Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Ehsaan Faramoshi Ki Riwayat

Ehsaan Faramoshi Ki Riwayat

احسان فراموشی کی روایت

پنجاب کے سماج میں بسنے والے افراد کی برس ہا برس سے روایت رہی ہے کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھ جانے کے بعد بڑا بھائی (یا بوجھ اُٹھا سکنے والا) گھر کا سربراہ ہوتا ہے۔ گھر کے تمام تر فیصلوں اور معاملات میں اس کو اختیارِ کُل ہوتا ہے۔ یہ مشکل اور صبر آزما فیصلے کرتا ہے، اپنے بہن بھائی، اعزا، رشتہ دار سمیت شریکا برادری سے معاملات کو اُستوار رکھتا ہے۔ لین دین، جائیدد اور وراثت کے معاملات کو بھی احسن طریق سے انجام دینے کی کوشش کرتا ہے۔

خاندان کے کسی ایک فرد (بھائی اور بہن میں سے)کو والد کا سایہ سر سے اُٹھ جانے کے بعد یہ فرض اور ذمہ داری خوشی یا مجبوری سے ادا کرنا پڑتی ہے۔ بعض دفعہ والد حیات ہونے کے باوجود یہ فرض بڑے بھائی یا پھر اُس بھائی یا بہن پر آپڑتا ہے جو معاشی طور پر آسودہ حال ہوتا ہے یا تعلیم و شعور و حساسیت کے معاملے میں دیگر بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ ذمہ داری اور فرض شناسی کا درد رکھتا ہے۔ یہ شخص کمال خوش اُسلوبی یا از حد مجبوری کے عالم میں اس فرض کو اپنے کاندھوں پر اُٹھالیتا ہے اور اپنی طرف سے ہر ممکن ذریعہ، استعداد، لیاقت، حکمت اور تجربہ استعمال کرتے ہوئے اپنی خواہشوں اور آرزؤں کو پسِ پُشت ڈاک کراس فرض کی انجام دہی میں غرق رہتاہے۔

اس مشکل فریضے میں کئی ایسے مقام آتے ہیں جہاں عقل، شعور اور حواس کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، انسان حوصلہ ہار جاتا ہے اور ہتھیار پھینک کر بھاگ چاہنا چاہتا ہے لیکن ذمہ داریوں کے اس گھٹر کو سر پر اُٹھائے رکھنا اِس کی مجبوری بن جاتی ہے۔ یہ بوجھ اس کی کمر توڑ دیتا ہے، اس کے حواس مختل کر دیتا ہے اور اس کی صلاحیتوں کو زنگ آلودہ کر دیتا ہے، اس کے باجود ماتھے پر شکن ڈالے تباہ ہو جانے کی جملہ واردات کو ہنسی خوشی یہ شخص برداشت کرتا چلا ہے۔

اِسے یہ اُمید ہوتی ہے کہ جو فرض اور ذمہ داری اس پر بوجھ بن کر معاشرے اور مذہب کی طرف سےلاد دی گئی ہے، وہ اسے ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا خواہ اس فرض و ذمہ داری کی تکمیل اور انجام دہی میں اس کی اپنی شخصیت کُچلی جائے۔ اسے ہر وقت یہی احساس کھائے جاتا ہے کہ اس کے بہن بھائی کسی مقام تک پہنچ جائیں تاکہ شریکے، برادری میں اس کی ناک اونچی رہے، ماں باپ اس پر خوش ہو جائیں، اللہ اس پر راضی ہو جائے اور جنت کا سفر آسان کر دے۔

صدیوں سے پنجاب سمیت دُنیا کے ہر خطے میں اس روایت کو عمل پیرا دیکھا گیا ہے، ہنوز اس کی شدت میں کمی آنے کے باوجود اس کی کارفرمائی دیکھی جا سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بوجھ اُٹھانے والے اس شخص کی اپنی خوشیاں کا کوئی خیال رکھتا ہے یا نہیں۔ اس معاملے میں سیکڑوں کیس میری نظر سے گزرے ہیں جنھیں براہ راست مشاہدے اور تجربے سے گزار کر دیکھا ہے۔

پچانوے فیصد کیسز میں قربانی دینے والے شخص کی قربانی کا احترام اور اعتراف نہیں کیا جاتا بلکہ اُلٹا اسے دُشنام و طعن کی جاتی ہے اور اس پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اِس نے ہم سے پوچھے بغیر ہمارے بارے میں ایسا سوچا ہے اور ہمارے لیے اِس نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ اس کی اپنی مرضی، منشا اور خواہش تھی، ہم نے اسے مجبور نہیں کیا تھا کہ ہمارے لیے یہ سب کچھ کرے اس لیے اب ہم اس کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔

یاسیت سے معمور ان طعن آمیز جملوں سے اِس شخص کا جگر پھٹ جاتا ہے اور کلیجہ چھلنی ہو جاتا ہے اور وہ سوچتا رہ جاتا ہے کہ مجھ پر یہ ذمہ داری فرض عین سمجھ کر ڈالی گئی تھی، والدین نے باہمی رضا مندی و لجالت سے مجھے بہن بھائی کا ابّا ماں بنا یا تھا اور مجھ سے اپنی اُمیدیں اُستوار کیں تھیں اور مجھی سے یہ خواہش باندھی تھی کہ میں ان کی موجودگی میں اور ان کے مرنے کے بعد بہن بھائیوں کے بہتر مستقبل کے لیے اپنی خوشیوں، خواہشوں، خوابوں اور آرزؤں کا گلہ گھونٹ دوں۔

یہ شخص پہاڑ جیسا حوصلہ رکھتا ہے کہ لاکھوں کروڑوں روپے بہن بھائیوں کی پرورش، تعلیم، شادی بیاہ پر پر خرچ کر ڈالتا ہے اور جواب میں اسے طعن و الزام اور لالچی و خود غرض کے خطابات سے نوازا جاتا ہے۔ احسان فراموشی کی یہ روایت زیادہ تر پنجاب کے وسیب میں پائی جاتی ہے جہاں زمین دائیداد کے معاملے میں بہن بھائی ایک دوسرے کا گلہ کاٹتے ہیں۔ مشکل وقت گزر جاتا ہے، آسانی میسر آجاتی ہے، بھوکا پیٹ بھر جاتا ہے، برہنہ جسم ملبوس ہو جاتا ہے، روح کی پیاس بجھ جاتی ہے، معاشرے میں قدر کی نگاہ مل جاتی ہے، دل کا اطمینان نصیب ہو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ دینے اور عطا کرنے والے کو سرِعام رُسوا کیا جاتا ہے، اس کی نیکی اور قربانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے اور اس کا اعتراف کرنے میں خون کی سفیدی غالب آجاتی ہے۔

میں ایسے جواں ہمت اور عالی ظرف انسانوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو خود کو تباہ کر لیتے ہیں لیکن ماتھے پر اپنوں کی بے وفائی اور سنگ دلی کی شکن پڑنا گوارا نہیں کرتے۔ یہ اندر سے پوری طرح ٹوٹ جاتے ہیں لیکن خود کو منہدم نہیں ہونے دیتے۔ ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا، اس کےباوجود صبر کی دولت انھیں میسر ہوتی ہے۔ وہ بہن بھائی اور اعزا و اقارب کے تنور اپنا پیٹ بھوکا رکھ کر برس ہا برس بھرتا ہے۔ جب اِس شخص پر مشکل وقت آتا ہے اور اِسے بہن بھائیوں کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے تو اُسے اپنے سامنے جلتا، کٹتا، مرتا، بلکتا، روتا اور تڑپتا دیکھ کر ان کی ہنسی نکلتی ہے اور ان کے دل باغ باغ ہوتے ہیں۔

ذلت وُرسوائی کے اس عالم میں قربانی دینے والا اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہے جبکہ اس کے ہاتھوں پرورش پانے والے زمانے کے معزز، لائقِ عزت، ذی وقار شخصیات بن جاتے ہیں۔ کیا مزے کی بات ہے کہ جس عمارت کی اُستواری میں قربان ہو جانے والے کا خون شامل ہوتا ہے، اُس کا نام لینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ احسان فراموشی اور خونی رشتوں کے تقدس سے بے نیازی کی اس روایت نے لاکھوں مسیحاؤں کا خون کیا ہے اور ہزاروں خضروں کو موت کے گھاٹ اُتارا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس روایت کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ جو شخص آپ کے لیے اپنا آپ تباہ کر دیتا ہے، اس کے لیے کیا آپ اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ اس کی قربانی کا اعتراف ہی کر لیں۔ اگر آپ اسے کچھ دے نہیں سکتے تو اس سے مزید کچھ لینے سے ہاتھ کھینچ لیں۔ اگر آپ کو اس کی قربانی کا احترام کرتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے تو خاموش ہو جائیے، طعن و تشنیع اور الزام تراشی تو نہ کیجیے۔

اس شخص نے جن حالات میں جس طرح آپ کی پرورش کی ہے اور آپ کی ضرورتوں، خواہشوں کا خیال رکھا ہے اور آپ کو زمانہ سازی کرنے کے جملہ ہنر سے شناسا کیا ہے، کیا اس شخص کا یہ حق نہیں ہے کہ اِسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے اور اسے یہ احساس دلایا جائے کہ اگر آپ کا سایہ ہمارے سرپر نہ ہوتا تو ہم زمانے کے ہاتھوں کب کے مارے گئے ہوتے۔ خدا کے لیے احسان فراموشی کی اس روایت کا گلہ گھونٹ دیجیے، خون کے رشتوں میں سفید خون کی ملاوٹ نہ کیجیے۔

یہ دُنیا عالمِ امتحان ہے، یہاں تم جو بوؤ گئے وہی کاٹو ہے، ظلم کرو گے تو ظلم سہو گے، نیکی کرو گے تو نیکی پاؤ گے۔ دُنیا کی دولت، شہرت، سکون، آرام کسی کا م نہیں آئے گا، جب دولت، شہرت، سکون اور آرام کا باعث بننے والا دل سے آپ کو بددعا دے گا۔ یاد رکھو! اللہ کی لاٹھی بے آواز ضرور ہے لیکن وہ ٹوٹے دل کی آواز کو ضرور سُنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو آپ کے لیے مسیحا بنایا ہے کیا وہ اُس شخص کی قربانی کو رائیگاں جانے دے گا۔ ہرگز نہیں، ادلے کا بدلہ ہو کر رہتا ہے، سفر آسان کرنے والے، راہ کے خار ہٹانے والے، مشکل وقت میں ساتھ کھڑے رہنے والے کو یاد رکھنا اور اس کے احسان کا اعتراف کرنا انسان کی بنیادی انسانی ذمہ داری ہے۔

موت برحق ہے سب کو آنی ہے، موت سے کس کو رستگاری ہے، آج وہ کل ہماری باری ہے، چلا جب سکندر دُنیا سے تو دونوں ہاتھ خالی تھے۔ شعرا نے، حاکموں نے، داناؤں نے اور فلاسفر نے دُنیا کی حقیقت اور فنائیت کو خوب واضح کیا ہے، اس کے باوجود اے انسان! تو کیسے احسان فراموش اور نمک حرام ہو جاتا ہے۔ کیا تجھے موت یاد نہیں ہے، کیا تجھے ایک دن مرنا نہیں ہے، کیا تو نے موت کو اپنے اختیار میں کر لیا ہے۔

آج تیرا وقت ہو سکتا ہے، کل یہی وقت کسی اور کے تصرف میں ہوگا، ذرا مجھے بتا! پھر تو کیا کرے گا۔ باغبان کے آشیانے کو جلتا دیکھ کر ہوا دینے والے پتے! ایک دن جب تو خود اِس آگ کا ایندھن بنے گا، تب تجھے احساس ہوگا کہ باغبانی کی روایت کو زندہ رکھنے والے کس طرح خود کو فنا کرکے کمال حوصلے سے خون کے مقدس رشتوں کا احترام کرتے ہیں اور دُنیا کو یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ بہن بھائی سے بڑھ کر کوئی رشتہ اہم، مقدس اورمعتبر نہیں ہوتا۔

Check Also

Bushra Bibi Hum Tumhare Sath Hain

By Gul Bakhshalvi