقیم لوگ قدرے پڑھ لکھ گئے ہیں، شعوری سطح میں ذرا وسعت آنے سے لڑکیوں کو سانس لینے کی اجازت مل گئی ہے، اس کے باوجود شہر میں رہنے والے مڈل کلاس گھرانوں میں آج بھی وہی گھٹن، قید، پابندی، خوف، ڈر، وحشت کا ماحول غلبہ کیے ہوئے ہے۔

ایلیٹ کلاس ہر دور میں آزاد خیال رہی ہے، اس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اس لیے ان کے لائف اسٹائل کو ہم پاکستانی معاشرت کا حقیقی چہرہ نہیں قرار دے سکتے۔ تھرڈ کلاس کو روٹی کے لالے پڑے رہتے ہیں، انھیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ دوپٹا سر پر ہے کہ گلے میں جھول رہا ہے کہ سرے سے ہے ہی نہیں، ان کی عزت نفس روٹی کے ٹکڑے پر قربان ہو جاتی ہے۔

سوشل میڈیا کی وجہ سے جہاں معاشرے کے مثبت رجحانات سامنے آئے ہیں وہیں بند گلیوں کی بدبو بھی سرانڈ بن کر حواس کو مختل کر رہی ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے جنس آمیز کالی محبت کے نام پر ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔

فیس بک، ٹک ٹاک، انسٹا گرام وغیرہ پر فیک آئی ڈی بنا کر، وائس چینج کرکے ایک دوسرے کو دُھوکے کے ذریعے پھنسایا جاتا ہے۔ اس معاملے میں بعض صورتوں میں لڑکیاں لڑکیوں سے دو ہاتھ آگے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے پاکستان "پورن گرافی" کی سرچنگ میں سرفہرست نمبر میں رہا ہے، پورن دیکھنے والے نوجوان لڑکے لڑکیوں کا دماغ اس قدر خراب ہوچکا ہے کہ یہ ہر ممکن کوشش کے ذریعے جنسی تسکین کے حصول کے ہر غلط سلط طریقے اپناتے ہیں جو غیر اخلاقی و غیر قانونی ہونے کے ساتھ بھی وحشیانہ ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب پورن وڈیوز کی بھرمار گوگل اور یوٹیوب پر ہوتی تھی، یوٹیوب نے مونی ٹائز کرکے اس گند کو فلٹر کر ڈالا ہے۔ پاکستان میں پورن وڈیوز سرچ کرنا انتہائی آسان کام ہے، حکومت اس معاملے میں سرچنگ پر پابندی لگاتی ہے لیکن ہم بگڑے ہوئے بندر ہر طرح کا وائی فائی پاسورڈ اور رسٹرکشن ہٹانے کا ملک رکھتے ہیں، vpn لگا کر نہ صرف خود ٹوٹے دیکھتے ہیں بلکہ وٹس ایپ گروپ پر شئیر کرنے کو فلاحی کام بھی سمجھتے ہیں۔

حکمران اشرافیہ کے کردار کی بات کی جائے تو حکمرانوں کو ایک دوسرے کی کُرسی ہتھیانے کے سِوا کوئی کام نہیں ہے۔ ہمارے ہاں بوٹ پالش کا کلچر بہت عام ہے۔ ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ مجھے تابع داری اور خدمت گزاری کا موقع فراہم کیا جائے، اس معاملے میں مجھے توسبھی اقتدار کے حریص میر صادق و میر جعفر دکھائی دیتے ہیں۔

سماجی و اخلاقی و مذہبی و عمومی سطح اس حد تک تنزل کا شکار ہو چکی کہ 99 فیصد مرد یہ سوچتے ہیں کہ میری بیٹی، میری بہن اور میری بیوی پر کوئی اُنگلی نہ کرے اور میں کسی کی بہن، بیٹی اور بیوی کو نہ چھوڑوں۔ یہ سوچ اپنے اندر تباہی کا جملہ سامان لیے ہوئے ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے گھر میں بھینس رکھنے کی بجائے تازہ دودھ ملتا رہے۔

پاکستانی سماج میں غیرت کے نام پر قتل کا تصور اس قدر بھیانک صورت اختیار کر گیا ہے کہ لڑکی کو مارنا گویا مکھی مچھر کو مارنے کے مترادف ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کے بیانیے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے والے قاتل کو سخت ترین عبرت ناک سزا دی جائے۔

مثال کے طور پر ثنا یوسف کیس میں تمام ثبوت اور شہادتوں کے بعد اگر یہ ثابت ہو جائے کہ پکڑا ہوا شخص واقعتاً ثنا کا قاتل ہے تو پھر اسے اسلام آباد کے ڈی چوک میں سرِ عام پھانسی دی جائے۔ ایک بندہ سولی پر سرِ عام لٹک جائے گا تو غیرت کے نام پر قتل کا بیانیہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے گا۔

یہ کہنے میں مبنی بر حقیقت لگتا ہے اور یقیناً ایسا ہونا بھی چاہیے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایسا ہونا ہوتا تو پھر ہزاروں خواتین جو غیرت کے نام پر بھائیوں، کزنوں اور عاشقوں کے ہاتھوں ماری گئی ہیں وہ آج زندہ ہوتی اور بے فکر زندگی گزار رہی ہوتیں۔ پاکستانی عوام میں انفرادی حیثیت میں کسی کو ملک کے قانون اور قانونی اداروں پر اعتماد نہیں ہے۔

ہر شخص اپنی بہن، بیٹی اور بیوی کا خود خیال رکھتا ہے۔ اپنے کام اور ضروری مصروفیات چھوڑ کر بہن، بیٹی اور بیوی کو گھر سے بازار اور بازار سے گھر لاتا ہے۔ میرے پیچھے بیٹھی ہوئی میری بہن، بیٹی اور بیوی کے لیے میں اتنا جذباتی ہوجاتا ہوں کہ سامنے سے گھورتے ہوئے اجنبی کی آنکھ نکالنے کے درپئے ہو جاتا ہوں۔

سوال یہ ہے کہ یہی جذبہ اگر ہر پاکستانی مرد ہر پاکستانی عورت کے لیے اپنے دل میں رکھے تو غیر ت کےنام پر قتل کا تصور از خود مٹ جائے گا۔

بہ حیثیتِ مسلمان ہم مردوں کو اتنی تو شرم آنی چاہیے کہ کسی اور کی بہن، بیٹی اور بیوی ہماری گندی آنکھ اور گندے ذہن کے بوسیدہ خیالات سے محفوظ رہ سکے۔ میں یہ واضح کر دوں کہ سار اقصور مردوں کا نہیں ہے، عورتیں بھی اس معاملے میں کئی صورتوں میں مردوں سے آگے ہیں۔ احتیاط کا تقاضا مرد سے کرنے سے پہلے عورت کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے جسم سے کسی کے جذبات کو مشتعل تو نہیں کر رہی، اس کی حرکات و سکنات میں شعوری جنس کی مصنوعی مداخلت کا عنصر تو موجود نہیں۔

کہا جاتا ہے کہ گھی اور آگ کا ایک دوسرے کے قریب رہنا ممکن نہیں ہے، دونوں میں کوئی اپنی اصل وضع بدل لیتا ہے۔ اس میں نہ گھی کا قصور ہے کہ وہ آگ کی تمازت سے پگھل جاتا ہے، نہ آگ کا قصور ہے کہ وہ اپنے اندر تمازت کی حدت رکھتی ہے۔

بات یہ ہے کہ اسلام ایک بہترین دینِ حیات اور لائف اسٹائل کا نام ہے جو ہر معاملے میں دیگر مذاہب کی نسبت واضح اور فطری ہدایات و راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ معاشرے کے سدھار اور سماج کی تربیت کے لیے علما، حکما، اساتذہ، دانشور، فلسفی اور تربیت کرنے والے پیشہ ورانہ اداروں کے ساتھ قانون نافظ کرنے والے جملہ منتظمین کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

غیرت کے نام پر قتل خواہ کسی کا ہو، اس کے خلاف آواز یکساں طور پر سبھی حلقوں سے آنی چاہیے۔ خدا کرے کہ ثنا یوسف کے بعد مزید کوئی ثنا یوسف اس ملک میں غیرت کے نام پر قتل نہ ہو۔

Check Also

Michelangelo

By Asif Masood