Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mohsin Khalid Mohsin/
  4. Aik Ranjida Muhib e Watan Ki Rudaad

Aik Ranjida Muhib e Watan Ki Rudaad

ایک رنجیدہ مُحبِ وطن کی رُوداد

میرے بیٹے نے بی اے کر لیا ہے، آپ بتائیں، یہ کیا کرے؟ میں کیا بتاؤں۔ آپ کا بیٹا جس فیلڈ میں جانا چاہتا ہے جا سکتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں یہ بڑا افسر بنے، خوب پیسہ اور شہرت کمائے، یہ بات ہے تو اِسے سی ایس ایس کروا دیں، اگر یہ کر گیا تو پیسہ اور شہرت کے ساتھ اور بہت کچھ مل جائے گا جو آپ نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔

میرا بیٹا ایف اے کر چکا ہے، آگے کیا کرنا چاہیے۔ بی اے کروائیں، بی اے کے بعد کیا کرے گا، ایم اے کر لے، پھر، پھر کیا، اُستاد بن جائے گا یا کسی محکمہ میں کلرک ہو جائے گا، چار پیسے کمانے کے لائق ہو جائے گا تو گھر سنبھال لے گا۔ میرا بیٹا میٹرک سیکنڈ ڈویژن ہے، کیا ہوسکتا ہے، کچھ بھی نہیں ہوسکتا، یوں کرو، اسے کمپیوٹر کورس کروادو، کسی محکمہ میں بیس پچیس ہزار میں ملازم ہو جائے گا۔

پاکستانی والدین اپنے بچوں کے بارے میں مذکور قسم کے سوالات پر مبنی مشاورت کے لیے گاہے گاہے میرے پاس آتے رہتے ہیں۔ پاکستانی تعلیم کامعیار کیسا ہے اور کیا یہ تعلیم ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لیے آج کی گلوبل ولیج دُنیا میں کام آسکتی ہے یا نہیں، یہ وہ سوال ہے جو والدین کے ذہن میں کلبلاتا رہتا ہے تاہم وہ اس سوال کا جواب اپنی اُولاد کی کامیابی میں تلاشتے ہیں۔

بیسویں صدی کے اواخر میں پاکستانی والدین کو اپنے بچوں کو انجینئر بنانے کا بہت شوق تھا، اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ اس شوق کو ایسا زوال آیا کہ انجینئر بننے اور بنانے سے بچوں اور والدین نے توبہ کر لی۔ اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ پوری دُنیا کمپوٹر ٹیکنالوجی پر منتقل ہوگئی، دیکھتے ہی دیکھتے کمپیوٹر کے شعبہ نے 80 فیصد سے زائد شعبہ جات کو اپنی تحویل میں لے لیا۔

گذشتہ پندرہ برس سے پاکستانی والدین اپنے بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دلوا رہے ہیں۔ میٹرک سائنس کے بعد جو بچے کسی وجہ سے میڈیکل میں نہیں جاسکتے وہ کمپیوٹر فیلڈ میں آجاتے ہیں، یہ بچے آئی سی ایس کرتے ہیں، اس کے بعد بی ایس، بی ایس سی، بی ایس سی ایس کرتے ہیں، اس کے بعد ایم فل اور پی ایچ ڈی کر لیتے ہیں، فارغ التحصیل ہونے کے بعد ملازمت کے حصول کے لیے جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں، حسبِ خواہش ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے مجبوراً نجی اداروں میں کام کرتے ہیں، کسی کی قسمت اچھی ہوئی تو وہ بیرون ملک چلا جاتا ہے، بیشتر گلی محلے میں کمپیوٹر اکیڈمی کھول لیتےہیں۔

کمپیوٹر آئی ٹی سے متصل ہزاروں ذیلی شعبہ جات ہیں، آج کل ایک نیا ٹرینڈ آیا ہوا ہے، چیٹ جی پی ٹی، AI، آن لائن لرننگ ایپ، گرافکس، ارننگ ویب سائٹس وغیرہ جن کی تیزی سے مقبولیت ہو رہی ہے۔ ان کورسز سے متعلق یوٹیوب پر دن رات ہزاروں کی تعداد میں وڈیوز آپ لوڈ ہو رہی ہیں جنھیں بے روزگار نوجوان مسلسل دیکھ رہے ہیں اور بس دیکھ رہے ہیں جبکہ عملی طور پرکچھ کر نہیں رہے۔

یوٹیوبرز کے پاس ڈالرز کمانے کے لیے چورن بیچنے کا یہ ایک اچھا فریب ہے، ان کا کہناہے کہ ہماری آن لائن لرننگ ایپ اور ویب سائٹ پر آئیں اور کروڑوں روپے کمائیں، بس آپ کو یہ کرنا ہے اور وہ کرنا ہے اور ایسے کرنا ہے، اس طرح آپ راتوں رات کروڑ پتی بن جائیں گے، یوٹیوبرز کے ہاتھ میں پکڑ کرے ڈالر، پونڈ اور یورو کو دیکھ کر پاکستانی بچے بہک جاتے ہیں اوروالدین کے ہزاروں روپے جو مشکل سے جمع کیے ہوتے ہیں اُنھیں بھی ضائع کر دیتے ہیں۔

امازون، شوپی فائی، ای بے اور اس طرح کی دسیوں ویب سائٹس ہیں جن پر دُنیا بھرمیں آن لائن خریدو فروخت ہوتی ہے، پاکستانی بچے کمال شوق سے ان ویب سائٹس پر پیڈ ایکسس لیتے ہیں، دو چار دن میں لُٹ کر پیسہ ضائع کرکے گالیاں بکتے ہیں کہ یہ سب بکواس ہے اور اس طرح پیسے کمانا کُھلا جھوٹ اور فراڈ ہے۔ 2018 سے پاکستانی سیاست میں بونوں اور کھلنڈروں نے ذاتی مفادات کی راہ ہموار کرنے کے لیے ملک کی سالمیت اور معاشی استحکام کو داؤ پر لگا رکھا ہے، روپے کی مسلسل گرتی قدر کی وجہ سے معاشی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ چکا ہے، جو چیز 2018 میں سو روپے کی ملتی تھی، آج وہ ہزار روپے کی مل رہی ہے، تعلیم دلوانا اور روزگار حاصل کرنا اس ملک میں ایک خواب بن چکا ہے۔

پاکستان کے دیہات میں 80 فیصد فارغ التحصیل لڑکے لڑکیوں کی تعداد وہ ہے جو شعبہ تعلیم میں روزگار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ 2018 کے بعد اب تک سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ایک سیٹ بھی حکومت نے مشہتر کرنے کا حوصلہ نہیں کیا، باقی اداروں کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے۔ عوام الناس سے لے کر حکومتی عہدوں پر براجمان صاحبانِ اقتدار سمیت جس سے بات کریں، یہی کہتا ہے کہ ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، ہمیں مشکل فیصلے کرنے ہیں، یہ بات ٹھیک ہے ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہے لیکن کوئی یہ تو بتائے کہ ملک کا یہ حال کیا کس نے ہے۔

اس ملک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ حالیہ الیکشن میں ووٹ کو جو عزت دی گئی ہے وہ پوری دُنیا دیکھ چکی، حکومتوں کے گرانے اور بنانے کے پیچھے جو طاقتیں کار فرما ہیں، اُن کی اصلیت اور اجارہ داری کُھل کر واضح ہو چکی۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی بے روزگار نوجوانوں کوئی کام بھی دینا ہے یا انھیں خودکُشی، ڈاکہ اور لوٹ مار پر اکساتے رہنا ہے۔ شہروں میں مقیم افراد کسی حد تک آسودہ حال ہیں، دیہات کی حالت تو بہت پتلی ہے۔ دیہات میں کھیت کھلیان سے معقول آمدنی آتی ہے جس سے پہلے گزاراہ ہو جاتا تھا مگر اب کھیتوں سے بھی کچھ نہیں آتا۔

الیکشن کی مہم میں دیہاتوں کی خوشحالی اور ترقی کے لیے کسی سیاسی جماعت کے منشور میں ایک سطر موجود نہیں تھی، دیہات تو جیسے اس ملک کا حصہ ہی نہیں ہیں، وزیر اعلی ٰسے لے کر وزیر اعظم تک سبھی شہر کے مسائل پر بات کرتے ہیں، دیہات کے مسائل اور وسائل پر کسی کے منہ سے جملہ ادا ہوتے نہیں سُنا۔ تعلیم سے دوری اور مسلسل بے روزگاری کی وجہ سے جہالت، لاعلمی، بے شعوری، شریکا بازی، کساد بازاری، لوٹ مار، لوٹ کھسوٹ سمیت سیکڑوں قباحتیں دیہاتی وسیب کا حصہ بن چکی ہیں جس کی نشاندہی اور قلع قمع کے لیے کہیں سے کوئی آواز نہیں اُٹھ رہی۔ نام نہاد چودھری، سیٹھ، نمبردار اور زمیندار دن رات غریب اور مفلوک الحال دیہاتیوں کا خون پتے ہیں اور سر عام جان، مال، عزت و عصمت پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت کسی کی جرات نہیں کہ ان کا ہاتھ پکڑ سکے اور انھیں روک سکے۔ پاکستانی معاشرہ اخلاقی، سماجی اور تہذیبی حوالے سے اس قدر تنزل کا شکار ہے کہ شرم اور احساسِ حمیت و غیرت کا جذبہ ناپید ہوگیا ہے۔ نفسانفسی اور مارا ماری کا عالم ہے جس کے ہاتھ جو لگتا ہے، اپنا حق اور جاگیر سمجھ کر ہتھیا لیتا ہے، رشوت لینا مجبوری سے زیادہ سوٹ ایبل پروفیشن بن چکا، بے ایمانی، بے حسی، بے مرورتی، بد لحاظی، بد اطواری اور بدتمیزی گویا آج کا پُرکشش رویہ بن چکا۔

سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو بُرا بُرا ور کتا کتا کہنے کو ایکٹنگ اور فن سمجھا جاتا ہے، شریف ہونا، احساس کرنا، ہمدردی جتانا، ایثار وقربانی کا جذبہ رکھنا اور مشکل وقت میں کسی کے کام آنا، بے کار اور اپنا نقصان سمجھا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ پاکستانی معاشرت کا جنازہ نکل چکا ہے، ہر شعبہ حیات روز بروز زوال کا شکار ہو رہا ہے اور بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ملک و معاشرت کی اس بربادی میں سب خوش ہیں اور بغلیں بجاتے پھر رہے ہیں۔

کوئی ہے جو اس تباہی اور بربادی کو روک سکے، سیاست دانوں، حکمرانوں، صاحبِ اقتدار حلقوں سے تو کوئی توقع نہیں البتہ بادشاہ اعلیٰ سے امید ہے، جو طوفان کی زَد میں ڈوبتی ہوئی ناؤ کو پار لگا سکتا ہے۔

Check Also

Bhook, Khauf Aur Sabr

By Javed Ayaz Khan