Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Malik Asad Jootah
  4. Shajarkari Ki Ahmiyat Aur Zaroorat

Shajarkari Ki Ahmiyat Aur Zaroorat

شجرکاری کی اہمیت اور ضرورت

شجر کاری کرو، اپنے ماحول کو بچاؤ

درختوں کی چھاوں میں راحت پاؤ

شجر کاری مطلب درخت لگانا، درخت بونا، ماحول کو درست رکھنے اور خوب صورتی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یا یہ بھی کہ سکتے ہیں شجر کاری کے ذریعے ہم زمین کی حفاظت کرتے ہیں اور پھولوں کی خوشبو کا لطف اٹھاتے ہیں۔ یہ ہمیں صاف ہوا فراہم کرتے ہیں۔ طوفانوں کا زور کم کرتے ہیں۔ آبی کٹاؤ کو روکتے ہیں، آب و ہوا کے توازن کو برقرار رکھتے ہیں اور کسیجن فراہم کرتے ہیں۔

ایک درخت 36 ننھے بچوں کو آکسیجن فراہم کرتا ہے اور دو پورے خاندانوں کو 10 درخت ایک ٹن ائیرکنڈیشنر جتنی ٹھنڈک مہیا کرتے ہیں۔ یہ درجہ حرارت کو بھی عتدال و توازن بخشتے ہیں۔ درخت انسانی زندگی میں مختلف پہلوؤں سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ بھوک کے مارے ہوؤں کے لیے ممتا کا کردار ادا کرتے ہیں، کبھی تو یہ دوست بن جاتے ہیں، تو کبھی دست گیری کے امین۔ بقول مجید امجدؔ:

آہ ان گردن فرازانِ جہاں کی زندگی

اک جھکی ٹہنی کا منصب بھی جنھیں حاصل نہیں

شجر کاری ایک بہت ہی اہم موضوع ہے۔ یہ زمینی حفاظت اور ماحولیاتی تبدیلی کے لئے بہت اہم ہے۔ شجرکاری سے ہمیں صحتمند ہوا ملتی ہے اور ماحول کو صاف رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ، شجر کاری زمینی تصفیہ کرتی ہے اور اس کے ذریعے ہم اپنے ماحول میں تجدیدیت لاتے ہیں۔ درختوں کو لگانا ہمارے لئے بہت سارے فوائد رکھتا ہے۔ درختیں ہمیں تازگی اور خوشبو دیتی ہیں، ان کی سایہ ہمیں سریندہ کرتا ہے اور ان کے جذباتی اثرات ہماری زندگی کو پرسکون بناتے ہیں۔ علاوہ ازیں، درختوں کی شجر کاری سے ہم زمین کی حفاظت بھی کرتے ہیں، کیونکہ درختیں کربن دائوکسائڈ کو ختم کرتی ہیں اور پاک ماحول کی تشکیل میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ اس لئے شجر کاری کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا!

موجودہ سائنس شجر کاری کی جس اہمیت و افادیت کی تحقیق کر رہی ہے، قرآن و احادیث نے چودہ سو سال قبل ہی آگاہ کردیا تھا۔ قرآن کریم میں مختلف حوالے سے شجر (درخت) کا ذکر آیا ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت قرار دیتے ہوئے اس کا ذکر اس طرح کیا:

"وہی ہے جس نے تمہارے لیے آسمان کی جانب سے پانی اتارا، اس میں سے (کچھ) پینے کا ہے اور اسی میں سے (کچھ) شجر کاری کا ہے (جس سے نباتات، سبزے اور چراگاہیں شاداب ہوتی ہیں) جن میں تم (اپنے مویشی) چراتے ہو۔ اُسی پانی سے تمہارے لیے کھیت اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل (اور میوے) اگاتا ہے، بے شک اِس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لیے نشانی ہے"۔ (النحل: 10-11)

ان آیات میں درختوں کو چوپایوں کی غذا اور انسانوں کی ضرورت بتایا ہے۔ ایک جگہ درختوں اور پودوں کے فوائد اس طرح بیان کیے گئے ہیں:

"اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں (خیال) ڈال دیا کہ تو بعض پہاڑوں میں اپنے گھر بنا اور بعض درختوں میں اور بعض چھپروں میں (بھی) جنہیں لوگ (چھت کی طرح) اونچا بناتے ہیں"۔ (النحل: 68)

اللہ نے درخت کا ذکر آگ کے حوالے سے کیا ہے: "وہی ہے جس نے تمھارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کردی جس سے تم یکایک آگ سلگاتے ہو"۔ (یٰسین: 80)

ایک جگہ شجرِ مبارکہ کے طور پر ذکر کیا گیا: "وہ چراغ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہو جو درخت نہ مشرقی ہے نہ مغربی"۔ (النور: 24)

ایک جگہ تمام مظاہرِ قدرت کو آرایشِ کائنات قرار دیا گیا ہے: "روئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اسے زمین کی رونق کا باعث بنایا ہے کہ ہم انھیں آزمالیں کہ ان میں سے کون نیک اعمال والا ہے"۔ (الکھف: 7)

اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نسل اور کھیتی باڑی کو تباہ کرنے والوں کی مذمت کی ہے۔

"جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اور کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ فساد کرنا ناپسند کرتا ہے"۔ (البقرة: 205)

اس کے علاوہ قرآن کریم میں شجر کا اور حوالوں سے ذکر بھی کیا گیا ہے۔

احادیثِ نبویہ ﷺ میں شجرکاری کے حوالے سے صریح ہدایات ملتی ہیں۔ ایک روایت میں شجر کاری کو صدقہ قرار دیتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا: "جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی کرے اور اس میں پرندے، انسان اور جانور کھالیں تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے"۔ (بخاری)

"جو مسلمان پودا لگاتا ہے اور اس سے انسان، چوپائے یا پرندے کھالیں تو یہ اس کے لیے قیامت تک کے لیے صدقہ ہے"۔ (مسلم)

اس کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے کہ جس میں آپ ﷺ نے فرمایا قیامت قائم ہو رہی ہو اور کسی کو شجر کاری کا موقع ملے تو وہ موقعے کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔

نبی کریم ﷺ نے حالتِ جنگ میں بھی قطع شجر کو ممنوع قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ لشکر کی روانگی کے وقت دیگر ہدایات کے ساتھ ایک ہدایت یہ بھی فرماتے تھے کہ: "کھیتی کو نہ جلانا اور کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا"۔

یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دورِ اقتدار میں باغبانی اور شجر کاری میں گہری دل چسپی دکھائی ہے، اسے علوم و فنون کی شکل دی اور دنیا میں فروغ دیا۔

ہم تو محروم ہیں سایوں کی رفاقت سے مگر

آنے والے کے لیے پیڑ لگا دیتے ہیں

ہمارے آنے والی نسل کے لیے یہ بہت اہم عمل ہے کیوں کہ سانس ہے تو زندگی ہے۔

ہمیں اپنی نسل کے لئے یہ عمل ضرور کرنا ہوگا

اسی نیک جذبے کو جاری رکھتے ہوئے کل یونیورسٹی آف لیہ میں ایک ایسی ہی تقریب کل یونیورسٹی آف لیہ میں منعقد کی گئ۔ جس میں یونیورسٹی کے طلباء و طالبات، ممبران سول سوسائٹی، اصلاحی تنظیموں کے مختلف ممبران، مختلف شعبہ ہائے جات سے تعلق رکھنے والی مقتدر شخصیات اور معزز اساتذہ کرام نے شرکت کی۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ ادارے یا سول سوسائٹی کی طرف سے کسی بھی معاشرے کا شعور اجاگر کرنے کے لیے تقریبات بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

تقریب کا موضوع شجرکاری ہی تھا۔

یونیورسٹی آف لیہ میں (وزٹنگ لیکچرر) مشہود علی خان کی کاوشوں کے سبب ایک روزہ شجر کاری مہم کا انعقاد کیا گیا جس میں سیکنڈ سیمسٹر سیکشن بی کے طلبا، طالبات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس شجر کاری مہم میں پرنسپل کالج آف ایگریکلچر ڈاکٹر امبرین شہزاد صاحبہ، یونیورسٹی رجسٹرار ڈاکٹر علی رضا صاحب، ڈاکٹر اظہر عباس صاحب، ڈاکٹر طاہرہ صاحبہ، ڈاکٹر رشید دستی صاحب، زاہد نواز صاحب اور ڈاکٹر عثمان صاحب نے شرکت کی اور اپنے ہاتھوں سے پودا لگایا۔

تمام فیکلٹی سٹاف نے مشہود علی خان صاحب اور سیکشن بی کے طلبا، طالبات کی اس کارکردگی کو سراہا اور مستقبل میں بھی اس طرح کی ماحول دوست سرگرمیوں کے انعقاد کا عزم کیا۔

شجر کاری کے متعلق معلومات

شجر کاری کے لئے بہترین وقت 15 فروری سے 15 مارچ ہے۔ پودے لگانے کے لئے گڑھا بنانے کا طریقہ۔ پودے لگانے کے لئے زمین میں گڑھوں کم از کم 2 ہفتے قبل تیار کیا جانا چاہیے۔ اس سے زمین اور اس میں شامل کیے گئے مواد کو آپس میں ملنے کے لیے وقت مل جاتا ہے۔ پودے کی موجودہ جڑوں سے کم از کم دو گنا گہرا اور دو گنا چوڑا گڑھا کھودیں اور یہاں موجود کوئی بھی پتھر اور غیر ضروری پودے ہٹا دیں۔

نکالی گئی مٹی میں قدرتی نامیاتی کھاد (ڈیران) ملائیں، آدھا آدھا مکسچر بہترین ہوگا۔ اگر گڑھے کی تہہ میں چربی اور مرغی کی ہڈیاں ڈال دیں تو اس سے پودے کو آہستہ آہستہ معدنیات ملتی رہتی ہیں اور اسے مضبوط شروعات ملتی ہے۔

گڑھے میں مناسب مقدار میں پانی ڈال کر جذب ہونے دیں۔ پھر پودے کی جڑیں آہستگی سے پھیلا کر اس میں لگائیں۔ پودے کو اتنی ہی گہرائی میں لگانا چاہیے جتنا کہ وہ اپنے گملے یا شاپر میں لگا ہوا تھا نہ اس سے اوپر، نہ اس سے نیچے، بلکہ بالکل برابر۔

نازک جڑوں کے اردگرد اتنی مٹی بھر دیں کہ گڑھا بھر جائے۔ مزید پانی ڈالیں اور اسے جذب ہونے دیں۔ جڑوں کے اردگرد مٹی کو دبانے یا تھپتھپانے کی ضرورت نہیں ہے، ایسا کرنے سے پودے کی جڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اگر پودے کو سہارے کی ضرورت ہے تو سہارا گڑھے کے اندر پودا لگانے سے پہلے ہی موجود ہونا چاہیے۔ بعد میں سہارا لگانے سے پودے کی جڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

Check Also

Bushra Bibi Hum Tumhare Sath Hain

By Gul Bakhshalvi