Nasal e Nao Ikhlaqiat Se Aari Kyun?
نسل نو اخلاقیات سے عاری کیوں؟
اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ "شکایت ہے مجھے یارب خداوندانِ مکتب سے" اقبال نے یہ مصرعہ یقینا نسل نو کی اخلاقی تربیت کے سلسلے میں کہا ہو۔
ایک مسلمان کی پہچان ہی اخلاق سے ہے۔ اگر اخلاق نہیں تو مسلمان نہیں۔ یہ ہو نہیں سکتاکہ ایک مسلمان ایمان کا تو دعویٰ کرے مگر اخلاقیات سے عاری ہو۔ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کائنات میں اخلاقیات کاسب سے اعلیٰ نمونہ ہیں جس پر اللہ کریم جل شانہ کی کتابِ لاریب مہرتصدیق ثبت کر رہی ہے۔
اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم4)۔
"بے شک تم بڑے عظیم اخلاق کے مالک ہو"۔
ایسا کیوں نہ ہو آپ مکارم اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تعلیم و تربیت اور درستگی کے لیے مبعوث فرمائے گئے۔ اخلاقیات سے دور قومیں ترقی کی دوڑ میں بھی بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔ آج بچوں کی اخلاقی تربیت کا انتظام نہایت ہی اہم مسئلہ ہے ہمارے ہاں علمی اور فنی حوالے سے تو تربیت کے لئے ہر شہر گاؤں میں ادارے موجود ہیں یا ان کے قیام کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں لیکن تعلیمی اداروں یا گھر کی سطح پہ اخلاقی تربیت کا باقاعدہ کوئی نظام موجود نہیں اور نہ ہی معاشرے میں ایسے اداروں کی روایت موجود ہے جو اخلاقی تربیت فراہم کرتے ہیں۔
جدید علوم تو ضروری ہیں ہی، اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی بھی اہمیت اپنی جگہ ضروری ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ انسان کو انسانیت سے دوستی کیلئے اخلاقی تعلیم بھی بے حد ضروری ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں سے مستقبل کے معمار کم، سوچ اور جذبے کے بیمار زیادہ بر آمد ہوتے رہے ہیں۔ ایسے میں یہ ادارے دانش گاہیں کم لگتے ہیں۔ بے دلی، بے عقلی اور بے سمتی کے سانچوں میں ڈھالنے والے کارخانے سے زیادہ لگتے ہیں۔
ہماری نسل میں اخلاقی اقدار قوت برداشت اساتذہ کا احترام حب الوطنی اجتماعی سوچ سب پس پشت چلی گئی ہیں۔ اس اخلاقی پستی اور زوال کی بہت بڑی وجہ ہمارے تعلیمی اداروں میں اخلاقی تربیت کے عنصر کی عدم موجودگی ہے۔ ہماری تعلیم یافتہ نوجوان نسل اخلاقی تربیت سے بے بہرہ رہتی ہے اور محض نوکری کا حصول ان کا مطمح نظر ہوتا ہے۔ یہ لکھتے ہوئےمیرے ذہن میں گردش کرتے چند سوالات ہیں۔
کیا اخلاقی اقدار میں ادارے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟ کیا تدریسی خدمات کے ساتھ اساتذہ اس پہلو پر غوروفکر کرتے ہیں؟ کیا والدین اس پر عمل پیرا ہیں؟
کسی ایک پر اس کی ذمہ داری ڈالنامناسب نہیں۔ محض سکول کالج یونیورسٹی سے ڈگریاں لے کر کبھی کوئی مہذب، بااخلاق نہیں بنتا۔
فی زمانہ وہی قومیں سربلند رہی ہیں جنہوں نے تعلیم کو ترجیح دی۔ ایک چینی کہاوت ہے۔ "خوش حالی کے لیے اگر ایک سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو فصلیں اگاؤ۔ اگر ایک سو سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو درخت اگاؤ۔ اگر ایک ہزار سال تک قوموں کے آگے وقار سے سر اٹھا کر چلنا ہے تو تعلیم پر سرمایہ لگاؤ"۔
کیوں ہم اتنا پڑھ لکھ کر بھی جاہل ہیں۔ لوگوں نے پی ایچ ڈی تک کی ڈگریاں لی ہوئی ہیں لیکن انھیں کسی ملازم سے کسی مسافر سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔ استاد چپڑاسی کو ڈانٹ رہا ہے پرنسپل استاد کی عزت افزائی میں مصروف ہے۔ علاوہ ازیں جو کمی تھی وہ نسل نو میں کرونا نے پوری کردی ہے۔ نا ہی تعلیم کے ناہی اخلاقیات کے قابل رہے۔ خصوصاً پاکستان کے تباہ حال تعلیمی نظام کا مزید برا حال ہے۔
آج بھی اگر ہم قرآن وسنت کا دامن تھام لیں، اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوں اور اپنے اسلاف کی شان دار اخلاقی روایات پر چلیں تو اس اخلاقی زوال سے بچا جا سکتا ہے۔ اور نسل نو مکارم اخلاق کی مالک بن سکتی ہے۔ اب میں نسل نو کی اخلاقیات سے عاری ہونے کی وجوہات اور اخلاقیات کو اجاگر کرنے والے چند نکات بیان کرتی ہوں جس پر عمل پیرا ہونے سے ہماری نسل اخلاقی طور پر باکمال ہوسکے۔
نسل نو کا اخلاق سے عاری ہونے کی وجوہات:
1۔ والدین کی تربیت میں عدم دلچسپی
اکثریت ایسی ہے جو ملازمت پیشہ طبقہ ہے وہ بچوں کو وقت نہیں دیتے یعنی بچوں کو دینے والا قیمتی وقت اپنی سرگرمیوں میں ضائع کردیتے ہیں۔ بچے کی تربیت میں اہم پہلو وقت ہے۔ وہی جدید دور کے والدین دینے سے قاصر ہیں۔ نتائج اس کے بعض اوقات بد اخلاق کے ساتھ اور طرح سے بھی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ بچے کی جس عمر میں والدین کا قیمتی وقت اس کے لیے اہم ہوتا ہے۔ ماں اپنی مصروفیات میں مگن ہوتی ہے اور باپ اپنی ملازمت اور اپنے کاموں میں اُلجھا ہوتا ہے۔
2۔ جامعات کا کردار:
پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے جدھر سے بچہ سیکھتا ہے۔ دوسری درسگاہ جامعہ ہوتی ہے۔ جدھر بچہ آدھا دن گزارتا ہے۔ جامعات میں اساتذہ کے اخلاق پستی کا شکار ہیں وہاں طلباء سے مکارم اخلاق کی اُمید کرنا ممکن نہیں ہے۔ بچے والدین کے بعد اپنے روحانی والدین کی عادات وعمل سے سیکھتے ہیں اور یہ عادات میں اخلاق بھی ان پر اثرانداز ہوتا ہے۔
3۔ گھر کاماحول اور دین سے قربت نہ ہونا:
گھر کا موحول بھی بچوں پر اثرات مرتب کرتا ہے یعنی اگر جوائنٹ فیملی سسٹم ہے تو بچہ سب کی گفتگو سے سیکھتا ہے اگر گھر کے بڑوں کو برے اخلاق میں پائے گا تو اس کا رجحان بھی اسی جانب مائل ہوجائے گا۔ بد اخلاق کی سب سے بڑی وجہ دین سے جانکاری نہ ہونا۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ نہ ہونا۔ مزید برآں جن میں دین کی تھوڑی بہت بھی سمجھ بوجھ ہوتی ہے وہ اپنا اخلاق ہمیشہ بلند رکھتے ہیں۔
نسل نو میں اخلاقی عناصر کیسے اجاگر کیے جائیں۔۔
1۔ والدین کی گفتگو میں شائستگی ہو:
اکثر والدین بچوں کے سامنے دوسروں سےبات کرتے ہوئے یا ماتحتوں سے بات کرتے ہوئے اگر شائستگی اختیار کریں تو بچوں میں یہ عنصر خود بخود شامل ہوجائے گا۔ مکارم اخلاق سے بات چیت کی عادت بچے میں نوجوان ہونے تک پختگی کی شکل اختیار کرجائے گی۔
2۔ دینی تعلیم کی جانب مائل:
اگر بچوں کو دین کی جانب مائل کیا جائے کہ وہ دین سے اتنی واقفیت رکھیں کہ ان میں خوف خدا پیدا ہوجائے تو اخلاق بھی خود عمدہ ہوجائے گا۔ نرم اور حساسیت میں لپٹے دل ہمیشہ عمدہ اخلاق رکھتے ہیں اور یہ نرم دل اور اچھا اخلاق محض دین کی قربت سے ہی ممکن ہے۔ مزید برآں نسل نو کو اگر گھر میں اسلامی کتب یعنی اسلامی تاریخ کی کوئی کتاب کا مطالعہ کروایا جائے تو یہ بھی اس کے اخلاق کو بلندی تک پہنچانے میں معاون ثابت ہوگی۔
3۔ سیرت مصطفی کا مطالعہ:
آپ ﷺ کی سیرت میں تمام انسانیت کی تربیت کے پہلو شامل ہیں۔ سیرت مصطفیٰ ﷺ پر عمل کرکے نسل نو تزکیہ نفس جیسی خاصیت میں اپنے وجود کو لپیٹ سکتا ہے۔ رسول ﷺ کی سیرت کے مطالعہ سے نسل نو کو علم ہوگا کہ دنیا کے سب سے بہترین معلم کا اخلاق کس قدر باکمال تھا۔ رسول ﷺ کےاخلاقیات کی سرگزشت کو جاننے کے بعد بھی نسل نو کے اخلاق میں بہت امتیاز دیکھنے کو ملے گا۔