Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mahmood Fiaz
  4. Shadi Se Pehle Ya Baad

Shadi Se Pehle Ya Baad

شادی سے پہلے یا بعد

یورپ کے لوگ شادی سے پہلے ہی سب کچھ کر لیتے ہیں تو شادی کے بعد انکے پاس کیا رہ جاتا ہے کرنے کو؟ حالانکہ میں انگلینڈ پڑھنے جانے سے پہلے بھی مغربی کلچر کو بذریعہ انٹرنیٹ خوب سمجھ چکا تھا، مگر آپ میں سے جو یہ سمجھتے ہیں نا کہ وہاں جا کر رہنے سے ہی انسان کو اصلی سمجھ آتی ہے۔۔ انکی سمجھدانی کے لیے اپنے انگلینڈ میں رہنے کے واقعات لکھتا رہتا ہوں۔

ویسے بحث کرنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ دس سال سے یورپ، امریکہ رہ رہے ہیں مگر ایسا ویسا کچھ نہیں ہے۔ سب خوش ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ خوش تو سب لاہور میں بھی ہیں۔ اگر آپ ایک خاص ماحول میں رہیں اور لوگوں کے حالات سے بے خبر رہین، یا اللہ کی طرف سے آپ کو ذہن و دل ہی ایسے دیے گئے ہوں جو انسانوں کے اندر جھانکنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں، تو بھلے آپ کے اردگرد انسانیت کا ننگا ناچ ہوتا رہے۔ آپ کو وہ ڈسکو بار ہی لگے گا نا۔

ہمارے یہاں ہیجڑا ناچتا ہے، اور بچے تالیاں بجاتے ہیں۔ عام گھریلو عورتیں یہی سمجھتی ہیں کہ ناچنے والا خوشی سے ناچ رہا ہے، انکے بچے کی خؤشی میں، یا شادی کی خؤشی میں۔ عام محلے کے مرد بھی ہیجڑے کی اداؤں، ناچ اور ٹھمکوں سے لطف اٹھاتے ہیں اور یہی جانتے ہیں کہ ہیجڑے ہوتے ہی ایسے ہیں۔ اپنے گرو کے پاس رہنے والے۔۔ ناچ گانے والے۔۔ کچھ وہ بھی جو سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں، یا سیکس کے لیے دستیاب ہوتے ہیں۔

کیا یہی ہیجڑے کی سچائی ہے؟ ایک جاننے والا یہ جان لیتا ہے کہ ہیجڑا ایک معاشرے میں اس لیے ناچ رہا ہے کہ اس کے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہے۔ وہ کوئی اور ملازمت تب کرتا جب اس کو اسکول کالج میں جانے دیا جاتا۔ یا پھر کوئی ہنر سیکھنے دیا جاتا۔ اس کو کام والی جگہ پر قبول کیا جاتا۔ یا اسکے ماں باپ معاشرے کے خوف سے رات کے اندھیرے میں کسی ہیجڑوں کے گرو کے حوالے نہ کر آئے ہوتے۔

میں سمجھتا ہوں، کسی معاشرے کے دکھ جاننے کے لیے بھی ہیجڑے کی اصلی کہانی جاننے جیسا دل و دماغ ہو تو وہاں کی اصلی شکل دکھائی دے جاتی ہے۔ ورنہ چاہے بیس سال رہیں، یا مرنے کے بعد اپنی دوسری نسل وہاں چھوڑ آئیں، آپ کو اس معاشرے کی اصل کی ہوا تک نہیں لگے گی۔

خیر بات لمبی ہوگئی موضوع کچھ اور تھا۔۔ پہلی لائن کو دوبارہ پڑھ لیجیے۔۔

تو اسی خیال کے تحت میں نے بھی وہاں اپنے کلاس فیلوز سے پوچھ لیا کہ کیا منطق ہے؟ شادی سے پہلے سب کچھ دیکھ لینے کی، کر لینے کی، جی لینے کی؟

یونیورسٹی کے ماحول میں میری پسندیدہ ترین بات یہ ہے کہ وہاں سوال کو برا نہیں سمجھا جاتا، اور جواب ہمیشہ کسی نہ کسی منطق کے تحت دیا جاتا ہے۔ یہ میں انگلینڈ کی یونیورسٹی کی بات کر رہا ہوں۔

تو ایک نے جواب دیا، دراصل انسان جب شادی کے لیے کسی کو چنتا ہے تو زیادہ تر اسکی بیرونی شخصیت سے متاثر ہو کر اس کو پسند کر لیتا ہے۔ ایک دوسرے کی جسمانی کشش کی وجہ سے انسان دوسرے کا اصلی روپ نہیں دیکھ پاتا۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ یہ کشش وغیرہ والا رولا درمیان سے نکالو۔ اس لیے ہم ساتھ رہتے ہیں اور جسمانی تعلق قائم کرتے ہیں تاکہ ذہن جب اس کشش کے اثر سے نکلے تو پھر ہم فیصلہ کر سکیں کہ اس کشش کے بغیر یا اس کے پہلے پہلے جوش کے بغیر بھی کیا ہم ایک دوسرے کو برداشت کر پاتے ہیں؟

جواب خاصا منطقی تھا۔ اور اگر اپ غور کریں تو ہمارے یہاں کی پسند کی ننانوے فیصد شادیوں پر پورا اترتا ہے۔ جس میں لڑکا لڑکی ایک دوسرے کے لیے اس لیے مر مٹ جانا پسند کرتے ہیں کہ معاشرے نے انکو سامنے مگر الگ الگ رکھ کر انکے درمیان اس شدت کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔

مگر کیا یہ حل جو مغرب نے تجویز کیا، واقعی شادی کے فیصلے کو مدد فراہم کرتا ہے اور لوگ بہتر پارٹنر کا انتخاب کرتے ہیں؟ اس پر آپ رائے دیجیے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو مشرق و مغرب کے کلچر کو دیکھ بھگت چکے ہیں۔

Check Also

Aaj Soop Nahi Peena?

By Syed Mehdi Bukhari