Boorhe Tharki Kyun Hote Hain?
بوڑھے ٹھرکی کیوں ہوتے ہیں؟

للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا کرتی تھی، میں محتاط ہوگیا تھا۔ مجھے یہ معلوم ہی نہ تھا، مجھے چاہتی ہے، میرے ذہن میں صرف یہی تھا کہ عمر کے اس حصے میں جبکہ میں اُس کے دادا کی عمر کا ہوں، میرے لیے اُس کے ذہن میں کیونکر منفی بات آسکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے میں نے اپنی 71 ویں سالگرہ منائی ہے۔
ہفتے میں ایک دن اُسے پینٹنگ سکھانے جایا کرتا تھا۔ ہفتہ بھر انتظار کرتی۔ بمشکل سولہ برس کی تھی، میٹرک کے امتحان کے بعد رزلٹ کے انتظار میں گھر والوں نے سوچا کہ فارغ بٹھانے کی بجائے کچھ سکھا دیا جائے۔ ایک جاننے والے کے ریفرنس کے وساطت سے اُس کے گھر جانے کا آغاز ہوا۔
رفتہ رفتہ بات یہاں تک پہنچی کہ ایک دن برش ہاتھ میں لیے کینوس کے سامنے کھڑے ہو کر باتوں باتوں میں مجھ سے کہنے لگی۔ آپ "پورن" دیکھتے ہیں۔ پورن کا لفظ سُن کر میرا سانس اکھڑ گیا، غوطہ دار ہنسی کا، ایساجھٹکا لگا کہ سانس ہی بند ہوگئی، اُس نے قریب رکھے پانی کا گلاس مجھے دیا، میں نے گھونٹ لے کر سانس بحال کیا۔
میرے ذہن میں سینکڑوں خیالات گھوم گئے۔ مجھے محسوس ہوا کہ معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ نہیں، ایسی واہیات حرکتیں میں نہیں کرتا، اب میری یہ عمر نہیں کہ اس طرح کے کام کروں۔ آپ نے کسی کے ساتھ ڈیٹ کی ہے۔ دوسرا سوال بھی ایسا تھا کہ سانس اکھڑے لیکن میں نارمل رہا۔
نہیں، ڈیٹ ویٹ کا کلچر ہمارے دور میں نہیں تھا۔ اچھا، تو آپ کی کوئی گری فرینڈ تو ہوگی۔ جی، ایک تھی۔ اُس کے ساتھ "ڈیٹ" کی تھی۔ نہیں، کیوں۔ موقع ہی نہیں ملا، ہمارے زمانے میں کوئی چوری چھپے ملنے کی کوشش میں پکڑا جاتا تو سیدھا گولی مارتے تھے۔ آپ ڈرپوک ہیں۔ نہیں، ایسی بات نہیں۔ آپ نے اپنی گرل فرینڈ کو "ہگ" تو کیا تھا۔ نہیں، کیوں؟ بات یہ ہے کہ ہمارے دور میں صرف دل ہی دل میں چاہنے کی روایت تھی۔ معاشرے کا رکھ رکھاؤ ایسا تھا کہ کانوں کان کسی کو خبر نہیں ہوتی تھی کہ کیا چل رہا ہے۔
اچھا! تو آپ نے "فرنیچ کس" تو کی ہوگی۔ نہیں، کبھی نہیں۔ کیا آپ نے بیوی کے علاوہ کسی سے "سیکس" کیا ہے۔ استغفراللہ! اللہ معاف کرے، کبھی نہیں، تم مجھ سے اس طرح کے سوال کیوں کر رہی ہو۔ اس لیے کہ آپ مجھے اُٹھتے بیٹھتے گھورتے رہتے ہیں۔ میرے پستانوں کے اُبھار کو دیکھ کر آپ کے منہ میں پانی بھر جاتا ہے۔
میرےکوہلوں کے اُتار چڑھاؤ اور ڈھلکتے چوتڑوں کے خم سے آپ کی جان نکل نکل جاتی ہے۔ میرے عنابی ہونٹوں کو دیکھ کر آپ کا انگ انگ پھڑکنے لگتا ہے۔ میرے رخسار کی سُرخی آپ پر غضب ڈھاتی ہے۔ میرے لمبے بال آپ کو ڈستے ہیں۔ میری پیشانی آپ پر سحر طاری کرتی ہے۔ میری پتلی کمر آپ کے بڑھانے کو توانائی فراہم کرتی ہے۔ میرا سفید مرمریں جسم تمہارے ایمان کو ڈگمگا تاہے۔ آپ وہ سب کچھ کرنا چاہتے ہیں جو ذہن میں پنپ رہا ہے لیکن سفید داڑھی اور عمر رسیدگی کا لحاظ کرتے ہوئے آپ اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر مر رہے ہیں۔
اُس کی بے باک گفتگو سُن کر میرے تو ہوش اُڑ گئے۔ لڑکی نے میرے بارے میں بالکل ٹھیک اندازہ لگا یا تھا۔ میں سر جھکائے برش کو رنگوں میں ڈبو نے کے کیا کر سکتا تھا۔ سرنگوں پشیمانی کے عالم میں غرق دیکھ کر قریب آئی۔ دونوں ہاتھوں سے مجھے کرسی سے اُٹھایا۔ بانہیں میرے گلے میں ڈال دیں، اپنے فتنہ انگیز پستانوں کو میرے سینے پر گاڑ دیا۔
میری آواز کہیں کھو گئی، ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے اور منہ سے کف بہنے لگی۔ کہنے لگی: گھبراؤ نہیں، کوئی نہیں دیکھ رہا، کوئی نہیں آئے گا۔ آج صرف پیار ہوگا اور خوب ہوگا۔ میرے دونوں ہاتھ اپنے پستانوں پر رکھ دئیے۔ کہنے لگی: کیسا لگ رہا ہے۔ قیامت، میں نے کہا۔ وہ کھلکھلا کر ہنسی اور کہنے لگی۔ تم نے قیامت ابھی دیکھی کہاں ہے۔ ابھی تو آغاز ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
میرے ہونٹوں پر رکھ کے ہونٹ اپنے، اُس نے بات ہی تمام کر ڈالی۔ زندگی میں جانے ہزاروں چومیاں شومیاں بوسے شوسے لیے ہوں گے لیکن کبھی ایسا لطف نہیں ملا۔ میرے ہونٹ حالاں کہ اتنے اچھے نہیں ہیں لیکن فرنیچ کس کا مزہ زندگی میں فقط اُس دن آیا۔ ایک لمحے کو یوں لگا جیسے میں دُنیا کا امیر ترین خوش قسمت بادشاہ ہوں جس کے پاس ہر وہ چیز، ہر وہ خوشی اور، ہر وہ پُر جوش لمحہ موجود ہے جس کے بارے میں فقط سوچا جا سکتا ہے۔
میر تقی میر ؔکی محبوبہ کے ہونٹوں کی نزاکت تو پڑھی تھی، محسوس آج کی۔ میرے ہاتھ ابھی تک اُس کے پستانوں پر تھے۔ مجھے کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔ میں فرماں بردار بچے کی طرح کرسی پر بیٹھ گیا۔ میری جھولی میں بیٹھ کر میری قمیص کے بٹن کھو لنے کے بعد میرے سینے پر اپنےہونٹ چساں کر دئیے۔ منٹو کے افسانے: ہتک کی ہیروئن کی طرح میرے پستانوں کے نپلز کو گلابی لبوں سے چوسنے لگی۔ برسوں بعد عضؤ تناسل نے اچانک انگڑائی لی تو یوں لگا جیسے صدیوں سے مقفل رومانوی بہشت کا دروازہ خود بہ خود کھل گیا ہے۔
میرے پاؤں کپکپاہٹ سے اکٹرے جاتے تھے اور سانس سنبھلنے میں نہیں آتا تھا۔ پستانوں کے نپلز، چوسنے کے بعد گردن اور کان کی لو، کو اُس نے خوب چوسا۔ میرا عضو تناسل اکڑ کر بانس کی شکل اختیار کر گیا۔ عضو تناسل کی سختی کو، گود میں بیٹھے جب اُس نے محسوس کیا تو فرطِ مسرت سے نہال ہوگئی۔
گود سے اُتر کر مجھے کھڑا ہونے کا اشارہ کیا۔ میں کھڑا ہوگیا۔ پہلے میرا قمیص اُتارا، پھر بنیان اُتاری، پھر شلوار کا نالہ کھولنے لگی تو میں نے کہا۔ نہیں، اس سے آگے نہیں، بس، اتنا کافی ہے۔ اُس نے کہا: بہن چود، چپ، اس سے آگے تو مزہ آنے والا ہے۔ خاموش، زبان بند، کچھ نہیں بولنا، ورنہ تم نہیں جانتے میں کیا چیز ہوں۔ دو منٹ میں ایسا ننگا کروں گی کہ سننے والوں کو چہلم تک علم نہ ہوسکے گا کہ چنگا بھلا تھا، یوں اچانک کیسے چل بسا۔
قہر آلود نگاہوں کے غصیلے تیور کو دیکھ کر میں حقیقتاً ڈر گیا تھا۔ بچے کی طرح سہمے بے بس و مجبور قیدی کی مانند میری حالت اتنہائی دِگرگوں ہو چلی تھی۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ شلوار کا نالہ ٹائٹ بندھا ہونے کی وجہ سے اُس سے کھل نہ سکا۔ کہنے لگی: جب اُٹھنے سے آزاد ہوگیا ہے تو اتنا ٹائٹ باندھنے کی ضرورت کیا ہے، تم بڈھے بہت عجیب ہوتے ہو، ایک دو سے تجربہ ہو چکا ہے، بہن چود، ایسے ہی اوٹ پٹانگ حرکات کرتے ہیں۔
یہ سُن کر میرے طوطے اُڑ گئے کہ یہ کمینی تو پروفیشنل لگتی ہے۔ میں سمجھ رہا ہےکہ رئیس باپ کی بیٹی ہے، سہولیات کی آسانی نے اس کا دماغ خراب کر رکھا ہے مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے۔ میں نے نالہ کھول کر شلوار پاؤں پر گِرا دی۔ الف ننگا ہونے کے بعد میری تو جیسے روح ہی مر گئی۔ پہلے جو لطف آرہا تھا، خوف نے اُس کی جگہ لے لی۔ عضو تناسل کی سختی ایک دم غائب ہوگئی، بے چارہ میری طرح لٹک کر رانوں کے ساتھ ڈرے چوہے کی طرح چپک گیا۔
بہن چود، اِسے اُٹھاؤ۔ میں چپ سر جھکائے کھڑا تھا۔ مجھ سے تو نہیں اُٹھتا، میں نے کہا۔ اچھا۔ وہ مجھ سے چپک گئی۔ پہلی کی طرح میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے کر سختی سے چبانے لگی۔ سینے پر یہاں وہاں ہاتھ پھیرنے لگی۔ ایک ہاتھ عضو تناسل پر اور دوسرا میری پیٹھ کے ارد گرد گھوم رہا تھا۔ دو چار منٹ بعد عضو تناسل میں ذرا سی جنبش پیدا ہوئی تو اُس نے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
مجھے بستر پر سیدھا لیٹ جانے کو کہا۔ میں چپ چاپ لیٹ گیا۔ پھر اُس نے بڑے غور سے نہایت اطمیان کے ساتھ عضؤ تناسل کا تفصیلاً معائنہ کیا جیسے کوئی پروفیشنل جسم فروش تجربہ کار فاحشہ مردانگی کی شرح مانپنے کا ہنر رکھتی ہے۔ عضو تناسل میں جنبش جو لمحہ بھر آئی تھی، موٹائی و لمبائی کی پیمائش کے چکر میں چلتی بنی۔
یار، یہ کیا بکواس ہے، تم کسی کام کے نہیں ہو، مجھے لگا، صحت مند ہٹا کٹا بڈھا ہے، کچھ کر گزرے گا، تم تو واقعی کسی کام کے نہیں ہو، تمہیں تو مر جانا چاہیے، تم جیسے بڈھے مرتے نہیں اور کسی کے کام بھی نہیں آتے۔ وہ بڑ بڑ کرتی رہی اور میں چپ چاپ لیٹا دروازے کی طرف جھانکتا رہا کہ اگر کسی نے دیکھ لیا، یا، کوئی آگیا تو، ایسی شرمناک موت مروں گا کہ فرعون و نمرود کی صف میں بھی جگہ نہ ملے گی۔
میں انھیں وساوس میں غرق تھا کہ اُس نے عضو تناسل پر لوشن ڈال کر سفید کپڑے سے اچھی طرح صاف کیا۔ تم اس کی دیکھ بھال نہیں کرتے، بال دیکھو کتنے بڑے ہیں، لگتا ہے، یہاں بھی تیل لگا کر کنگھی کرت، ہو۔ داڑھی تو خوب چمکائی ہوئی ہے اور نیچے جنگل اُگا رکھا ہے۔ میری ماں مر جائے کہ میرے منہ سے ایک لفظ بھی پھوٹا ہو۔ کسی بھی طرح سے جب عضو تناسل میں تناؤ پیدا نہ ہوسکا تو اُس نے عضو تناسل کو منہ میں ڈال لیا اور چیونگم کی طرح "سک" کرنے لگی۔ "بلیو جاب" کے بارے میں سُنا ضرور تھا، آج تجربے سے گزرا تو سمجھ آیا کہ یہ بھی اپنے آپ میں کمال کی چیز ہے جس سے میں عمر بھر محروم ہی رہا۔
کافی سال ہوئے، ہمسائے کے ایک لڑکے نے مجھے ڈی وی ڈی پر ایک فلم دکھائی تھی جس میں انگریز عورت اسی طرح اپنے عاشق کا عضو تناسل منہ میں لے کر چوستی ہے، اُس کی ہائے ہائے مائی گاڈ مائی لارڈ کی آواز میں چھپے لطف کو شعوری طور پر نہ صرف محسوس کیا بلکہ تجربے سے گزرنے کی خواہش نے جنم بھی لیا جسے ایک دو، مرتبہ بیگم سے پوری کرنے کا اشارہ کیا تو بیگم نے ماں بہن ایک کر دی اور چھے مہینے روٹھی رہی۔ بڑی مشکل سے منت سماجت کرکے، آدھ تولے سونے کی انگوٹھی تحفے میں دے کر منایا تھا۔
آج تو جیسے ایک سے بڑھ کر ایک خواہش پوری ہورہی ہے لیکن اس طرح اور اس عالم میں، اس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ پانچ چھے منٹ کی مشقت کی بعد عضو تناسل میں سختی پیدا ہوئی اور پوری طرح تن کر اکٹر گیا۔ واہ، کیا بات ہے بڈھے! تیرا سائز تو آئیڈیل ہے، اب اِسے گرانا نہیں ہے، بڑی مشکل سے کھڑا کیا ہے۔
وہ بستر سے نیچے اُتری۔ اپنے کپڑے اُتارے اور الف ننگی میرے سامنے کھڑی ہوکر کہنے لگی: بتاؤ، کیسی لگ رہی ہوں؟ ایک دم مست اور قیامت۔ اچھا! یہ مستی اور قیامت مل کر طوفان لانی والی ہے جس میں تم خس و خاشاک کی طرح تنکے تنکے ہو کر ریزہ ریزہ بکھر نے والے ہو۔ اُس نے بھر پور انگڑائی لی، ہنستے ہوئے مجھ پر سیدھا لیٹ گئی اور شرمگاہ کو عضوتناسل پر رکھ کر"ربنگ" کرنے لگی۔ میرے جسم میں کپکپاہٹ پیدا ہوئی جو بڑھتے بڑھتے پورے جسم کو، لرزانے لگی۔ تم کپکپا کیوں رہے ہو، نارمل رہو، کچھ نہیں ہوگا، ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دو، یوں سمجھو جیسے کچھ نہیں ہو رہا۔
کتنے بڈھوں کی عزت مجھ سے پہلے لوٹ چکی ہو؟ جملہ سُن کر اُس نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہنے لگی: پانچ بڈھے ابھی تک ہاتھ لگے ہیں، سالے ڈرتے بہت ہیں، دو بڈھے تو عین "پِیک ٹائم" رونے لگے تھے کہ میں کیا منہ دکھاؤں گا۔ ایک بڈھے نے میرے پاؤں پکڑ لیے کہ یوں نہ کرو، مجھے جانے دو۔
تم نوجوان لڑکوں سے "سیکس" کیوں نہیں کرتی؟ یار، مزہ نہیں آتا، سالے پانی نکالنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ جسمانی طور پر طاقتور ہونے کی وجہ سے عورت کو مغلوب کرنا ان کے لیے آسان ہوتا ہے۔ فارغ ہونے کے بعد پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھتے کہ جس جسم سے شہوت کی خواہش پوری کی ہے اُسے بھی ویسے ہی تسکین کی خواہش ہے جو پوری نہیں ہو سکی۔
بوڑھوں کے ساتھ سیکس کرنے میں مزے سے زیادہ ان کے کھوکھلے بڑھاپے کا راز فاش کرنے میں مزہ آتا ہے۔ تم لوگ جھوٹی انا اور خود ساختہ شرافت کے مارے ہوئے ہو۔ معاشرے میں منافقانہ شرافت کا لبادہ اوڑھ کر تاکتے جھانکتے رہتے ہو لیکن کسی کو کان و کان خبر نہیں ہونے دیتے۔ ایک نمبر کا حرامی ذہن رکھتے ہو لیکن مجال ہے کسی کو تم لوگوں کے اندروں شیطان کی بھنک پڑ جائے۔ اس لیے مجھے تم جیسے بڈھوں کی لینے میں بڑا مزہ آتا ہے۔
عضو تناسل ڈھلک کر پھر رانوں کے ساتھ چپک گیا۔ یار، یہ کیا بکواس ہے۔ اِسے پھر اُٹھانا پڑے گا۔ نہیں بس، ٹائم ہوگیا ہے، کوئی آجائے گا، ابھی مجھے جانے دو، گھر میں بیوی انتظار کر رہی ہے، بازار سے سبزی لینی ہے اور بہت سے کام کرنے ہیں۔ بہن چود، یہ سب بہانے ہیں تمہارے، کوئی کہیں نہیں جانے والا۔ تم نے تو مزہ لے لیا، میں نے ابھی کچھ نہیں محسوس کیا۔ ایسے نہیں جانے دو گی۔ میں نے اصرار کیا۔ اُٹھ کر ہاتھ پکڑ کر پیار سے کہا، مجھے جانے دو۔ پھر کسی دن باقی پراسیس ہو جائے گا۔ ابھی مجھے دیر ہورہی ہے، کوئی آجائے گا، میں منہ کالا کروا کے نہیں مرنا چاہتا۔
جانے اُس کے ذہن میں کیا خیال آیا۔ اچھا ٹھیک ہے، جاؤ، اگلے ہفتے ملتے ہیں۔ اگلا ہفتہ کبھی نہیں آیا۔ اس واقعہ کو گزرے یوں تو بہت عرصہ بِیت چکا لیکن میں ابھی تک اس وقوعہ کے ہیجان انگیز طلسم سے باہر نہیں نکل سکا۔ تم چوں مجھ سے ذہنی و قلبی طور پر بہت قریب ہو، اس لیے میں تمہارے سامنے اعتراف کرتا ہوں کہ بوڑھے واقعی ٹھرکی ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی یہ ٹھرکی پن، انسان کے لیے دائمی ذلت و بدنامی کا سبب بھی بن جاتا ہے۔
وہ لڑکی بھٹکی ہوئی تھی یا میں خود بھٹک گیا تھا، اس بات کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔ بندہ کیا کرے، ہمارے معاشرے میں پچاس برس عمر ہونے کے بعد سب یہی توقع کرتے ہیں کہ چہرے پر داڑھی چپکا کر سر پر ٹوپی پہن کر نیچے والی ٹوپی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معطل و معزول کر دیا جائے۔ میں انسان ہوں، میری بھی خواہش ہے کہ میری میرے بیوی پاس رہے، خواہ سیکس کے عمل سے نہ گزریں لیکن بوس و کنار اور بغل گیر تو ہوا جا سکتا ہے۔
ہر بندہ یہی کہتا ہے، شرم کرو، پوتوں نواسوں والے ہو، اس عمر میں ایسی حرکتیں کرتے شرم نہیں آتی۔ ایرے غیرے تو دور، اپنی اُولاد کن اکھیوں سے ٹٹولتی رہتی ہے کہ میاں بیوی کمرے میں اکیلے بیٹھے نظر نہ آسکیں۔ ماں کا مطلب یہ تھوڑا ہے کہ وہ کسی کی بیوی نہیں رہی۔ ماں کو ہاتھ لگانے کا مطلب اپنی موت کو دعوت دینا ہے۔ اپنے جائے ہوئے بچے ایسی قہر آلود نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ بندہ سوچتا ہے کہ میں نے انھیں پیدا کیا ہے کہ انھوں نے مجھے جنم دیا ہے۔ عجیب زبردستی ہے۔
میں انھیں کیا بتاؤں کہ میں گندم کھاتا ہوں، گوشت خور ہوںِ ، چنے چپاتا ہوں، دودھ پیتا ہوں اور باقاعدہ ورزش کرتا ہوں۔ میں کسی کے کوٹھے پر نہیں جاتا، میں نے کوئی باہر نہیں رکھی ہوئی۔ اگر مجھے سیکس کرنے کی خواہش ہے اور جسم ساتھ دیتا ہے تو لوگ مجھ سے یہ تقاضا کیوں کرتے ہیں کہ میں دن رات تسبیح کروں اور ناصح ہو کر دوسروں کو سیدھا راستہ دکھاؤں۔
میں جب خود ہی بھٹکا ہوا ہوں تو دوسروں کو راستہ کیسے دکھاؤں گا۔ ہم سے تو گورے اچھے ہیں، وہ شراپ پیتے ہیں تو برملا کہتے ہیں کہ میں نے شراب پی ہے۔ سیکس کرنا ہے تو جو رضامند ہوتا ہے اُسی کے ساتھ کر لیتے ہیں۔ میری طرح منافقت کا مظاہرہ تو نہیں کرتے۔ ہمارا معاشرہ بھی عجیب ہے، شادی جو اٹھارہ برس میں ہو جانی چاہیے وہ چالیس پچاس میں جا کر ہوتی ہے۔
میری شادی چھالیس برس میں ہوئی۔ والدین کی خواہشیں پوری کرتے کرتے جوانی بوجھ کی نذر ہوگئی۔ جزوقتی جنسی خواہش کی تسکین کا سامان میسر نہ ہونے کی وجہ سے مشت زنی کر کرکے اپنا بیڑا غرق کر لیا۔ مشکل سے دو بچے پیدا ہوئے جو ابھی اس قابل نہیں کہ گھر کا بوجھ ڈھو سکیں۔
بیگم صاحبہ پرلے درجے کی نالائق خاتون ہے۔ سیکس کرنا تو دور، پاس بیٹھنے سے غصہ کر جاتی ہے کہ دور ہو کر بیٹھو، کوئی کیا کہے گا۔ بھئی، تم میری بیوی ہو، میں دو سو بندے لے کر تمہیں بیاہ کر لایا ہوں، بھگا کر نہیں لایا، کسی کی ایسی کی تیسی کہ کوئی کچھ کہے لیکن جب بیوی ہی رضامند نہیں ہے تو بندہ کیا کر سکتا ہے۔
ایک دو خراب ہوں تو انھیں سمجھایا جاسکتا ہے یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ یہ میری کہانی ہے بھئی۔ میں نے تمہیں بتا دی ہے، مجھے تم سے شئیر کرنا اچھا لگا۔ اب تم جہاں چاہو، اسے سناؤ اور ہمیں رُسوا کرو۔ حقیقت تو یہی ہے کہ خدا کے بعد اگر کوئی جذبہ ہے تو وہ سیکس کا جذبہ ہے۔ سیکس کے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ پوری کائنات سیکس کے نظام سے متصل ہے۔ یہ نفسانفسی اور بھاگم بھاگ کا سلسلہ سیکس کے تابع ہے۔ دُنیا بھر کے حازقوں اور فلاسفروں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ سیکس جملہ جذبات و احساسات کا باپ ہے۔ سیکس نہ ہوتا تو کچھ بھی نہ ہوتا، میں بھی نہ ہوتا اور تم بھی نہ ہوتے۔
دُنیا کی یہ رونق سیکس کے جذبے کی مرہونِ منت ہے۔ ہماری تو جیسے تیسے گزر گئی۔ اچھا لگتا ہے جب کوئی کہتا ہے کہ تم ٹھرکی ہو۔ ٹھرکی ہونا بھی مزے کی بات ہے، عمر کے اس حصے میں یہی ٹھرک پن زندہ رکھے ہوئے ہے۔
جسم کی موت سے پہلے جذبات کی موت ہوا کرتی ہے۔ جذبہ مر جائے تو بندہ مر جاتا ہے۔
جسم کا کیا ہے کہ یہ تو مٹی کی خوراک ہے اور مٹی آدم کھاتی ہے۔