Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mahmood Fiaz/
  4. Farsooda Riwayat

Farsooda Riwayat

فرسودہ روایات

جوان لڑکوں لڑکیوں کو بیس پچیس سال کی عمر میں جب فیس بک پر فرسودہ روایات کا رونا روتے دیکھتا ہوں تو بہت حیرت ہوتی ہے۔

کاش انکو سمجھایا جا سکتا کہ انہی فرسودہ روایات کی وجہ سے ماں باپ جوڑے میں ڈھلے، تمہیں پیدا کیا، اپنی خواہشات کو پیچھے رکھ کر تمہیں اچھے اسکولوں میں پڑھایا اور اب تمہاری ہڈحرامی کی وجہ سے کام نہ ملنے کو، یا مسلسل پڑھائی کے بہانے انکے گھر میں رہنے کا بل بھی ہر مہینے ہزاروں میں بھر رہے ہیں۔

انہی فرسودہ روایات کی وجہ سے تمہاری ماں"اپنا جسم اپنی مرضی" کرنے کی بجائے صبح سویرے تمہارے لیے پراٹھے بناتی ہے اور تمہیں۔ بستر پر لا کر دیتی ہے۔

انہی فرسودہ روایات میں سے کسی ایک روایت کے تحت تمہارا تھکتا ہوا باپ ہر روز خود کو گھسیٹ کر کام پر لے جاتا ہے، اور واپسی پر سودا سلف لاتے ہوئے اپنا حصہ کم رکھتا ہے کہ اسکا بیٹا/بیٹی جو پڑھ رہے ہیں، انکو زیادہ غذائیت ملے۔

انہی فرسودہ روایات کی وجہ سے تمہیں بیس سال سے انتیس سال کا ہونے کے باوجود ایک بھی بل نہیں دینا پڑتا، تم جیب خرچ ماں باپ سے لیتے ہو، تمہاری پڑھائی کا ایک ایک پیسہ انکی بوڑھی ہڈیوں سے نچڑتا ہے۔۔ اور نہ صرف پڑھائی، بلکہ پڑھائی کرنے پر تم آمادہ رہو، اور اپنا مستقبل سنوار سکو، اسکے لیے دیگر تفریحات، دوستوں کے ساتھ ٹرپس، سہیلیوں کی مدارات بھی تمہارے ماں باپ کی بوڑھی ہڈیوں پر ہوتیں ہیں۔

اور ابھی تم قابل بھی نہیں ہوتے کہ اپنا آپ سنبھال سکو، تو تمہیں ایک لڑکا یا لڑکی پسند آ جاتے ہیں اور تمہیں یکایک پورا معاشرہ اور اسکی روایات فرسودہ لگنے لگتی ہیں۔ کیونکہ انہی فرسودہ روایات میں سے ایک ماں باپ کی خواہشات کا احترام اور اجازت بھی ہے، جو زندگی کے اس اہم فیصلے میں درحقیقت تمہاری مدد کر سکتے ہیں۔۔ مگر اب تمہیں یہ بات اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ نظر آتی ہے اور تم اس معاشرے کے ہر رسم و رواج کو گالی دینے لگتے/لگتی ہو۔

جس وائی فائی کا بل ان فرسودہ روایات کی وجہ سے دیا جا رہا ہے تم اسی وائیفائی سے اپنا۔ موبائل، جو تمہارے ماں باپ نے تمہاری پرزور فرمائش پر تمہیں"گفٹ" کیا تھا، کنیکٹ کر کے کامنٹ کرتے ہو کہ تمہیں اس معاشرے کی فرسودہ روایات پر شرم آتی ہے۔

محض اس لیے کہ تمہیں تمہاری پسند کی لڑکی یا لڑکے سے ملنے نہیں دیا جا رہا تمہیں اس معاشرے کی روایات پر سوال اٹھانا آ گیا ہے جو تمہیں بالغ ہونے کے بعد بھی پال رہا ہے۔۔

تم جس معاشرے سے اپنی مرضی سے آزادانہ جنسی تعلق کا سبق سیکھ کر اپنی فینٹیسیز کو مہمیز دے رہے ہو، وہاں پندرہ سے اٹھارہ سال کی عمر کے بعد تمہیں اپنا بوجھ خود اٹھانا تھا، جبکہ تمہارے ماں باپ تمہیں گھر سے نکال کر اپنی ریٹائرمنٹ کی چھٹیوں میں سیکنڈ ہنی مون پر جا چکے ہوتے۔

آزاد جنسی تعلق کی ماڈرن روایت کے ساتھ وہ معاشرہ تمہاری ماں کو۔ بھی حق دیتا ہے کہ وہ تمہیں پیدا کرنے کے بعد اپنی چھاتیاں سوکھنے دیتی تاکہ اسکا فگر خراب نہ ہو۔۔ اور تمہارے باپ کو یہ حق بھی مل۔ جاتا ہے کہ چالیس کی عمر میں تمہاری ماں کو محض اس لیے چھوڑ دے کہ اسکے کولہے بھاری ہو گئے۔

اس معاشرے میں، جہاں تم اپنا نیٹ بل خود دیتے، اور کالج، یونیورسٹی مکمل کرتے ہوئے تم پر کم از کم ایک کروڑ روپے کا قرض چڑھ جاتا، اور تمہارا ایک کمرے کا اسٹوڈیو اپارٹمنٹ سستے کھانوں کے ڈبوں سے اٹا رہتا، تمہیں پورا حق تھا کہ تم اپنے سنگل بیڈ پر اوندھے لیٹ کر تمام فرسودہ روایات کو گالی دیتے۔۔ اور اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے۔۔

اس معاشرے میں، جہاں تمہاری ایک ایک سانس کا بل تمہارے ماں باپ محض اس لیے بھرتے ہیں کہ انکے ماں باپ نے یہ فرسودہ روایات کا پاسبان انکو بنایا تھا، ۔۔ تمہارا یہ احتجاج محض تمہارے اپنے وجود پر سوالیہ نشان ہے۔

Check Also

Google, Facebook Aur Eman Bil Ghaib

By Basharat Hamid