Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mahmood Fiaz
  4. Mangne Ki Nafsiyat, Bhikari Ya Baadshah

Mangne Ki Nafsiyat, Bhikari Ya Baadshah

مانگنے کی نفسیات، بھکاری یا بادشاہ

میں نے جب کمپیوٹر سائنس میں بیچلرز ڈگری کے لیے کالج جوائن کیا تو شائد کلاس کا سب سے غریب لڑکا ہونگا۔۔ کالج میں متمول گھرانوں کے لڑکوں سے دوستی ہوگئی۔۔ جن کا کام تھا کہ ہر بریک میں کسی ایک کی گاڑی میں بیٹھ کر قریبی ریسٹورنٹ چلے جانا اور من مرضی کے اسنیکس کھانا۔۔ آئس کریم، کافی، ڈرنکس وغیرہ۔۔

ان چار سالوں میں میں نے کیسے گزارا کیا، یہ اپنے ایک دوست کی زبانی بتاتا ہوں، جو کالج گریجوئشن کے بعد ایک روز ملنے گھر چلا آیا۔۔ یہ ان دوستوں میں سے ایک تھا جو انیس سو بانوے (ورلڈ کپ والا) میں گاڑی پر کالج آتے تھے (اب تو نو دولتیے بہت ہو گئے ہیں)۔۔ اس دوست نے جب میرا گھر دیکھا تو دوستوں والی بےتکلفی سے بولا، اوئے محمود تم نے کبھی بتایا ہی نہیں کہ تم اس قدر غریب ہو۔۔ میں نے شرمیلی ہنسی ہنسی۔۔ بس یار۔۔ یہی سب ہے جو تمہارے سامنے ہے۔۔

(دھیان کیجیے، میں نے شرمیلی ہنسی کہا شرمندگی والی نہیں۔۔ کیونکہ ان چار سالوں میں نہ کبھی اپنی حیثیت چھپانے کی کوشش کی اور نہ بڑھا کر بتانے کی۔ یعنی نہ امیروں جیسا دکھنے کی جھوٹی کوشش کی۔۔ اور نہ اپنی غربت کو اشتہار بنایا۔۔ بس دوستوں کے ساتھ دوستی ہی نبھائی۔)

دوست نے کہا، ۔۔ مگر ان تمام سالوں میں تم نے کبھی احساس نہیں ہونے دیا۔۔ کہ تمہاری جیب میں پیسے نہیں رہے۔ تم اپنے پیسے خود دیتے تھے۔۔ اگر کبھی ہماری ٹریٹ ہوتی تھی، تو کبھی تمہاری ٹریٹ ہوتی تھی۔۔ ہمیں لگا ہی نہیں کبھی کوئی فرق۔۔

دوستو، فرق تھا۔۔ بہت بڑا فرق تھا۔۔ انکے کپڑے جوتے ہر سیزن بدل۔ جاتے تھے۔ فیشن کے مطابق ہوتے تھے۔۔ میرے کپڑے جوتے صاف تو ہوتے تھے مگر پرانے تھے۔۔ جوتا اوپر سے پالش ہوتا تھا مگر اسکا تلا اتنا پتلا تھا کہ گرمی میں سڑک کی گرمی اور سردی میں کنکریٹ کی ٹھنڈک پاؤں تک آتی تھی۔۔

دوسرا فرق یہ تھا کہ جس روز میری جیب میں اپنے ڈرنک کافی کے پیسے نہیں ہوتے تھے، میں خاموشی سے کسی اسائنمنٹ کو پورا کرنے کے بہانے آئی ٹی لیب میں گھس جاتا تھا، ۔۔ اور وقت گزر جاتا تھا۔

جانے یہ ہماری جنریشن تک تھا یا اب نوجوانوں میں بھی کچھ ایسے ہی خوددار نوجوان ہونگے جو جیب میں اپنے پیسوں کے علاوہ کسی سے امید یا لالچ نہیں رکھتے۔۔ کیونکہ میں مسلسل مشاہدہ کرتا ہوں کہ سوشل میڈیا پر بھی اور عام میل جول میں بھی اکثر ایسے لوگ سامنے آتے ہیں جو دعوت دینے سے زیادہ دعوت کھانے کی خواہش کرتے نظر آتے ہیں۔۔ تحفہ دینے کی بجائے مانگنے کا رواج چل پڑا ہے شائد۔۔ کالج گوئنگ کی اکثر بات چیت میں دوسرے سے پارٹی چھیننے کی پلاننگ ہوتی ہے، ۔۔

اس سے زیادہ شرمندگی والا رویہ آنلائن سیلز کے اشتہار میں ہوتا ہے، جہاں لوگ ڈھٹائی سے مفت مانگنے کا کام کرتے ہیں۔ کتاب کے اشتہار یا ریویو پر کتاب مفت مانگنے والوں کی قطار لگ جاتی ہے۔۔ اور کوئی پوچھے تو اپنی تہی دستی، تنگ دامنی، غربت کا رونا رویا جاتا ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ بھکاری نفسیات ہماری اگلی جنریشنز میں بڑھتی جا رہی ہے، اور خود داری اور مہمانداری پرانے قصے ہوتے جا رہے ہیں۔ مادیت پرستی ہے یا کردار و تربیت کی کمی۔۔ جو بھی ہے، اس سے ایسی سماجی روایت بن رہی ہے جس میں مفت بری کوئی عیب نہیں ہے۔

دوسری جانب، اللہ کی نعمتوں کا کفران ہے جب آپ ٹھیک ٹھاک ہوتے ہوئے محض ایک پیزے، ایک برگر، ایک بریانی، یا ایک کتاب کی خاطر اپنی جیب خالی ہونے کا رونا روتے ہو۔۔ خدا شکر کرنے والوں کو نوازتا ہے اور ناشکری والوں کو ناپسند کرتا ہے۔ انکا رزق یقینا سکڑ جاتا ہے۔

میں نے اپنے دوست کو اپنے دادا جی کی نصیحت سنائی، جو وہ مجھے ہمیشہ کرتے تھے۔ کہ انسان اپنی جیب سے نہیں اپنے دل سے امیر ہوتا ہے۔ دل امیر ہو تو جیب میں چند روپے بھی پادشاہئی ہے، اور دل غریب ہے تو ایک وسیع سلطنت کا بادشاہ بھی غریب ہے۔۔

بس میں نے کالج کے ان سالوں میں دادا جی کی اس نصیحت پر عمل کیا اور کچھ نہیں۔۔ بادشاہ پیاسا بھی ہو تو وہ کتے کی مانند جوہڑ پر منہ نہیں جھکاتا۔۔

اللہ ہمیں بھکاری نفسیات سے بچائے اور ہمارے بچوں کو بادشاہوں جیسا جینا سکھائے۔

Check Also

Kash Mamlat Yahan Tak Na Pohanchte

By Nusrat Javed