Bache, Ustad, Mulk, Siasat Aur Shah Ji
بچے، اُستاد، ملک، سیاست اور شاہ جی
رات گئے ہم دوست، ملک کی موجودہ صورتِ حال کی سنگینی پر ماتم کرتے رہے۔ تین بجے کے قریب سبھی دوستوں نے محسوس کیا کہ رات اب بھیگ بھیگ کر نڈھال ہونے کو ہے۔ اس سے پہلے کہ ہماری بیگمات کی کالز آنے کی بجائے بلائے ناگہانی کی طرح وہ خود یہاں تشریف فرما کر ہمارے غُل غپاڑے کی داد مرمریں ہاتھوں کے آہن پوش تیور سے دیں، ہمیں اب رفو چکر ہو جانا چاہیے۔ صلاح تو بہت مناسب تھی لیکن کسی کا بھی اُٹھ کر جانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔
طبیعت میں شکایات کا طوفان برپا تھا۔ جل تھل کر دینے والے بادلوں کو برسنے کا جواز چاہیے تھا کہ جگالی کی غرض سے اِدھر اُدھر کی باتیں ہونی لگیں۔ ایک صاحب جو کچھ زیادہ ہی خفگی کا سامان سمیٹے بیٹھے ہیں۔ یوں گویا ہوئے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کِیا جائے۔ ہم اس ملک کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ یہ وہ سوال تھا جو ہر جواب کے جواز میں متفقہ سب کی زبان پر گویا تھا۔ سبھی کا تعلق چوکہ شعبہ تدریس سے تھا اس لیے ہِر پھر کر بات اسی شعبے پر آتی۔
وہ صاحب کہنے لگے کہ بات سنو! بہ حیثیتِ اُستاد ہم کیا کریں کہ سکولز، کالجز میں ہونے والے پڑھائی، سلیبس سے شروع ہوئی اور پورن سائٹس، ڈیٹنگ، ماسٹر بیشن سے ہوتی ہوئی فزیکل ریلیشن کے آئے روز واقعات تک جا پہنچی ہے۔ سبھی دوستوں نے اپنے اپنے موقف کی تائید میں زبان درازی کی حد تک زبان کُھولی اور گلہ پھاڑ پھاڑ کر اپنی آرا کا اظہار کیا۔ کچھ باتیں جو سبھی کے درمیان ایک پیج والی سطح کی تھیں، وہ یہ کہ ہم اُستاد اپنی نوکری بجانے کے لیے جو سلیبس ملتا ہے، وہ پڑھا رہے ہیں اور جس طرح کے بچے ہیں، اُن کی تعلیم کا کچھ نہ کچھ سامان کر رہے ہیں۔
سرکاری اور نجی سکولز میں سلیبس، ماحول، نظم و نسق اور جملہ افعالِ تدریس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بچے اب ہمارے ہاتھ میں نہیں رہے۔ بچوں کو ہم پر سے اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ بچے اب ہم سے باتیں چھپاتے ہیں۔ بچے وہ نہیں رہے۔ بچے یہ ہو گئے ہیں۔ بچے وہ ہو گئے ہیں۔ بچے گو یا بچے ہی نہیں رہے۔ پتہ نہیں کیا ہو گئے ہیں۔ بچے سوشل میڈیا کی وجہ سے خراب ہو چکے ہیں۔ بچوں نے موبائل اور انٹرنیٹ کی دستیابی اور آسان حصول کی سہولت سے خود کو اتنا خراب کر لیا ہے کہ ان کے ذہن میں پورنو گرافی گھسی ہوئی ہے۔ ان کا سارا وقت مخالف صنف کو اپنے دام میں پھانسنے اور ڈیٹنگ پر لے جانے میں صرف ہوتا ہے۔
ایمازون، نیٹ فلکس، انسٹا گرام، فیس بک، وٹس ایپ اور اس طرح کے دسیوں ایپ میں بچوں کے فیک اکاونٹ ہیں اور ان کے لاگن پاسورڈ بھی فیک آئی ڈی پر ہیں۔ یہ بچے ہم سے اب ہمیں جاننے لگے ہیں۔ پانچ برس سے دس برس کی عمر کا بچہ تیس سے پچاس برس والے مرد کی جملہ حرکاتِ مخفی اور پوشیدہ کاری کے جملہ اسِراروموز سے کماحقہ واقف ہے۔ یہ سب کچھ اسی سوشل میڈیا کی دین ہے جس کی وجہ سے پاکستانی بچے بالغ ہونے سے قبل بوڑھے ہو رہے ہیں۔ ان کے اندر جنسی تسکین کی تشنگی یعنی فرسٹیشن اس قدر بھری ہوئی ہے کہ راہ چلتی ہوئی لڑکی کو دیکھ کر ببلائے جاتے ہیں اور رال ٹپکتے ہیں اور ہر ممکن کوشش سے اِسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جن بچوں کے والدین نے ان پر نرم ہاتھ رکھا ہے یعنی انھیں گھر کا شیر بنایا ہے اور پپو، مٹھو، جانو، سونو کہہ کر ان کا بیڑا غرق کیا ہے۔ انھیں مار ڈانٹ کی بجائے ہاتھ لگا کر دیکھو والی پالیسی پر ٹانکا ہوا ہے۔ وہ بچے ہمارے لیے ناسور بن چکے ہیں۔ انھیں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ یہ ہمیں وہ، وہ کچھ کہتے ہیں کہ شرم کے مارے منہ بھی چھپانے سے اب ندامت کا احساس زائل نہیں ہوتا۔ بچوں کو ٹین ایج یعنی لڑکپن کی عمر میں کتابوں سے محبت ہونی چاہیے۔ انھیں ہوم ورک میں دلچسپی لینی چاہیے۔ ان کے پسندیدہ کھیل میں تعمیری پہلو کی جھلک ملنی چاہیے۔
اکیسویں صدی کے یہ بچے اب جو کچھ دن رات دیکھ رہے ہیں اور کمرہ جماعت میں ڈسکس کرتے ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس جنریشن سے کسی توقع کی اُمید نہیں ہے۔ ایک دوست نے بچوں کو خراب کرنے کی ذمہ داری خان صاحب کی گالم گلوچ کو ٹھہرایا تو سبھی اِس کے گلے کو آلیے کہ چپ رہو۔ ایک دوست نے سیاست کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا تو بات پھر طول پکڑ گئی کہ کس کس کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ ایک دوست نے مولوی صاحب کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا کہ اس مکتبہ فکر نے کچے ذہن کے بچوں میں تشدد، جبر اور خوف کو بھرا ہے جس سے نکلنے کے لیے بچوں نے اِس راہِ برہنگی کو اختیار کیا ہے۔ اس پر بھی اُس بے چارے کی بہت لے دے ہوئی۔
گفتگو کا یہ سلسلہ تقریباً چار گھنٹے تسلسل سے جاری رہا۔ اس دوران تکے، کباب، قورمہ، بریانی، کوک اور پھر چائے کا دور ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ میں ان کے درمیان بیٹھے وقفے وقفے سے لقمہ دیتا رہا اور زیادہ وقت ان مصاحبین کی آرا کو سننے پر صرف کرتا رہا۔ یہ سوچتا رہا کہ مسائل در مسائل کی اس مبارزت میں حل کی طرف کون نشاندہی کرے گا۔ ہم سبھی دوستوں میں شاہ جی عمر کے لحاظ سے سترے بہترے ہیں۔ ان کی رائے ہم سب پر غالب ہوتی ہے۔ سگریٹ سُلگائے وہ میری طرف کن انکھیوں سے دیکھتے رہے اور ہم آنکھوں آنکھوں میں رمز و ایما والی زبان سے جملہ ماحول سے حظ اُٹھاتے رہے۔
شاہ جی نے گھڑی پر ٹائم دیکھا اور ہم سب کو مخاطب کرکے گویا ہوئے کہ سب نے اپنی اپنی بات رکھ دی ہے اور اب اس بحث کو کسی نتیجے پر ختم کیے بغیر یوں اُٹھ جانا مناسب نہیں ہے۔ میں نے اس ملک میں عمر کے ستر برس گزارے ہیں۔ آپ سب کی جتنی عمر ہے، اتنا میرا تجربہ ہے۔ میں نے وہ سب کچھ آنکھوں سے دیکھا ہے جسے آپ نے حذف و ترمیم کے ساتھ کتابوں میں پڑھا اور لوگوں سے سُنا ہے۔ بات یہ ہے کہ اس ملک کے قیام سے ہی اس ملک کو ہمیشہ کے لیے تنزل کی کھائی میں گِرا دیا گیا تھا۔
1948 میں ہم امریکہ کے پاس چلے گئے تھے۔ سویت یونین کو توڑنے کے لیے ہمارے بڑوں نے اس ملک کوامریکہ کے سامنے رہن رکھ دیا تھا۔ بھارت نے ہمارے پاؤں نوزائیدہ مملکت میں جمنے نہیں دئیے۔ اس ٹف ٹائم کی وجہ سے ہم نے امریکہ سے مدد لینا شروع کی جو اب نشے کے عادی مجرم کی طرح ہماری جان کے بچاؤ کا واحد آسرا بن چکی ہے۔ بھارت سے 1948 کی جنگ خواہ مخوا ہماری فوج نے چھیڑی۔ بدلے میں ہم نے جذبات میں آکر انھیں بندوق تھما دی اور خزانہ بھی انھیں کے حوالے کر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن، بہتر تہتر برس ہو چکے اس قصے کو۔ بندوق دینے والے دھکےکھارہے ہیں اور لینے والے مزے اُڑا رہے ہیں۔
تین جنگیں ہم نے لڑیں جو ہم نے خود شروع کیں اور خود ہی اس کا لقمہ بھی بنے۔ ملک کا آدھا حصہ تو گیا، ساتھ اور بھی بہت کچھ گیا جس کی سزا ہم آج بھگت رہے ہیں۔ اس ملک میں جمہوریت کےنام پر سب نے ہمیں خواب دکھائے اور اپنے اثاثے بنائے اور ملک کو دو، د وہاتھوں سے کمزور کیا۔ آج ہم ڈیفالٹ ہو چکے اور تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ہر شخص یہاں جھوٹ بولتا ہے اور سچ کی تلقین کرتا ہے۔ ایک پھل فروش سےلے کر ملک فروش تک، سبھی اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں۔ سبھی چور، ڈاکور اور لٹریے ہیں اور سبھی کو امین اور صادق کا خطاب پانے کی آرزو بھی ہے۔
میں نے اس ملک کو پچاس برس میں مزید کمزور، نیچے جاتے اور دُنیا میں رُسوا ہوتے ہی دیکھا ہے۔ آپ بات کرتے ہیں کہ بچے خراب ہو گئے ہیں۔ بھائی! یہاں ہر بندہ خراب ہے۔ کیا مسئلہ ہے اُستاد میں۔ آپ اُستاد کو اس سب کے ذمہ دار کیوں ٹھہرا رہے ہیں۔ ان چوروں، لٹریوں اور غاصبوں کو ہم نے پیدا نہیں کیا اور ان کی ایسی ذہن سازی کی ہے۔ ایک اُستاد کی طاقت کا شائد آپ کو اندازہ نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کے بننے کے پیچھے اصل محرک کون ہے۔ کیا تمہیں پتہ ہے۔ در اصل ہم اپنی کوتاہی، غفلت، لاعلمی، جہالت اور فرض کی انجام دہی سے ا نحراف کے رویئے کو تسلیم کرنے سے عاجز ہیں۔
ہم سب کے بچے نجی سکولز میں پڑھتے ہیں اور ہم سرکاری سکولز میں پڑھاتے ہیں۔ ہم کھاتے سرکار کا ہیں اور تعریفیں نجی برانڈ کی کرتے ہیں۔ ہم سے بڑا منافق، ملک دُشمن اور فرض کوتاہ اور کون ہوگا۔ دراصل ہم نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ ہم نے پڑھانا ہی نہیں۔ ہم نے بس آنا ہے اور وقت گزارنا ہے اور چلے جانا ہے۔ تنخوا لگی ہے اور کوئی ہمیں نکال کر دکھائے تو۔ سارا دن بیٹھ کر ہم اپنی خواہشوں کی عدم تحصیل کا رونا روتے ہیں۔ ہماری دُنیا فرعون کی تو ہوگئی ہے لیکن ہم موسیٰ کی آخرت والے معیار سے خود کو گِرا دیکھ کر ہڑبڑائے ہوئے ہیں۔۔
اس سے پہلے کہ شاہ جی ہمیں اپنا منہ آپ دیکھنے کے لائق نہ رہنے دیتے۔ سب نے شاہ جی کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے اور کان پکڑ لیے کہ شاہ جی بس! آپ سچے ہیں۔ آپ مہان ہیں۔ آپ کی کیا بات ہے! آپ کہاں اور ہم کہاں۔ شاہ جی نے سب کی طرف دیکھا۔ کوئی نہ بولا۔ دم بہ خود ساکت جیسے سانس نکل گیا ہو۔ شاہ جی نے کہا۔ بزم برخاست۔ خدا حافظ۔ سبھی گھر کو لوٹ گئے۔