Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Doctor Nasir Abbas Nayyar Ki Oriental College Se Retirement

Doctor Nasir Abbas Nayyar Ki Oriental College Se Retirement

ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی اورینٹل کالج سے ریٹائر منٹ

کمرہ جماعت میں آخری دن باقاعدگی سے لیکچر دیا۔ بچوں سے ملاقات کی اور چہرے پر اطمینان بخش مسکراہٹ سجائے اپنے کمرے میں تشریف فرما ہوئے جہاں ان کے دیرنہ دوست اور تابع فرمان ہونہار شاگرد موجود تھے۔ چائے پیش کی گئی، آدھ گھنٹہ گفتگو ہوئی۔ وقتِ رخصت گروپ فوٹو سیشن ہوا۔ گاڑی میں عزت سے بٹھایا گیا اور رخصت کر دیا گیا۔

اس قدر سادگی سے بھی کوئی یوں رخصت ہوتا ہے۔ جی ہاں، جینوئن اور اوریجنل انسان ایسے ہی ملازمت سے سبکدوش ہوتے ہیں۔ ان کے آنے اور جانے کی خبر کسی اخبار اور رسالے میں نہیں چھپتی۔ اپنے اندر علم کا سمندر لیے ہوئے شخص خود کو رسمی، مقامی، سطحی اور عارضی قسم کی فانی شہرت سے دور رکھتا ہے۔ یہ چاہتا ہے کہ اِس کی تعریف اس کے کام سے ہو، اس کی شخصیت کو اس کے علمی و ادبی اور تحقیقی و تالیفی کام سے متعارف کروایا۔

یہ صاحب ڈاکٹر ناصر عباس نیر ہیں جو 20 اپریل 2024 کو پنجاب یونیورسٹی کے اورنٹل کالج میں پروفیسر اُردو ادبیات کی حیثیت سے سکبدوش ہو گئے۔ اس عہدہ پر فائض اِسی جامعات سمیت دیگر جامعات میں سکبدوش ہونے والے اساتذہ کو دیکھا اور سنا ہے کہ ان کی سکبدوشی کی تقریبات مہینوں چلتی رہتی ہیں اور خوب طلبا و ادارہ کا وقت اور پیسہ ضائع کیا جاتا ہے اور جانے والا خوش اور مطمئن نہیں ہوتا بلکہ مزید ایکسٹینشن لینے کی فکر میں خوشامد و لجالجت کر رہا ہوتا ہے مگر قربان جائیے ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے، جنھوں نے ایک منفرد مثال قائم کی۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنے دورِ ملازمت میں بہت کم موقع دیا کہ کوئی ان پر اُنگلی اُٹھا سکے اور بطور اُستاد ان کی مہارت، لیاقت، قابلیت اور تجربے کی بنیاد میں کسی سُقم کو ٹٹول سکے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نے زندگی میں کچھ اصول قائم کیے جن پر یہ ہمیشہ کاربند رہے اور اپنے شاگردوں کو انھیں اُصولوں پر قائم رہ کر سفر جاری رکھنے کا مشورہ دیتے رہے۔ اُردو زبان و ادب سے جو محبت ڈاکٹر صاحب کو ہے وہ ان کے معاصرین کے ہاں خال خال دکھائی دیتی ہے۔

پنجاب یونی ورسٹی کا اورنٹل کالج پاکستان سمیت دُنیا بھر میں ایک جداگانہ شناخت اور تعارف رکھتا ہے۔ اردو زبان و ادب کے علاوہ دیگر زبانوں سے متصل ایسے ایسے درخشندہ ستارے یہاں سے طلوع ہوئے جنھوں نے پاکستانیت، مشرقیت، سماج، زبان، لسانیات، ادب، تہذیب اور تمدن کی جملہ روایات کو ازسرِ نو متعارف کروایا اور اپنی خدادا صلاحیت سے علوم و فنون کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دئیے۔

ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی سبکدوشی کے بعد ان کی خالی ہونے والی سیٹ پر بظاہر کوئی صاحب بہت جلد براجمان ہو جائیں گے لیکن ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی کمی کا احساس ہمیشہ اورنٹل کالج کے سینے پر داغ پر بن ٹیس اُٹھاتا رہے گا۔ اورنٹل کالج کے اساتذہ میں ڈاکٹر کامران، ڈاکٹر زاہد مینر عامر، ڈاکٹر ضیا الحسن، ڈاکٹر بصیرہ عنبرین وغیرہ بھی سکبدوشی کے قریب ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں، چار پانچ سال کے بعد اورنٹل کالج خالی ہوجائے گا اور ان کی جگہ کون لے گا۔ لیکچر اور اسسٹنٹ پروفیسر کی پوسٹ پر تعینات ہونے والے نوجوان اساتذہ بھرپور محنت کر رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ اورنٹل کالج کے نظامِ تعلیم اور جملہ معیار کی روایت کو برقرار رکھ سکیں لیکن ایساممکن ہوتا فی الحال دکھائی نہیں دے رہا۔

اورینٹل کالج کی ایک تاریخ رہی ہے اور پنجاب یونی ورسٹی کے آغاز کے بعد اس کی شہرت کا مدار ہی اورینٹل کالج رہا ہے۔ یہاں ایسے ایسے رتن موجود تھے جنھوں نے اردو زبان و ادب کے علاوہ دیگر زبانوں میں تحقیقی و تنقیدی اور تالیفی کام کا وہ معیار قائم کیا جسے آج بطور روایت لیا جاتا ہے اور ان کے وضع کردہ تحقیقی ڈسکورس کو آج دُنیا بھر کی جامعات میں لسانیات کے شعبہ میں نصاب کی حیثیت سے پڑھایا جاتا ہے۔

ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا ذکر کرتے ہوئے یہ گویا ایک دبستان کُھل جاتا ہے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ ڈاکٹر صاحب کے ذکرِخیر کے ساتھ کس کس کا ذکر کیا جائے اور کس کا نہ کیا جائے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے اندر ایک ادارہ کی حیثیت رکھتے تھے جو ان کی سکبدوشی کے ساتھ معطل ہو کر رہ جائے گا۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر لاہوری نہیں تھے، جھنگ کے دور اُفتادہ گمنام گاؤں میں 1965 میں پیدا ہونے والا یہ شخص کیسے اُردو ادب کا ایک جہان دیدہ درخشدہ ستارہ بن گیا جس کا تعارف از خود اُردو زبان وادب کا تعارف بن چکا ہے۔ یہ ایک دلچسپی کہانی ہے جس کا تذکرہ کسی اور کالم میں کیا جائے گا۔

ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے 1989 میں پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے اُردو کا امتحان پاس کیا، اس کے بعد علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی سے ایم فل مکمل کیا، ایم فل کا مقالہ اُردو تنقید میں جدیدیت اور مابعد جدیدیت عنوان تھا۔ یہ عنوان اپنے اندر بلا کی مزاحمتی اور بین العلومی مخالفت رکھتا تھا، اس مقالہ کی اشاعت سے گویا ایک ہنگامہ برپا ہوگیا کہ کلاسیکی ادب میں جدیدیت کا کیا تعلق ہے اور اس سے آگے بڑھ کر مابعد جدیدیت سے ہمارا کیا لینا دینا۔ ڈاکٹر صاحب نے خالصتاً تحقیقی زبان اس مقالے میں استعمال کی ہے جس میں خوشامد، غلو، بیان و بدیع کے جملہ عناصر و لوازم سے شعوری احتراز برتا گیا ہے۔

اس مقالہ کی تکمیل اور اشاعت کے بعد اردو ادب میں ایک نئی تنقیدی روایت کا آغاز ہوا جسے شہرت دینے اور مقبولِ عام بنانے میں ڈاکٹر صاحب نے حلقہ احباب ادب سے طعن و تشنیع کی حد تک مخالفت و مخاصمت کا سامنا کیا لیکن اپنے موقف اور تنقیدی نظریات کے احیااور فروغ سے پیچھے نہ ہٹے۔ اسی تنقیدی ڈسکورس کی مزید تفہیم ان کے پی ایچ ڈی کے مقالہ اُردو تنقید پر مغربی تنقید کے اثرات میں ہوا۔ یہ مقالہ چھپ چکا ہے اور اُردو تنقید کے جملہ تصورات و نظریات پر مغربی تنقید کے اثرات کا احاطہ کرتا ہے۔ اس مقالہ کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اُرد و زبان صرف برصغیر کے خطہ تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ کار اور اثروروسو خ دُنیاکی بڑی زبانوں تک ہے اور یہ زبان اپنے اندر بلا کی وسعت، ہمہ گیری اور اثر پذیری کا رجحان رکھتی ہے۔

2001 میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے ہائیڈل برگ جرمنی سے پوسٹ ڈاکٹر فیلو شپ میں اُردو ادب کا نو آبادیاتی دور مقالہ لکھا۔ یہ مقالہ شائع ہوچکا ہے جسے پڑھ کر نو آبادیاتی عہد کی مجموعی صورتحال اور اردو ادب پر اس کے اثرات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ نوآبادیات ایک ایسا موضوع ہے جس پر ڈاکٹر صاحب سے پہلے بہت کم لکھا گیا تھا، ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اس موضوع کو اردو تحقیق کا بنیادی موضوع بنا ڈالا۔ اورینٹل کالج نے اس موضوع پر سیکڑوں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات لکھوائے۔ گویا یہ مشہور ہوگیا کہ اورینٹل کالج میں نوآبادیات کے علاوہ اور کسی موضوع پر کام ہی نہیں ہو رہا۔

یہ سبکی کی بات نہیں بلکہ اورینٹل کالج کے لیے فخر کی بات ہے کہ ڈیڑھ سو برس غلام رہنے والی قوم کو اپنے آقاؤں کی ذہنی نفسیات اور غلامی کے جملہ طریق کار سے واقفیت ہی نہیں ہے کہ کس طرح ان کے ذہن، جسم، روح اور احساساتِ مجموعی کو اسیر کرکے انھیں صدیوں غلام بنائے رکھا اور آج بھی ہم ذہنی طور پر اسی نو آبادیاتی عہد کے دور میں زندہ ہے اور چاہ کر بھی اس نظام کی پروردہ پالیسیوں سے انحراف کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

اورینٹل کالج میں بہ حیثیت اُستاد انتخاب کے بعد ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اُردو تنقید کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ ڈاکٹر صاحب نے گذشتہ تیس برس میں چالیس کے قریب تصانیف خلق کیں جو موضوع، مواد، پیش کش اور ہیت و زبان کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں۔ ان تصانیف کو کسی صورت یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر ناصر عباس کی تنقید کی ضد میں آنے والی اور حلقہ احبابِ ادب میں مسلسل بحث کا موضوع بننے والی تصانیف میں جدیدیت سے پسِ جدیدیت تک، متن، سیاق اور تناظر، عالمگیریت اور اُردو ادب، اُردو ادب کی تشکیلِ جدید اور حال ہی میں شائع ہونے والی تصنیف نئے نقاد کے نام خطوط شامل ہیں۔

ڈاکٹر ناصر عباس نیر، بہترین افسانہ نگار، شاعر، محقق، مدون، مبصر، نقاد، دانشور، اُستاد اور جانے کیا کچھ ہیں۔ ان کی شخصیت کا ہر پہلو دوسرے سے ممتاز، منفرد اور جداگانہ وضع لیے ہوئے ہے۔ یہ شخص اپنی ذات میں اس قدر زمین سے متصل ہے کہ اسے ایک درویش کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ راقم نے براہ راست ان سے استفاہ اور کسبِ فیض کیا ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر کو حکومتِ پاکستان کی طرف کی ہنوز کوئی ایوارڈ نہیں دیا گیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ انھوں نے سیاست کو اپنے مفاد کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا۔

انھوں نے یہ اُصول وضع کر رکھا ہے کہ میرٹ اور صرف میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ ہوناچاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایوارڈ کچھ نہیں ہوتے۔ سب سے بڑا ایوارڈ اپنے کیے ہوئے کام پر بذاتِ خود مطمئن ہونا ہے اور میں اپنے کام پر پوری طرح مطمئن ہوں۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر اورینٹل کالج سے سکبدوش ہونے کے بعد لاہور کی معروف نجی یونیو رسٹی لمز کے گرمانی سنٹر سے منسلک ہو چکے ہیں۔ گرمانی سنٹر زبان و ادبیات کے تقابلی فروغ اور تحقیق و تنقید کے میدان میں ایک فعال اور متحرک ادارہ کی صورت گذشتہ چند برسوں میں سامنے آیا ہے۔

گرمانی سنٹر سے سالانہ شایع ہونے والے تحقیقی مجلہ بنیاد کو اردو زبان و ادب کے جملہ ریسرچ جنرل میں نمایاں حیثیت اور وقعت میسر ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر اس مجلہ کے مدیر ہیں۔ علاوہ ازیں علمی نثر اور رسمیاتِ ادب کے جملہ ڈسکورس کو انھوں نے از سر نو تدوین کیا ہے۔ علمی نثر کو اس کے صحیح مذاج اور معیار پر اردو ادب میں روا ج دینے میں گرمانی سنٹر کا اہم کردار ہے۔

ہم اُمید کرتے ہیں کہ ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے لمز یونی ورسٹی میں جن مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے اس ادارہ کا انتخاب کیا ہے، وہ جلد تکمیل سے ہمکنار ہوں۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ اُردو زبان و ادب کو ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے بہت کچھ دیا ہے۔ اردو زبان ڈاکٹر ناصر عباس کی شکر گزار ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی کمائی یہ ہے کہ دُنیا بھر میں جہاں جہاں اُردو زبان پڑھی، لکھی، بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا نام، کام اور تعارف انتہائی محبت اور عقیدت سے لیا جاتا ہے۔

Check Also

Lathi Se Mulk Nahi Chalte

By Imtiaz Ahmad