Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mahmood Fiaz/
  4. Arbistan Partner Per Etimad Aur Shadi

Arbistan Partner Per Etimad Aur Shadi

عربستان پارٹنر پر اعتماد اور شادی

سعودیہ میں پہلی جاب کے دوران اپنی پہلی باقاعدہ گاڑی لینے کا اتفاق ہوا۔ پاکستان میں پک اپ وین پر اور پھر دمام میں ماموں نے اپنی ہائی ایس پر جو ڈرائیونگ سکھائی، اس سے گاڑی چلانے میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوا، مگر میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا شخص جگہ جگہ پاؤں سے خیالی بریکیں لگا رہا ہوتا۔ سعودیہ میں ریش ڈرائیونگ کا اس لیے بھی زیادہ پتہ نہیں چلتا کہ سعودی لمڈے اسی انداز میں گاڑیاں بھگائے پھرتے ہیں۔

ایسے میں میرے جیسا کوئی اناڑی ڈرائیور غلط سلط کٹ مار بھی دے تو اسکو سعودی سمجھ لیا جاتا ہے زیادہ سے زیادہ۔ آرامکو میں جاب کا پہلا سال تھا۔ میری پہلی کار ایک پرانی کرولا تھی ۸۸ ماڈل، جس میں ماموں نے کمال مہربانی سے ۹2 ماڈل انجن فٹ کروا دیا تھا، اور میں اسکو فیراری سمجھ کر اڑائے پھرتا تھا۔ اس گاڑی نے بہت دیر میرا ساتھ دیا پھر فور ویل چلانے کا شوق ہوا اور جیب میں کچھ ریال بھی اچھلنے لگے تو امریکن جیپ چیروکی کا ایک نسبتاً کم پرانا ماڈل خرید لیا۔

آسودگی، جوانی، اور فورویل گاڑی کے ساتھ عیاشی کی راہ میں ایک ہی چیز حائل تھی۔ اور وہ تھی میریڈ لائف، اس لیے اس فور ویل میں اپنی ہی بیوی کو بٹھائے سعودیہ کے ریگزاروں میں نکل جاتا۔ مجھے شہروں سے باہر نکلتی ویرانے کو مڑتی سڑکوں سے انسیت ہے۔ البتہ شہر کی ٹریفک میں اب بھی جیپ چلاتا تو کئی بریکیں چرچراتیں اور کئی سعودی و خارجی چیختے، انہی دنوں ایک کردار آرامکو جاب والی جگہ پر نمودار ہوا۔

نام تو بھول چکا، امریکا پلٹ ایک نیم دیسی نیم امریکی صاحب تھے۔ یعنی انکے ماں باپ امریکا گئے تھے اور یہ صاحب وہیں پلے بڑھے تھے۔ انتہا درجے کے وہمی کہ انکے وہموں کی کہانیاں جلد ہی انکو ہمارے پورے ڈیپارٹمنٹ میں مشہور کر گئیں۔ آپ کو اندازہ کروانے کے لیے مثال دیتا ہوں کہ وہ صاحب ہمیشہ ایک مخصوص کموڈ ہی میں پیشاب کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ یہ انکا لکی کموڈ ہے۔

اسی طرح صبح آفس آ کر اور دوپہر کو کھانے سے وقفے سے واپسی پر وہ آفس بلڈنگ کی ایک مخصوص دیوار کو ایک خاص جگہ چھو کر آتے تھے۔ بقول انکے ایسا کرنے سے وہ کئی بلاؤں سے محفوظ رہتے تھے۔ بلاؤں کا تو پتہ نہیں البتہ سعودی لڑکیاں جو ان دنوں آرامکو میں نئی بھرتی کے تحت آئی تھیں، ان سے وہ خاصے محفوظ رہے، اب وجہ دیوار تھی یا کموڈ، اللہ جانتا ہے۔ یہ صاحب اتفاق سے دلبربھائی کے ساتھ کام کرتے تھے اور دلبربھائی میرے بہترین دوست تھے۔

ایک روز دلبربھائی نے مجھے کہا کہ انکو صبح آفس کے لیے لفٹ چاہیے کہ انکی گاڑی ورکشاپ میں ہے۔ میں نے اگلی صبح انکو مخصوص جگہ سے پک کیا اور ان صاحب کی زندگی کے خوفناک ترین سفر کا آغاز ہوا۔ وہمی تو وہ تھے ہی، یہ مجھے پتہ تھا۔ مگر ڈرپوک بھی انتہا درجے کے تھے۔ اوپر سے میری ڈرائیونگ جو اچھے اچھوں کو ٹینس کر دیتی تھی۔ بیچارے سارا راستہ خوفزدہ کوے کی طرح گردن گھماتے اپنی جانب آتی گاڑیوں کو دیکھتے اور "تربکتے" رہے۔

حتیٰ کہ آفس کے قریب پہنچ کر انکی ہمت جواب دے گئی اور مجھے وہیں اتار دینے کو کہا جبکہ ابھی انکا آفس دس منٹ کی واک پر تھا۔ پھر انکی چیخ نکل گئی، جب انکے کہنے پر میں نے گاڑیوں کی پرواہ کیے بغیر سڑک کے عین درمیان جیپ روک دی۔ بیچارے بری حالت میں گاڑی سے اترے، انکا خوفزدہ چہرہ آج بھی میرے سامنے ہے۔ آنے والے ویک اینڈ پر میں بٹ صاحب سے ملا، جنکا تزکرہ عربستان کے شروع میں ہو چکا ہے۔

میں نے ان سے پوچھ لیا کہ بٹ صاب، کیا میری ڈرائیونگ اتنی ہی خطرناک ہے؟ بٹ صاحب اپنے مخصوص کنسلٹنٹانہ انداز میں بولے، نہیں اتنی تو نہیں، پر جن کو اچھی ڈرائیونگ سینس ہو، وہ ضرور تربکتے ہیں، کئی بار تو میرا پیر بھی لمبا ہو جاتا ہے، تمہارے ساتھ بیٹھ کر، ویسے تم بریک ہمیشہ آخری سیکنڈز میں کیوں لگاتے ہو؟ ہیں؟ یہ بات مجھے سمجھ نہیں آتی، بٹ صاحب میری بزتی خراب کرنے پر تل گئے۔

ہاہاہا بٹ صاب، میں نے اپنی ہزیمت کو قہقہے پر روکا، بریک لگ تو جاتی ہے نا؟ یہ بھی شکر کی بات ہے۔ ہے کہ نئیں؟ اسی ویک اینڈ کے اگلے روز میں نے اپنے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی اپنی بیوی کے اطمینان کو نوٹس کیا۔ جو انتہائی بے فکری سے اپنی گود میں بیٹھی ہماری تین سالہ بیٹی کے بال سنوار رہی تھی۔ ذہن میں آیا سوال اس سے پوچھ لیا کہ کیا تمہیں میرے ساتھ بیٹھے کبھی ڈر نہیں لگا، کہ گاڑی کہیں لگ نہ جائے؟

میری بیوی نے اطمینان کی مکمل کیفیت میں سیٹ کی پشت پر سر ٹکاتے ہوئے بتایا، کبھی نہیں، کبھی بھی نہیں۔ مجھے ایسا ڈر تو کیا خیال بھی نہیں آیا۔ بلکہ جب تمہارے ساتھ بیٹھی ہوتی ہوں تو مجھے مکمل یقین ہوتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ اس روز مجھے شادی شدہ زندگی کا یہ فلسفہ سمجھ میں آیا کہ اعتماد، بھروسہ اور مکمل یقین آپ کے رشتے کے لیے کس قدر نعمت ہے۔ ہم سب اناڑی ڈرائیور ہیں اس زندگی کے۔

کچھ خامیاں کچھ خوبیاں، مگر ہمیں اپنے پارٹنر پر، اپنے ساتھی پر، مکمل اعتماد کرنا چاہیے جب وہ ڈرائیونگ سیٹ پر ہو اور آپ مسافر سیٹ پر، اس سے میں نے سیکھا زندگی کے کئی معاملات میں جب میری بیوی ڈرائیونگ سیٹ پر ہوتی ہے اور میں مسافر سیٹ پر تو مجھے بھی ویسے یقین اور اطمینان کے ساتھ بیٹھنا چاہیے کہ اب سب اچھا ہی ہوگا اور اگر کچھ برا ہوا بھی تو ہم ساتھ ہیں۔

Check Also

Mein Aap Ka Fan Hoon

By Rauf Klasra