Karobari Universityan Mustaqbil Ke Qatil
"کاروباری" یونیورسٹیاں، مستقبل کے قاتل
لاہور نہر کنارے خوبصورت کیمپس میں داخل ہوا تو گیٹ کے ساتھ ہی رجسٹریشن آفس میں ایک ریٹائرڈ پولیس انسپکٹر نے روک لیا۔ "پوچھ گچھ" شروع کردی۔ بتایا کہ غلطی سے پاکستان آ کر "استاد" بننے کا سودا سر میں سمایا ہے۔ اور اس یونیورسٹی کے "مالک" صاحب نے بلایا تھا تو حاضر ہوا ہوں۔ انتظار کرنے کا کہا گیا۔ پچیس تیس منٹ کا وہ انتظار میرے لیے چشم کشا تھا۔
رجسٹریشن آفس اصل میں ایک مورچہ تھا۔ کیونکہ کچھ طلبا گینگ یونیورسٹی پر دھاوا بول چکے تھے۔ پولیس انسپکٹر و دیگر عملہ اس پر گفتگو میں مشغول تھا کہ اگلی باری ایسے "بلوائیوں" سے کیسے نمٹنا ہے۔ مزید "کان دھرنے" پر پتہ چلا کہ اس یونیورسٹی کیمپس کے معاملات بھی مشکوک ہیں، کئی طلباء کے سال ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ وہ احتجاج کر رہے ہیں، اس لیے حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اس کیمپس میں ہر طالب علم کو مکمل اسکروٹنی کے بعد اندر بھیجا جا رہا تھا۔ دروازے پر گارڈز، اور اندر ہر جگہ نظر رکھنے والا عملہ موجود تھا۔ میرا انتظار ختم ہوا تو مالک سے مختصر انٹرویو ہوا۔ فیکٹریوں سے کامیابی حاصل کرنے والا بزنس مین میرے سامنے تھا۔ اور سننا چاہتا تھا کہ میں اس کے ادارے کے لیے کیسے "مفید" ثابت ہو سکتا ہوں۔ جس مشترکہ دوست نے یہ "انٹرویو" ارینج کروایا تھا، اس نے مجھے صلاح دی تھی کہ تم نے جا کر صاحب کو بس یہ کہنا ہے کہ آپ کے "ادارے کو اٹھا دینا ہے میں نے"۔ بوجوہ میں یہ جملہ نہ کہہ سکا۔ مجھے تو دشمن کے نہیں"اپنے بچوں کو پڑھانا تھا"۔
اس مختصر انٹرویو میں چند لڑکیاں اچانک کیمپس مالک کے کمرے میں داخل ہوئیں اور کچھ انتظامی شکایات کرنے لگیں۔ جس کے جواب میں کچھ تاویل کے بعد کمپنی کے صاحب بہادر نے ان طالبعلم لڑکیوں سے "ریکوئسٹ" کی کہ وہ اپنی فیس کے بقایا جات تو ادا کردیں۔ میری حیرانی یہ تھی کہ وہ طالبعلم بھی اپنے "استاد" کے ساتھ برابر بارگیننگ پر اتر آئی تھیں۔ اور اصرار کر رہی تھیں کہ پہلے آپ ہمارے یہ وہ کام تو کروا دیں، پیسے بھی مل جائیں گے۔ کسی تعلیمی ادارے میں پیسے، گاہک، وصولی اور سروسز کا یہ ناچ میری نظر میں خاصا مایوس کن تھا۔
گھر کے قریب ایک یونیورسٹی کیمپس کو نیا نیا چارٹر ملا تھا۔ اس کے مالک سے ملا تو حضرت خاصے پریشان تھے کہ "بزنس ڈویلوپمنٹ ایگزیکٹو" کی پوسٹ پر بہترین تنخواہ دیکر کر بھی "کاروبار" چل نہیں رہا۔
صحافت کی ایک کلاس پڑھا رہا تھا۔ بائیس میں سے بیس لڑکیوں نے جواب دیا کہ ہم تو بس بی اے کرنا چاہتے تھے، یونیورسٹی انتظامیہ نے ہمیں"زبردستی" صحافت میں داخل کر دیا ہے۔ انتظامیہ سے سوال کیا تو پتہ چلا کہ کلاسوں میں طالبعلموں کی تعداد برابر رکھنے کے لیے "ایسا کھلواڑ" معمولی بات ہے۔ ایجوکیشن کاؤنسلر طلباء سے زیادہ مالک کے "رجحانات" کی سیل کرتا ہے۔
اکثر دوست سوال کرتے ہیں کہ تم تو پاکستان میں یونیورسٹیوں میں پڑھانا چاہتے تھے۔ انکی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں ابھی تک پاکستان میں یونیورسٹیاں تلاش کر رہا ہوں۔ مجھے ہر جگہ کاروبار اور منافع کمانے والی فیکٹریاں ہی لگی دکھائی دیں۔
جن ملکوں میں استاد کی عزت ہوتی ہے، پروفیسر کی آمد پر جج کھڑا ہو جاتا ہے اور ٹریفک معطل کر دی جاتی ہے، ان ملکوں میں یونیورسٹیوں میں ریسرچ ہوتی ہے اور تعلیم دی جاتی ہے۔