Musalman Nahi Rakh Ka Dhair Hai
مسلمان نہیں راکھ کا ڑھیر ہے
میرا دل خون کے آنسو رو رہا بلکہ ہر پاکستا نی شر مندگی کا سامنا کر رہا، سری لنکن مینجر کو تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا، وجہ تو صرف اتنی سی تھی کہ مذہبی پوسٹر اتارنے پر گارمنٹس فیکٹری کے ورکرز نے منیجر پر حملہ کیا، آخر ہجو م اتنی سی بات پر مشتمل کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ امر قابل غور ہے کہ اس واقعہ کے پیچھے ہمارے جن دشمنوں کا ہاتھ ہے اس کے ساتھ ساتھ اس تعلیم و تربیت کی بھی ضرورت ہے!شاید ہمارے دین کی تعلیمات ہم تک نہیں پہنچ پائیں، ہمارے علماء کے خطبے ایک ہی دائرہ تک محدود ہیں !کیا یہ علامہ اقبال اور قائد اعظم کا پاکستا ن ہے؟ علامہ اقبال نے مدارس کا دورہ کیا تھا اور بہت دکھی دل کے ساتھ لکھا تھا کہ طالب علموں کو کیا تعلیم دے رہے ہیں لیکن اقبال کی بات علمائے نے کہاں سننی تھی اور کہاں سنی؟
عہد فاروقی میں ہمیں تاریخ میں ایسے بیانات ملتے ہیں جن سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسیران جنگ کو رہا کیا جاتا تھا، غلام نہیں بنایا جاتا تھا، مثلا" جب خوزستان کے شہر اہواز کو فتح کیا جسے ایرانی ہرمز کہتے تھے، تو وہاں ہزاروں مرد اور عورتیں قید ہو کر آئے۔ حضرت عمر نے حکم دیا کہ ان سب کو رہا کر دیا جائے۔ فتح مصر کے وقت گرفتار شدگان کو کس طرح نہ صرف آزاد کیا گیا بلکہ انہیں مذہبی آزادی بھی دی گئی، اس زمانے میں جنگ کے قیدیوں کو غلام نہیں بنایا جاتا تھا۔ کیونکہ قرآن کریم کا یہی حکم تھا۔ اسلام میں جنگ کی اجازت صرف اپنی مملکت کی حفاظت کے لئے،مظلومین کی امداد کے لئے، خواہ وہ کوئی ہوں، اور کہیں بھی ہوں، کسی جگہ لاقانونیت پھیل جائے اور قدر انسانیت محفوظ نہ رہے تو اس کی روک تھا م کے لئے اور غیر مسلموں کی مذہبی آزادی کے تحفظ کے لئےیہ اہم نقطہٴ قابل غور ہے کہ مسلمان غیر مسلموں کی مزہبی آزادی کے تحفظ کے لئے جنگ تک کر سکتے ہیں۔
مظلوم کو ظلم سے بچانے کے لئے چاہئے وہ مسلمان ہو یا نہ ہو۔ جو دین مسلمانوں کو غیر مسلموں کے مذہب کی حفاظت کی زمہ دار ی سونپتا ہے مظلو موں کی مدد کو کہتا ہے۔ قرآن میں جہاں حج کا ذکر آیا ہے وہاں انسانوں سے خطا ب کیا گیا ہے۔ حج کا مقصد بنی نوع انسان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا تھا۔ انسانوں کو آزادی سے ہمکنار کرنا اور یہ آزادی کیا تھی؟ کہ کوئی انسان کسی انسان کے آگے نہ جھکے، اس ملک میں صرف مذہبی پوسٹر اتارنے پر ایک سری لنکن کو قتل کر دیا گیا۔ کیا یہ امت محمدی ہے؟
ہمیں تو بچپن میں یہ بتایا گیا تھا کہ وہ پاک زات اپنے پر کوڑا پھینکے والی عورت کو نہ صرف معاف کر دیدیتے ہیں بلکے جب وہ کوڑا نہیں پھینکتی تو حضورﷺ اس کا حال پتہ کرنے اس کے گھر چلے گئے۔ اس نبی کی امت ہم کیا کر رہے ہیں؟ یہ ہمارے تعلیمات تو نہیں ہیں؟ اگر یہ سا زش ہے جو کہ یقیناً ہے تو اس کا پتہ لگانا کس کی زمہ داری ہے؟ نجران(یمن) کے عیسائیوں کے ساتھ خود حضور ﷺ نے جو معاہدہ کیا تھا، اس کے الفاظ یہ تھے:
نجران اور اس کے گردو پیش کے با شندے، ان کے اموال، جانیں ارضیات، مذہب، ان کے غائب اور حاضر خاندان، ان کی عبادت گاہیں، غر ضیکہ ان کی ہر چیز جو ان کے قبضہ میں ہے، تھوڑی ہو یا بہت، سب محفوظ رہیں گی۔ کسی پادری کو اس کے منصب سے، کسی راہب کو اس کی رہبانیت سے، کسی کاہن کو اس کی کہانت سے ہٹا یا نہیں جائے گا، نہ کوئی شحص ان کے کسی فرد کو نقصان پہنچا ئے گا، نہ ہی ان پر کسی قسم کی سختی کی جائے گئی، نہ ہی ان پر کوئی حملہ آور ہو سکے گا۔ ان میں جو شحص اپنے کسی حق کا مطالبہ کرے گا، اس کے ساتھ انصاف کیا جائے گا اس طرح کہ ان میں نہ کوئی ظا لم ہو گا نہ مظلوم۔ کسی کے جرم کی وجہ سے کسی اور کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔
اس دور ہمایوں میں پا بندی عہد کی ایسی ایسی مثالیں ملتی رہیں جنھیں دیکھ کر آج کا انسان محو حیرت ہو جاتا ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت ایک دفعہ دمشق کے ایک گاؤں کے قریب سے گزرے۔ رفیق سفر سے کہا کہ گاؤں کے کسی درحت سے مسواک کاٹ لائیے، وہ اٹھے ہی تھے تو آپ نے یہ کہ کر روک دیا کہ ان کہ ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے، اس میں اس قسم کی کوئی بات طے نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے ہمیں یہاں سے مسواک نہیں لینی چاہیے۔ اسی طرح، حضرت ابو دردا جب کسی اہل ذمہ کے گاؤں پر سے گز رتے اور آپ وہاں پانی پینے یا جانور چرنے کے لئے چھوڑ دیتے تو روانگی کے وقت، ایک ایک پائی کا حساب کر کے قیمت ادا کر دیتے اور اس میں یہ کہہ کر کچھ زائد بھی شامل کر دیتے کہ ہم ان کے درختوں کے سائے تلے بھی تو بیٹھے تھے، اس آسائش کا بھی تو معاوضہ دینا چاہئے۔
یہ نہ بھو لئے کہ یہ ان کے مفتوحہ علاقے تھے اور وہاں کے با شندے ان کے محکوم!حضرت عمر شام تشریف لے گئے تو ازراعات کے عیسائی، باجے بجاتے اور پھول برسا تے آپ کے استقبال کے لئے نکلے، آپ نے انہیں روکنا چاہا تو حضرت ابو عبید ہ نے آپ سے کہا کہ انہیں ان کے حال پر رہنے دیجئے، روکئے نہیں۔ انہیں ان کے رسم رواج کی آزادی ہے۔ حضرت عمر نے مفتوحہ علاقوں کی دفاتری زبان بھی نہیں بدلی تھی۔ اسلام سے پہلے عراق کا دفتر فارسی زبان میں، شام کا رومی زبان میں اور مصر کا قبطی زبان میں تھا۔ ان ممالک کے فتح ہونے کے بعد دفاتر ی کاروبار انہی زبانوں میں باقی رکھا گیا۔
غیر مسلم مصنفین نے اس طرح کا پراپیگنڈہ کر رکھا ہے اور اس کے ساتھ اب آج کل ہمارے دشمن بھی شامل ہو گئے ہیں کہ مسلمانوں کو دنیا کی وحشی ترین قوم خیال کرنے لگ گئے ہیں۔ اسلام کے دامن سے یہ پراپیگنڈے ختم کیے جا سکتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات جو میں اوپر درج کیے ہیں، کیا ہمارے بچوں کو پتہ ہے؟ کیا مدارس میں طلباء کو جو تعلیم دی جاتی ہے ان کو یہ سب کچھ بتایا جاتا ہے؟
اس طرح کے درجنوں واقعات اور بھی ہیں جو ررج کرنے میں وقت درکار ہے لیکن اتنے سال مدرسے میں جو طالب علم تعلیم حاصل کرتے ہیں کیا ان کو سب پتہ ہے؟ اسی دکھ کا اظہار اقبال نے بھی کیا تھا۔ لمحہ فکر یہ ہے کہ ہم دین کی تعلیمات سے نا آشنا ہیں کیونکہ ہمارے علمائے کرام کی حا لت یہ ہے بقول اقبال
تمدن، تصوف، شریعت، کلام
بتان عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
لبھاتا ہے دل کو کلا م خطیب
مگر لذت شوق سے بے نصیب
بیان اس کا منطق سے سلجھا ہوا
لغت کے بھکیڑوں میں الجھا ہوا
وہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد
محبت میں یکتا، حمیت میں فرد
عجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ ساقی مقامات میں کھو گیا
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے