Aurat Ki Fitri Azadi
عورت کی فطری آزادی
شادی کے دوسرے سال جب سنجیدہ لڑائیاں شروع ہوتی ہیں، بیگم نے ایک روز بےبسی ظاہر کی، میں تو تمہیں چھوڑ کر کہیں جا بھی نہیں سکتی۔ اشارہ فنانشل سپورٹ کی طرف تھا جو ہمارے معاشرے میں عورت کو میکے سے کم ملتی ہے شوہر سے علیحدگی کی صورت میں۔ مجھے دھچکہ سا لگا، گویا ہمارا رشتہ اس بےبسی پر قائم ہوگا؟ گویا تم میرے ساتھ اس لیے برداشت کرو گی کہ تمہارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے؟
اسی روز بیگم سے وعدہ کیا کہ اب سے جب بھی پراپرٹی خریدی آدھی تمہارے نام سے خریدونگا تاکہ تم جب بھی مجھ سے جھگڑا کرو اور جانے کا سوچو تو یہ مجبوری تمہاری رکاوٹ نہ بنے۔ اس فیصلے کے بعد الحمدللہ ہماری سالانہ لڑائیاں سمسٹر سسٹم میں ڈھل گئیں، مگر بیگم نے جب بھی میرے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا اس میں فنانشل مجبوری شامل نہیں تھی۔ کاروبار اور جائیداد میں سب جگہ بیگم کا نام نہ بھی آ سکا تو میری یہ آفر آج بھی برقرار ہے کہ علیحدگی کی صورت میں جو بھی میری اوقات ہے اسکا آدھا بیگم کو مل جائیگا بغیر کسی سوال جواب کے۔
شادی کو اکیسواں سال ہے، کئی ورلڈ کپ ہوئے۔ بیگم کے پاس باقی ایک ہی آپشن تھا۔ میرے جیسے کڈھب بندے کو برداشت کر کے رہنا ہے تو اپنی مرضی سے قربانی اور محبت کے ساتھ رہنا ہوگا۔ مجھ سے ہمدردی اور ترس کھا کر بھی رہتی ہونگی، کہ اس بیچارے کو تو اس عمر میں روٹی پکانا بھی نہیں آتی۔ بچوں سے محبت بھی پاؤں کی زنجیر بنتی ہوگی۔ جو بھی وجہ ہو کم از کم مجھے یہ احساس نہیں ستاتا کہ میرے ساتھ گھر کی چھت اور بیڈروم کی دیواروں میں رہنے والا انسان اپنی خواہش سے نہیں بلکہ مجبوری میں میرے ساتھ رہ رہا ہے۔
ایسے میں میں خواتین سے جب یہ سنتا ہوں کہ فلاں کا شوہر اسکو پانچ سال سے طلاق کے لیے لٹکا رہا ہے، فلاں نے تین سال سے خلع کی درخواست دے رکھی ہے، شوہر تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے۔ تو شدید حیرانی ہوتی ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ انسان کی فطری آزادی اور اس کے حقوق کا جتنا خیال اس دین میں رکھا گیا ہے، یہ واحد دلیل ہی کافی ہے کہ ایسا دین صرف انسان کے خالق ہی سے نازل ہو سکتا تھا۔
اسی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے مرد و عورت کے ازدواجی رشتے کو انتہائی آسان رکھا گیا ہے۔ مرد اپنی فطری ضرورتوں کے مطابق ایک، دو، تین، چار عورتوں سے نکاح کر سکتے ہیں تو عورت اپنی فطری شرم و حیا میں رہ کر اپنا ساتھی چن بھی سکتی ہے اور پسند نہ آنے کی صورت بدل بھی سکتی ہے۔ مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جو عورتیں ساتھ نہ رہنا چاہیں انکو سہولت اور آسانی سے الگ کر دیں۔
اس رشتے کو جبر اور قید کا رشتہ کس نے بنایا؟
ایک عورت جو دن کی روشنی میں آپ کو ناپسند کرنے کا اعلان کر دے، آپکے جسم کی غیرت رات کو اسکو اپنے بستر پر کیسے قبول کر سکتی ہے؟
دین فطرت یا انسانیت یہ کیسے گوارا کر سکتی ہے کہ کسی آزاد انسان کی مرضی کو کسی دوسرے انسان کی مرضی کے تابع کر دیا جائے؟