Academy Culture Mein Phanse Bachon Ki Zehni Haalat
اکیڈمی کلچر میں پھنسے بچوں کی ذہنی حالت
سر، آج دل نہیں کر رہا، آج ہم نہیں پڑھیں گے۔ آپ کو پڑھنا ہوگا، نہیں سر، پلیز، بات مان لیں، آپ لوگوں نے کل بھی نہیں پڑھا تھا، سر، اصل میں دل نہیں کرتا پڑھنے کو، صبح تین بجے کے اُٹھے ہوئے ہیں، رات نو بجے گھر پہنچیں گے، کھانا کھا کر پھر پڑھنا ہے، ہر وقت پڑھو، پڑھو، پڑھو، زندگی عذاب بن گئی ہے۔ ٹھیک ہے، آج نہیں پڑھتے، آپ بتائیں، اب کیا کریں، اگر پڑھنا نہیں ہے، سر، کوئی کہانی سُنا دیں یا آپ کرسی پر بیٹھ جائیں، ہم کھیلیں گے، چلو، پانی والی مچھلی کھیلتے ہیں، نہیں یہ والی گیم کھیلتے ہیں، نہیں یہ والی۔۔ لیکچر ختم ہوگیا۔
یہ کہانی روزمرہ کا معمول ہے۔ پاکستان، پنجاب، لاہور میں اکیڈمی اور ہوم ٹیوشن کلچر نے بچوں کی تخلیقی لیاقت کو چاٹ لیا ہے۔ پاکستانی والدین بچوں کی تعلیم اور مستقبل کو لے کر نیم پاگل ہو گئے ہیں۔ ان کے پاگل پن کی وجہ صرف اور صرف اچھے نمبر(اٹھانوے فیصد) ایک سخت گیر معیار بن گیا ہے۔ ہر والدین یہ چاہتا ہے کہ اس کا بچہ پوزیشن لے اور بورڈ میں ٹاپ کر ے اور مال بٹورنے والے محکمہ میں اس کی ملازمت حصول ہوجائے۔ یہ اور اس طرح کی سیکڑوں قباحت نما خواہشیں والدین کے ذہن میں ناسور بن کر بچوں کے معصوم بچپن، لڑکپن، جوانی اور اعلیٰ انسانی صفات کو کچل رہی ہیں۔
لاہور جیسے شہر میں ہر مربع انچ پر ایک اکیڈمی موجود ہے، لاہور میں کم و بیش پچاس کے قریب ایوننگ کوچنگ سنٹرز یعنی اکیڈمیز کے برانڈ موجود ہیں جن کی سیکڑوں شاخیں پورے شہر پھیلی ہوئی ہیں۔ لاہور سمیت پورے پنجاب میں سکول، کالج کے بعد بچے کو ہر حالت میں شام کو ان کوچنگ سنٹرز میں پڑھنا ہی ہے خواہ بچہ ذہین ترین ہے یا کُند ذہن۔ کیا یہ کوچنگ سنٹرز بچوں کی تعلیمی کمی کو پورا کر رہے ہیں یا سِرے سے ان کی تباہی کے درپئے ہیں۔
2000 سے پہلے یعنی اکیسویں صدی کے آغاز سے پہلے بھی بچے سکول، کالج میں پڑھتے تھے اور پوزیشن لیتے تھے۔ کیا ان بچوں کو سکول اور کالج میں صبح کے اوقات میں اتنا پڑھا دیا جاتا تھا کہ انھیں اکیڈمی اور ہوم ٹیویشن کی ضرورت نہ تھی۔ آج اکیڈمی اور ہوم ٹیویشن پڑھانا گویا ایک فیشن بن گیا ہے۔ یہ فیشن ہے یا ابنارملٹی یا کمپلیکس یا سوسائٹی کا پریشر، اس کی توجیہ اور توضیح بہت ضروری ہے۔
لاہور شہر میں دُنیا بھر کے نجی تعلیمی برانڈ موجود ہیں۔ بچہ پیدا ہونے سے پہلے والدین کے لیے پریشانی اور عذاب کا باعث بنا ہوتا ہے کہ اس کی سکولنگ کہاں سے ہوگی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک غیر مُسلم مسلمان ہونے کی حامی بھرتا ہے تو سُنی، شیعہ، وہابی کے چکر میں پڑجاتا ہے کہ میں کس مسلک والا مسلمان بنوں، بہت سے غیرمُسلم اس قباحت کو مول لینے کی بجائے واپس لوٹ جاتے ہیں کہ تفرقہ بازی کی اس مسلمانی سے غیر مُسلم رہنا بہتر ہے۔
لاہور شہر میں موجود سکولنگ کے تعلیمی برانڈ کم و بیش پچاس سے زائد ہیں جن میں بیکن ہاؤس، لکاس، سٹی سکول، ایل جی ایس، شعفات، پنجاب سکول سسٹم، ڈی پی ایس، لیپس، ایجوکیٹر، دار ارقم، یونیک، دی مسیج، کپس، صفہ سکول سسٹم، دی ٹرسٹ سکول سسٹم، الائیڈ سکول سسٹم، ایفا، ٹی سی ایف، روٹس، کنڈر گارٹن، ایچی سن، کریسنٹ، شاد باغ وغیرہ شامل ہیں، کالجز کے نجی برانڈ میں جی سی، ایف سی، پنجاب کالج، یونیک کالج، کنکورڈیا کالج، کپس کالج، نیشنل کالج، روٹس کالج، سپرئیر کالج، چناب کالج، راوی کالج اور دیگر برانڈ کی سیکڑوں شاخیں پنجاب بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔
کے جی یعنی کچی جماعت سے لے کر بارہویں جماعت تک بچہ ان سکولز اور کالجز میں تعلیم حاصل کرتا ہے۔ ان تعلیمی اداروں کے سلیبس، ماحول، طریقہ تدریس اور طریقہ امتحان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان کی ماہنامہ فیس پانچ ہزار سے لے کر دو لاکھ روپے ماہنامہ تک ہے۔ ہم نصابی سر گرمیوں کی مد میں لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں جبکہ مختلف فنکشن کی مد میں ہزاروں روپے بٹورے جاتے ہیں۔ لاہور کے ان معروف نجی برانڈ میں ایک بچے کی کے جی سے بارہویں جماعت تک تعلیم کی مد میں خرچ ہونے والی کل رقم بیس سے پچاس لاکھ روپے تک جاتی ہے۔
کے جی میں داخل ہونے والا بچہ تیرہ سال ایک سکول کا گاہک رہتا ہے جس سے اندازاً آٹھ سے سترہ لاکھ اور بیس لاکھ سے پچاس لاکھ روپے تک وصول کیے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان مہنگے اور بین الااقوامی معیار کی تعلیم کا دعویٰ کرنے والے تعلیمی اداروں میں صبح کے اوقات میں کیا کمی رہ جاتی ہے کہ بچے کو سہ پہر اور شام کے بعد بھی اضافی ہوم ٹیویشن اور اکیڈمی کے لیے بھیجنا پڑتا ہے۔ یہ اضافی مالی بوجھ والدین کی رہی سہی جمع پونچی بھی لے جاتا ہے اور والدین قرض لے کر بچوں کے تنو ر بھرتے ہیں، ستم یہ کہ نتیجہ پھر بھی حسبِ خواہش نہیں ملتا۔
پاکستان میں تعلیم ایک کاروبار بن چکا ہےاور اس کاروبار میں پاکستان کے نمائندہ سیاست دان، وڈیرے، حاکم، حاذق اور انتظامی عہدوں پر فائض افراد کی انویسٹمنٹ شامل ہے جنھوں نے اس مقدس پیشے کو ہر لحاظ سے پرافٹ کا کاروبار سمجھ کر اس کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ پاکستان میں ہر سال میڑک کا امتحان پاس کرنے والے بچوں کی اوسطاً تعداد پانچ سے آٹھ لاکھ ہوتی ہے۔ ان میں پاس ہونے والے بچوں کی شرح چالیس سے پنتالیس فیصد ہے۔ میٹرک پاس کرنے والی لاکھوں کی یہ تعداد ایم۔ اے کی سطح تک مشکل سے پانچ فیصد پہنچتی ہے جن میں ایک فیصد بچوں کو ملازمت ملتی ہے، باقی خس و خاشاک کی طرح یہاں وہاں بکھر جاتے ہیں۔
پاکستان کی شرخ خواندگی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 60 فیصد سے زائد بتائی جاتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اصل شرح خواندگی 15 فیصد سے بھی کم ہے۔ ایک بچہ جس نے اس دُنیا میں قدم رکھا ہے، اُس کے سکول کی فکر ماں کا دودھ سُوکھا دیتی ہے اور باپ کی کمر میں خم ڈال دیتی ہے۔ باپ یہی سوچ کر ہلکان ہوا جاتا ہے کہ یہ پیدا تو ہوگیا ہے اس کے پیمپر پورے کروں، دودھ پورا کروں، سکول کی فیس ادا کروں، کرایہ دوں یا خود کو بیچ دوں۔
پاکستان کی سرکار، تعلیم کے معاملے میں اس قدر بے مرورت اور بے حِس واقع ہوئی ہے کہ تعلیم کی وزارت لینے والا سیاست دان ماتم کرتا ہے کہ مجھے تعلیم کی وزارت دے کر میری بے عزتی کی گئی ہے۔ تعلیم کے وزیر، مشیرکے پاس لوگ افسوس کرنے کے لیے آتے ہیں کہ آپ سے زیادتی ہوگئی ہے کہ آپ کو تعلیم کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ پاکستان میں تعلیم کی صورتحال اور اس کی بہتری کی کیفیت کس انداز و نوع کی ہے۔
بات بچوں کی ہوم ٹیویشن اور اکیڈمی سے شروع ہوئی تھی۔ مذکورہ احساسات بچوں کی ذہنی سطح، تعلیم کے معیار اور پاکستان میں تعلیم کی موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر تمہید اً بیان کیے ہیں۔ مذکورہ صورتحال کی ارزانی کا میں چشم دید گوا ہ ہوں۔ میں ذاتی طور پر اس تجربے سے بارہا گزرا ہوں اور یہ روزمرہ کا معمول ہے جس یہ میں نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے بچے سیکنڈ ٹائم کی کوچنگ سے کچھ بھی (لائقِ نظیر، حسبِ خواہش) نتایج حاصل نہیں کر رہے۔ بچے سکول اور کالج میں صبح کے اوقات میں ریگولر نہیں جاتے تاہم ایوننگ کوچنگ سنٹرز میں باقاعدہ آتے ہیں۔ ان بچوں کو اکیڈمی میں باقاعدہ پڑھایا جاتا ہے اور ہفتہ وار ٹیسٹ لیا جاتا ہے، کوچنگ سنٹر میں طوطے کی طرح ہر چیز رٹوائی جاتی ہے، اس کے باوجود ان کے پلّے کچھ نہیں پڑتا اور یہ اپنا سارا وقت جنسی گفتگو اور کھانے پینے کی چیزوں اور پہننے اوڑھنے کے برانڈ اور سوشل میڈیا پر ہونے والی حرکات و مباحث میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔
اکیڈمی کے مالک کا اکاونٹ سونے چاندی سے بھرتا جاتا ہے اور والدین کی سفید پوشی کا جنازہ نکلا جاتا ہے۔ عجیب تماشا ہے کہ ختم ہونے کی بجائے مزید سنگین صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ پڑھائی کا ایک خاص وقت اور طریقہ کار ہے۔ بچوں کو فطرت سے دور کر یں گے تو اس کے خلاف ردِعمل ضرور آئے گا۔ چوبیس گھنٹوں میں بیس گھنٹے آپ کا بچہ پڑھتا ہوا آپ کو دکھائی تو دے رہا ہے لیکن آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ یہ بچہ اصل میں کیا پڑھ اور سیکھ رہا ہے۔ سکول اور کالج میں اس کے دوست کیسے ہیں اور یہ وہاں کیا پڑھ سیکھ رہا ہے، اکیڈمی میں اس کے دوست کس ذہنیت کے ہیں اور یہ پانچ چھے گھنٹے کن اشغال میں صرف کرتا ہے۔
ذرا سوچیے، پڑھائی کے علاوہ بچے کو کھیل کود اور سیر و تفریح کے لیے آپ کتنا وقت دیتے ہیں۔ اس کے سونے اور جاگنے کا وقت کیا ہے۔ اس کے پاس سلیبس کے علاوہ کتابیں پڑھنے کا کتنا وقت اور اجازت موجود ہے۔ عام لوگوں سے ملنے اور معاشرے میں موجود افراد سے سلام دُعا اور خیریت و عافیت کے لیے اس کی تربیت آپ نے کس بیانیے پر کی ہے۔ شمالی علاقہ جات کی سیر، نانی، دادی اور چچا، خالو کے ہاں سال میں کتنی دفعہ آپ اسے لے کر گئے ہیں۔ گرمی سردی اور تہوار کی چھٹیوں میں اسے کیا کرنے او رنہ کرنے کی اجازت اور موقع دیا ہے۔
آپ نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ ہم نصابی سرگرمیوں میں آپ کے بچے کی شرکت کس نوعیت کی ہے۔ موبائل، ٹیلی ویژن، کھیل کود، ہنسی مذاق اور دیگر بیرونی اشغال میں اس کی دلچسپی کیسی ہے۔ بطور والدین آپ نے یہ سوچا ہے کہ آپ کا بچہ جو ڈاکٹر، انجینئر، کمپوٹر ماسٹر، کیمسٹ، سی ایس سی پی آفیسر وغیرہ بن رہا ہے، کیا یہ جسمانی اور ذہنی طور پر ایک صحت مند انسان بھی بن رہا ہے یا مزید ابنارملٹی کا شکار ہو کر مختلف قسم کے ذہنی و جسمانی عوارض کا شکار ہو رہا ہے۔ آپ بچے کو صبح تین بجے اُٹھا دیتے ہیں اور سارا دن گدھے کی ہانکتے ہوئے پڑھائی پڑھائی پڑھائی کا طعن آمیز درس دیتے رہتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ تیرہ چودہ سال کا یہ بچہ اور بچی جسمانی وذہنی طور پر مسلسل بدلاؤ کے جس عمل سے گزر رہا ہے، اس دور میں اسے آپ کی توجہ، پیار، شفقت اور ساتھ کی کتنی ضرورت ہے۔
آپ اپنے بچوں کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں اور یہ بچہ بھی دن رات آپ کے لیے محنت کررہا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے آپ دونوں ایک دوسرے کو دُھوکا دے رہے ہیں۔ تعلیم کا اصل مقصد انسانیت کی اعلیٰ معیار پر تعمیر ہے جو پاکستان میں گذشتہ تیس برس سے ہنوز کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اگر آپ کابچہ اٹھارہ، اٹھارہ گھنٹے پڑھ کر بھی اچھے نمبر نہیں لے رہا اور مطلوبہ نتائج نہیں دے رہا تو پھر آپ کو اپنا احتساب کرنا ہوگا کہ آپ معاشرے کے رجحانات کو ٹرینڈ بنا کر اپنے بچوں کی زندگی اور مستقبل سے تو نہیں کھیل رہے۔ بچوں کو گدھا مت سمجھیں، ان پر اتنا بوجھ نہ ڈالیں کہ یہ تعلیم سے بیزار ہو کر ہمیشہ کے لیے وہ راستہ اختیار کر لیں جس میں سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں۔
مختصر یہ کہ بچوں کو ہوم ٹیوشن، اکیڈمی اور کوچنگ کی ضرورت (انتہائی مجبوری و ضرورت کے علاوہ) نہیں ہے بلکہ انھیں آپ کے وقت کی اور شفقت کی ضرورت ہے۔ سکول اور کالج میں صبح کے اوقات میں بچوں کو اتنا پڑھا دیا جاتا ہے کہ اسے شام کو دو گھنٹے بیٹھ کر دُہرا کر اعادہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر کہیں کوئی کمی بیشی ہے تو اسے جزوقتی کسی ماہر استاد سے پورا کیا جاسکتا ہے لیکن یہ کیا ظلم ہے کہ بچہ گھر میں چار گھنٹے رہے اور تعلیمی اداروں میں بیس گھنٹے گزارے۔
دُنیا تیزی سے تبدیل ہورہی ہے، خدا کے لیے خود کو بدلیے، کسی پر بھروسہ کرنے کی بجائے خود اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت پر توجہ دیجیے۔ یقین کیجیے، تعلیم کے نام پر کاروبار کرنے والے آپ کے بچوں پانچ دس فیصد اضافی نمبروں کے علاوہ کچھ نہیں دے رہے۔ یہ ایک سراب ہے جسے آپ آبِ حیات اور زرِ کامل سمجھ کر اپنے فرض اور ذمہ داری سے غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔