Aik Tasveer Se Wabasta Roomani Yaadein
ایک تصویر سے وابستہ رومانی یادیں

آج اُس نے کالا جوڑا پہن رکھا تھا۔ دوست مجھے چھیڑ رہے تھے کہ آج اُس نے کالا جوڑا پہناہوا ہے، آج تو بات بن جانی چاہیے۔ میں مسکرا دیا۔ گھنٹی بجی، ہم سبھی ہال میں چلے گئے، سیشن شروع ہوگیا۔ دو گھنٹے پروفیسر صاحبان کو سننے کے بعد چائے کا وقفہ ہوا۔ ہم "پنج تنی" ہال سے کیفے ٹیریا چلے گئے۔ میں اور حافظ ارشد چپکے سے کھسک لیے، فی میل ہاسٹل کے عقب میں موجود خواتین لیکچرار کے لیے مختص کی گئی جگہ کے قریب بڑ، کے درخت کے ساتھ لگ کر کھڑے ہو گئے۔ حافظ صاحب کہنے لگے، جاؤ، وہ سامنے کھڑی ہے، بات کر لو، میں نے کہا، مروائے گا کیا، کسی نے دیکھ لیا تو بہت مار پڑے گی، رُسوائی الگ ہوگی۔
حافظ صاحب نے کہا: او، یار، جاؤ نہ، کچھ نہیں ہوتا، سامنے ہی تو کھڑی ہے، جاؤ اور جو کہنا ہے بول کر آجاؤ۔ میں نے ہمت باندھی، ڈرتے ڈرتے جیسے ہی اُس کے قریب پہنچا، ڈی ڈی سی صاحب نے مجھے دیکھ لیا، کہنے لگے، نا، نا، نا، اُدھر نہیں جانے کا، اِدھر میرے پاس آنے کا۔ میں پشیمان سر جھکائے اُلٹے قدموں ڈی ڈی سی کے پاس چلا گیا، حافظ صاحب بھی میرے پیچھے پیچھے چلے آئے۔ ہم دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر ڈی ڈی سی مسکرائے اور کہنے لگے۔ کیا بات ہے، کیسی تانکا جھانکی چل رہی ہے، کچھ ہماری عزت کا خیال ہے کہ نہیں، کیوں بدنامی کا سامان کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔
ہم خاموش سر جھکائے کھڑے رہے، ڈی ڈی سی صاحب نے کہا، کس کا چکر ہے دونوں میں سے، حافظ نے کہا، سر، چکر نہیں ہے، معاملہ سیریس ہے، اس کا دل آگیا ہے ایک حسینہ پر اور کوئی بات نہیں۔ ڈی ڈی سی صاحب نے کہا، تم ابھی ابھی لیکچرر منتخب ہو کر ٹریننگ کے لیے یہاں پدارے ہو، ذمہ دار فرض شناس آفیسر بننے کی بجائے سیدھا عاشقی میں کود پڑے، سبحان اللہ، کیا تعمیری ارادے ہیں جناب کے۔
حافظ نے کہا، نہیں سر، ایسی بات نہیں ہے، آپ اس کا انتخاب تو دیکھیے، پھر بتائیے کہ کیا کرنا چاہیے۔ ڈی ڈی سی صاحب شاعرانہ مزاج کے حامل تھے اور حُسن پرست بھی غضب کے تھے، ڈی ڈی سی اس کمزوری سے ہم نے بھر پور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی، ڈی ڈی سی نے کن اکھیوں سے محترمہ پر سرسری نگاہ ڈالی اور ہائے کہہ کر میری طرف دیکھا اور کہنے لگے۔ انتخاب تو لاجواب ہے، چشم بدور، سبحان اللہ۔ خیر، چلو، یہاں سے، دوبارہ ادھر نظر نہیں آنے کا۔ بریک ختم ہوئی، چائے پیے بغیر ہم سیدھا ہال میں چلے گئے۔
شہزاد اور وقار کو اس قصے کا احوال سنایا کہ ڈی ڈی سی صاحب نے آج ہمیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہے لیکن انھوں نے کہا کچھ نہیں ہے، فی الحال ڈانٹ کر بھگا دیا ہے۔ دو ہفتے کی اس ٹریننگ میں ہم پانچوں دوست ایک جگہ بیٹھتے اور وقفہ سوالات کے دوران باری باری سوالات کرتے رہتے۔ ہمارا "پنج تنی" گروپ دو سو لیکچررز میں مشہور ہوگیا تھا، رفتہ رفتہ بیشتر فیلوز کو اس بات کا علم ہوگیا تھاکہ ہم کسی خاص مہم کے تحت سوالات کی اوٹ پٹانگ بوچھاڑ کرتے ہیں جس کا مقصد کسی کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کروانا ہے۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی ہمارےگروپ کو مخاطب کرکے کہا جاتا کہ کوئی سوال رہ گیا ہے تو وہ بھی کر لیں تاکہ آپ کے کلیجے کو ٹھنڈ پڑ جائے۔
جب سوالات اور اوٹ پٹانگ حرکات سے وہ محترمہ میری طرف متوجہ ہونے کے باوجود بات چیت کے لیے رضامند نہ ہوئی تو وقار صاحب نے مشور ہ دیا کہ محسن صاحب! یوں بات نہیں بننے والی، ڈی ڈی سی صاحب کے سامنے سارا معاملہ رکھ دیتے ہیں وہ کوئی حل نکالیں گے، بندہ ذرا جولی قسم کا ہے، ضرور کوئی راستہ ہموار کرے گا۔ جمعہ کے دن شام چار بجے بوریت سے بھر پور سیشن کے بعد ہم تینوں وقار، شہزاد اور حافظ ارشد ڈی ڈی سی کے پاس گئے اور انھیں جملہ صورتحال سے آگاہ کہ یوں میرا دل محترمہ پر آگیا ہے، خدا کے لیے کچھ کیجیے، دو دن باقی رہ گئے ہیں، اس کے بعد تو ملاقات کا سلسلہ مستقل موقوف ہو جائے گا۔
انھوں نے کہا، تم سیریس ہو، کوئی فلرٹ والا معاملہ تو نہیں ہے، میں نے کہا، نہیں سر، میں سیریس ہوں اور شادی کرنا چاہتا ہوں، آپ بس وچولہ بن جائیے اور کسی طرح کوئی راہ نکالیے۔ انھوں نے مجھ سے میرے خاندان کے بارے میں معلومات لی، گھر بار، زمین جائیداد وغیرہ کا پوچھا، ذات پات رنگ نسل اور دیگر رسمی سوالات سے جب انھیں تسلی ہوگئی تو کہنے لگے، ٹھیک ہے، میں کچھ کرتا ہوں۔ اگلے دن ڈی ڈی سی صاحب سارا دن غائب رہے جبکہ ڈائریکٹر صاحب سیٹج پر براجمان رہے۔ ہم حسب عادت سوالات کرتے رہے اور ہنسی مذاق میں سارا دن گزر گیا۔ قریب چار بجے شام ڈی ڈی سی صاحب ایک خاتون کے ہمراہ ہال میں تشریف فرما ہوئے تو ہمیں چین پڑا۔
خاتون سج سنور کر قیمتی برانڈ زیب تن کرکے خراماں خراماں ہال میں ڈی ڈی سی کے ساتھ جلوہ افروز ہوئیں۔ ڈائریکٹر صاحب نے مختصر سپیچ دی، آج کا سیشن اختتام پذیر ہوا، سبھی چائے کے لیے کیفے ٹیریا کی طرف چل پڑے۔ ہم تینوں ڈی ڈی سی کو اشارے کریں کہ ہمارے لیے کچھ کرو گے یا صرف اشعار ہی سنا کر جی بہلاتے رہو گے۔ ڈائریکٹر صاحب کے رخصت ہوتے ہی وہ میری مجوزہ محترمہ کے پاس اُس خاتون کو لے کر گئے اور ان سے گفتگو کرنے لگے۔
ہم دور کھڑے دیکھ رہے تھے، دس منٹ بعد وہ ہمارے پاس آئے، پتہ چلا کہ یہ خاتون ڈی ڈی سی صاحب کی بیگم ہیں اور اسی مقصد کے لیے آج تیار ہو کر تشریف لائی ہیں، انھوں نے کہا کہ لڑکی کی اپنے خالہ زاد کے ساتھ منگنی ہو چکی ہے، اُس کا کہنا ہےکہ میں اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتی، میری طرف سے جواب ہے۔
جواب سن کر میرا تو کلیجہ چھلنی ہوگیا، میں روہانسا ہو کر منہ لٹکائے حافظ صاحب کو دیکھنے لگا، ہم تینوں دوست خاموش کھڑے رہے، محترمہ نے میرے سر پر پیار دیا اور کہا کوئی بات نہیں بچے، آپ نے پسند کیا اور کوشش کی، آگے جو رب کی مرضی، ڈی ڈی سی صاحب نے کہا، یہ جھوٹ ہے، ہو سکتا ہے اُس نے جان چھڑانے کے لیے ایسا کہا ہو، محترمہ نے کہا، تمہیں بڑا پتہ ہے، اس کا مطلب تم یہ تجربات کر چکے ہو، نہیں ایسی بات نہیں ہے، میں تو بس یہ کہہ رہا تھا کہ لڑکی نے گھبرا کر ایسا کہا ہوگا ورنہ منگنی والی بات میں صداقت معلوم نہیں ہوتی۔
دیکھو، نا، ہمارا لڑکا خوبصورت ہے، جوان ہے اور لیکچرر ہے، اس میں کیا کمی ہے، وہ دونوں آپس میں اس بات کو لے بحثنے لگے، وقار نے کہا، آنٹی، آپ نے ہمارے دوست کے لیے وقت نکالا اور بات بھی کی، ہم آپ کے شکر گزار ہیں، خیر کوئی بات نہیں، جو اللہ کو منظور، وہی ہم کو قبول۔
اگلے دن ہم میں سے کسی نے کوئی سوال نہیں کیا، بجھے ہوئے چہروں کے ساتھ نیم تاریک راہوں میں مارے جانے والے اسیروں کی طرح رنجیدہ بیٹھے کرسیوں پر غصے کا بوجھ ڈالتے رہے۔ اسٹیج سیکرٹری نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے دو، چار دفعہ پوچھا کہ آپ لوگ آج سوال نہیں کر رہے، خیریت تو ہے، ہم خاموش رہے، ہال میں سرگوشیاں ہو رہی تھیں کہ کوئی پیار ویار کا چکر لگ رہا ہے بریک آپ ہوگیا ہے شائد، کوئی بول نہیں رہا۔
سیکنڈ لاسٹ سیشن کے اختتام پر ڈرائریکٹر صاحب نے اعلان کیا کہ کل ہم ہیڈ مرالہ چلیں گے، آوٹنگ کے ساتھ بریانی کا اہتمام بھی ہوگا سبھی فیلوز گروپ بنا لیں اور مجھے تحریری رپوٹ جمع کروادیں۔
سبھی فیلوز بہت خوش ہوئے۔ اگلے دن صبح نو بجے گاڑیوں میں بیٹھ کر ہم براستہ سیالکوٹ ہیڈمرالہ پہنچ گئے۔ شدید گرمی کی وجہ سے زیادہ لطف اندوز نہ ہوسکے تاہم پانی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھ کر جی خوش ہوا۔ پارک میں دم سستانے کو بیٹھ گئے، ڈرائریکٹر صاحب نے جگہ جگہ بکھرے ہوئے سبھی لیکچررز کو ایک جگہ اکھٹا کیا اور بیت بازی کے انداز میں شعر گوئی کا سلسلہ شروع کروایا۔
ڈی ڈی سی صاحب نے دو، چار شعر سنا کر ماحول بنانے کی کوشش کی، اس کے بعد خاموشی چھا گئی، کوئی نہ بولا، سبھی ایک دوسرے کے منہ تک رہے تھے۔ ڈرائریکٹر صاحب نے ڈی ڈی سی سے کہا، یہ بچے تو بہت بد مذاق واقع ہوئے ہیں، انھیں شعرو شاعری سے دلچسپی ہی نہیں یا پھر کچھ سنانے سے ہچکچا رہے ہیں۔ ڈی ڈی سی صاحب نے میری طرف دیکھا اور کہا، محسن! چلو، شروع ہو جاؤ، ہم نے جون کا یہ قطعہ سنایا:
کسی لباس کی خوشبو جب اُڑ کے آتی ہے
تیرے بدن کی جدائی بہت ستاتی ہے
تیرے بغیر مجھے چین کیسے پڑتا ہے
میرے بغیر تجھے نیند کیسے آتی ہے
واہ، واہ، واہ کی ملی جلی صدائیں بلند ہوئیں، ڈرائریکٹر صاحب کہنے لگے، بندہ شاعر لگتا ہے، ڈی ڈی سی صاحب نے کہا، نہیں، سر، عاشق ہے، تازہ تازہ دل ٹوٹا ہے، ڈرائریکٹر صاحب ہنسنے لگے، کیا، یہ کب اور کیسے ہوا۔ ڈی ڈی سی صاحب نے کہا، دل توڑنے والے اسی محفل میں موجود ہیں، سبھی ہنسنے لگے اور محفل زعفران ہوگئی، ڈی ڈی سی صاحب کے اس جملے میں مجھے اپنا دیوانہ بنا لیا تھا۔ ڈرئریکٹر صاحب نے کہا، اس غم زدہ کیفیت کو ذرا گرماؤ، پتہ تو چلے تازہ تازہ دل ٹوٹنے سے انسان پر کیا گزرتی ہے، میں نے فیض احمد فیضؔ کا قطعہ سنایا:
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
پورا مجمع واہ، واہ، واہ، کرنے لگا۔ اس کے بعد ڈی ڈی سی اور ہم نے ایک دوسرے کے مقابلے میں خوب شعر کہے۔ بیس منٹ کی اس بیت بازی میں ڈی ڈی سی صاحب کو پہلا انعام اور ہمیں دوسرا دیا گیا۔ یہ ایک یادگار بیت بازی نما مشاعرہ تھا جو ہمیں یاد رہ گیا۔ اس کے بعد گاڑیوں میں بیٹھنے کا حکم ہوا، یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ رخصت ہوتے ہوئے محترمہ نے شرما کر ہمیں لمحہ بھر کو دیکھا اور ہم جولیوں کے ساتھ نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔ میں گاڑی میں بیٹھا تو انتہائی افسردہ صورت حال سے دوچار تھا۔
دوست کہنے لگے، یار، تیرا کام ہوگیا ہے، اب تو زیادہ سینٹی مت ہو، اُس کو بھول جا، یہ ایک خوبصورت موڑ ہے جہاں دوسری اور پلٹ جانا ضروری ہے، ٹریننگ ختم ہوگئی اور یہ پیار ویار کا سلسلہ بھی یہی ختم ہو جانا چاہیے۔ میں خاموش دوستوں کی پند و نصائح سنتا رہا۔ تین چار کلو میٹر کے بعد ہیڈ مرالہ سے متصل گورنمنٹ گرلز کالج میں ہماری لیے لنچ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بھوک بھی بہت لگی تھی اور بریانی بھی کمال کی بنی تھی۔
بریانی کھاتے ہوئے میری نگاہ فقط اُسی کو ڈھونڈ رہی تھی، میں چاہتا تھا کہ ایک بار اُس سے روبرومل کر دل کی بات کہہ دی جائے، اس کے بعد خواہ عمر بھر اُس کو نہ دیکھ سکوں۔ ایسا کرنے سے کم از کم اس کمینے دل کو تسلی تو ہو جائے گی۔ میں نے وقار سے کہا، چلو میرے ساتھ، سبھی کھانے میں مصروف ہیں، ڈی ڈی سی اور ڈرائریکٹر وغیرہ پرنسیل آفس میں بیٹھے ہیں، موقع اچھا ہے، چلو بات کرتے ہیں، مولوی ہو اور بریانی چھوڑ دے، یہ کیسے ہو سکتا ہے، خیر، ہماری خاطر وقار صاحب بریانی قربان کرکے چل پڑے۔
تیسرے کمرے میں محترمہ الماری کے ساتھ کرسی پر بیٹھی بریانی میں چمچ گھماتی نظر آئی، میں نے وقار سے کہا، تم، آواز دو، کہ کسی کو بریانی چاہیے۔ پہلے تو وہ شرمایا، پھر گھبرایا، پھر ہمت جوڑ کر مری سی آواز میں بولا، کسی کو بریانی چاہیے تو میں لا دیتا ہوں، محترمہ نے ہماری طرف دیکھا، میں نے للچاتے ہوئے التجائی نگاہوں سے کچھ کہنے کی خواہش کا، نینی اشارہ دیا، وہ سمجھ گئی، فوراً انکاری نگاہ کے اشارے سے ہمارے دل پر"یہاں سے پھوٹو" کا کاری وار کر ڈالا۔ وقار نے کہا، چلو، بھیا، وہ نہیں آئے گی، خواہ مخواہ تماشا بن جانا ہے، یہ نہ ہو، کہ ہماری انکواری لگ جائے اور لینے کے دینے پڑ جائیں۔ میں نے کہا، تم چلو، میں آتا ہوں، میں کمرے کے سامنے وسیع دلان میں موجود نیم کے پیڑ کے نیچے جا کر کھڑا ہوگیا۔
دس منٹ تک وہیں کھڑا کمرے کی الماری سے اُسے گھورتا رہا، وہ مجھےکن اکھیوں سے دیکھتی رہی۔ پھر وہ اُٹھی اور واش روم کی طرف چل دی، میں بھی آہستہ آہستہ واش روم کی طرف بڑھا، دروازے کے ساتھ لگ کر وہ کھڑی ہوگئی، میں نے وقار کو اشارہ کیا کہ دھیان رکھنا، کوئی دیکھ نہ لے، میں ابھی آیا، شریف آدمی ہماری نگرانی پر مامور ہوگیا۔
میں ڈرتا شرماتا لجاتا اُس کے پاس گیا، نام تو معلوم نہیں تھا، فقط چہرہ ہی شناخت کا بنیادی حوالہ تھا۔ میں نے سلام کہا اور اُس نے جواب دیا، کیسے ہیں آپ، میں ٹھیک، آپ کیسے ہیں، میں بھی ٹھیک، کیا کہنا ہے، کچھ نہیں، ٹھیک ہے، میں چلتی ہوں، نہیں، رُکو، بولو، کیا تمہاری واقعی منگنی ہوگئی ہے، جی، سچی میں، جی سچی میں، کوئی آپشن، نہیں، کوئی راہ، نہیں، پھر میں کیا کروں، جو من چاہتا ہے کرو، تم منگنی توڑ سکتی ہو، نہیں، کیوں، میں لڑکی ہوں، پھر کیا ہوا، تم مرد ہو تمہیں نہیں معلوم لڑکی ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ پھر میں کیا کروں، تم اچھے لڑکے ہو، مجھے پسند بھی ہو، لیکن اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ میں چلتی ہوں، ٹھہرو، وہ مجھے سنے بغیر سیدھا کمرے میں چلی گئی، میں افسردہ واپس فیلوز کے کمرے میں چلا آیا۔
جذبات کی سان پر چڑھے بغیر کسوٹی کی پرکشا، پر پورا، اُترنے کی صلاحیت رکھنے والا کومل رشتہ ہمیشہ کے لیے یادوں کے نگر، کا، معمہ بن کر رہ گیا۔ ٹریننگ ختم ہوگئی، آخری دن انعامات کی تقسیم کے دوران ڈی ڈی سی صاحب نے کمال کر دیا۔ مجھے سوالات کرنے کی مد میں سرٹیفیکیٹ دیا گیا جبکہ محترمہ کو بہترین سامع کی بنیاد پر سرٹیفیکیٹ دیا گیا۔ ہم دونو ں کو ڈپٹی کمشز کے ساتھ گروپ فوٹو بنوانے کا موقع بھی ملا، افسوس یہ فوٹو ہمیں کبھی مل نہ سکا۔
ٹریننگ کے اختتام کے بعد ہم نے ڈسکہ کالج جوائن کر لیا، چھے ماہ بعد گھر والوں نے میرے لیے رشتہ دیکھ لیا، دسمبر میں نکاح ہوگیا، فروری میں ویڈ لاک پالیسی کے تحت ٹرانسفر ہو کر لاہور آگیا، وقار اور شہزاد دو سال بعد ٹرانسفر ہو کر قصور چلے آئے، حافظ ارشد پھول نگر چلا گیا، باقی دوست وہی کہیں گم ہو گئے۔ چھے برس بعد آج وقار نے ایک تصویر بھیجی جو ہیڈ مرالہ میں کسی دوست نے پانی کے بہاؤ میں ڈوبکیاں لگاتے بنائی تھیں جس میں کنارے کھڑے ہم پانچوں پانی میں پاؤں ڈالے بیٹھے ہیں۔
اس تصویر کو دیکھ کر بھولی بسری یادوں کا صندوق ہمارے سامنے ورق ورق بکھر گیا۔ اس تصویر میں ہم پانچوں آج بھی ساتھ ساتھ ہیں لیکن حقیقی زندگی میں کوئی کہیں ہے اور کوئی کہیں ہے۔ وہ محترمہ جس کے لیے ہم نے دو ہفتے کی ٹریننگ سیشن میں ہر قسم کی اوٹ پٹانگ حرکات کیں اور عجیب و غریب تماشے کیے، جانے وہ آج کہاں، کس حال میں ہوگی۔ دل بھی عجب گورکھ دھندہ ہے، اس میں جانے کیا کچھ پوٹلیوں میں محفوظ کہیں مقفل دھرا ہے۔
بے دھیانی میں بیتے لمحوں کی کوئی کواڑ کھل جائے تو رومانی یادوں کا نگار خانہ دل محلے میں عجب صورتیں لیے یوں جلوہ گر ہوتا ہے جیسے سب کچھ اسی ایک لمحے کی قید میں مدغم ہوگیا ہو۔ فقط ایک تصویر کے منظر سے بیتے لمحوں کے کھٹے میٹھے احوال کی خوبصورت روداد تصور کی وادیوں میں خوشبو بکھیرتی دل کی دھرتی کو معطر کر ڈالتی ہے جس پر کبھی وصل کی رُت کا شائبہ تک نہ گزرا ہو۔ انسان بھی کیا چیز ہے، جہان بھر میں پھیلی ہوئی محبت کی خوشبو کو اپنے دامن میں مقید کرنے کی خواہش کرتا ہے لیکن اس کے حصے میں فقط بوند بوند مہک کی آہٹ ہی آتی ہے جس کی آواز سننے سے پیشتر سماعت گنگ ہو جاتی ہے۔
ٹین ایج کے رومانی جذبے اپنے اندر لافانی احساسات رکھتے ہیں، محبت کا جذبہ کسی مخصوص لمحے میں جز وقتی مقید تو ہوسکتا ہے لیکن مستقل اسیری کے دعوے سے ماورا ہوتا ہے۔ کتنے ہی چہرے ہیں جو قلب و روح میں پیوست ہو گئے ہیں، کتنی شوخ نگاہیں جو تصور میں ہنوز پنپ رہی ہیں، کتنے قدِ آدم خواب ہیں جنھیں تعبیر سے محروم کیا گیا ہے۔ انسان ادھورا ہے، ادھورا ہی رہے گا، اس کی خواہشیں بھی ناتمامی کے رنج میں سر پھوڑتی رہیں گی۔
تکمیلِ ذات کا باب کبھی اتمام کو نہیں چھو سکے گا۔ ایک تشنگی، ایک کسک، ایک بے قراری، ایک بے چینی ہمیشہ قلب انساں کو مضطرب رکھتی ہے، اسے رہ رہ کر یہی اندیشہ کھائے جاتا ہے کہ کوئی ہے جو چھوٹ رہا ہے کوئی ہے جو دو ر ہو رہا ہے کوئی ہے جو میرا ہو کر بھی میرا نہیں ہو سکتا۔ دو ر جانے والے کو ہم روک نہیں سکتے اور قریب آنے والے کو قربت سے سرفراز نہیں کر سکتے۔ وصل و بعد اور یاس و ہراس کا عجب تضاد قلبِ انساں کے حواس کو مختل کیے ہوئے ہے۔
یاس و نراس اور ہجر و وصال کے یہ واہمے خود ایک سراب ہیں، جن کے حصول کا متمنی بھی سراب بن کر رہ جاتا ہے۔ دُنیا ایک معمہ ہے جس کے دلنشیں پیکر کا طلسمی عکس کمال فنکاری سے جذبوں کو بہکائے جاتا ہے اور انسان بے چارہ جذبوں کا مارا بہکتا چلا جاتا ہے۔ کہانیاں سنتے سنتے انسان خود ایک کہانی بن کر رہ گیا ہے۔
کتنی کہانیاں ہیں جو سنائی نہیں گئیں، کتنے خواب ہیں جو دیکھے نہیں گئے، کتنی خواہشیں ہیں جو پوری نہیں ہوئیں، اس کے باجود خواب دیکھنا اچھا لگتا ہے، کہانیاں سننا اچھا لگتا ہے اور خواہشوں کو سینت سینت کر رکھنا بے قرار دل کی قراری کا علاج ہے۔