Khawateen Ka Aalmi Din
خوا تین کا عالمی دن
کائنات کی خوبصورتی اور رنگینی عورت کے وجود سے مزید رنگین ہو جاتی ہے۔ عورت جو ماں بھی ہے، بہن بھی ہے اور بیوی بھی، بیٹی بھی، لیکن معاشرہ کی ستم ظریفی کہ کبھی تو وہ بہت مقدم ہو جاتی ہے اور کبھی بُری طرح روندی جاتی ہے۔ اسلام نے عورت کو بہت بڑا مقام عطا کیا ہے، اس نے کہا کہ ماں کے پاؤں تلے جنت ہے۔
دوسری طرف مذہبی پیشواؤں اور شعراء کے بعض طبقوں نے عورت کے بارے میں لکھا "ایہہ ترنیو تاں مکر دیاں کنیاں نیں" یعنی عورتیں مکر و فریب کی کنیاں ہوتی ہیں۔ سورۃ یوسف میں عزیز کا مشہور قول درج ہے "انٰ کیدٰکُن عٰظیم" یعنی ان عورتوں کی چال بڑی گہری ہے لیکن اس قول کو ایسے پیش کیا گیا جیسے خدا نے ایسا کہا ہے۔ وارث شاہ نے لفظ کنیاں استعمال کیا جس کے معنی بڑے جامع ہیں۔
گاؤں میں آک (مدار) کا بوٹا ہوتا ہے اس کا پھل آم کی شکل کا ہوتا ہے اس میں سارا زہر بھرا ہوتا ہے، زبان سے لگ جائے تو حلق تک کڑوا ہو جائے۔ آ نکھوں میں پڑ جائے تو آ نکھیں اندھی ہو جائیں۔ اس سے سمجھ لیں کہ کنی کے کیا معنی ہوئے۔ جب کہ قرآن نے مرد اور عورت کو برابر قرار دیا ہے۔ اس نے مرد کے ساتھ ساتھ عورت کا بھی ذکر کیا ہے مُسلمین کے ساتھ مُسلِمٰت، مومِنیِن کے ساتھ مُومِنٰت، صٰدِقِینُ کے ساتھ صٰدِقٰتِ، صٰبِرِین کے ساتھ صٰبِرٰت غرض سورۃ احزاب میں تو تفصیل کے ساتھ ہر جگہ عورت اور مرد کا برابر ذکر کیا گیا ہے۔
خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے دو آراء سامنے آتی ہیں ایک تو وہ خواتین جو "میرا جسم میری مرضی" کے نعرے پر یقین کر کے اس کے حق میں دلائل دیتی چلی آتی ہیں اور دوسرے ان کے مقابلے میں"حیا مارچ" والے ہیں۔ ہم سب یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمارے پاس واضح، صاف کتاب موجود ہے پھر بھی آخر کیوں ہم افراط و تفریط کا شکار ہیں، اس واضح راہنمائی کے باوجود ہم یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ عورت کا مقام کیا ہے؟
مجھے علامہ اقبال کا ایک لطیفہ یاد آ گیا، وہ کہا کرتے تھے کہ اگر میں مسلمان نہ ہوتا اور قرآن کا ویسے ہی مطالعہ کرتا تو اس نتیجے پر پہنچتا کہ یہ کتاب کسی عورت کی تصنیف ہے جس نے مرد سے اپنی صنف کے غصب کردہ حقوق کا بدلہ لیا ہے۔
قرآن نے جہاں مرد اور عورت کو زوج کہا ہے تو یہ نہیں کہا کہ عورت کو مرد کی زوج بنایا، بلکہ انسانوں کو خطاب کر کے کہا کہ "جعل لکم مِن اُنفسکم اُزواجا" اس نے تم میں سے تمہارے لئے زوج بنا دئے۔ زوج کہتے ہیں رفیق اور ساتھی کو یعنی مرد اور عورت ایک دوسرے کے رفیق اور ساتھی ہیں۔ ایسے ساتھی کہ ان میں سے ایک کی تکمیل دوسرے کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے زوج کے معنی ہوں گے complementary to each other مرد کی تکمیل عورت سے اور عورت کی تکمیل مرد سے ہوتی ہے۔ یہ ایک دوسرے کے زوج ہیں۔
قرآن نے ازدواجی رشتے کے لئے بڑی خوبصورت مثال دی ہے۔ السُکان، کشتی کے پتوار کو کہتے ہیں جو آگے بھی بڑھتی جاتی ہے اور اس کا توازن بھی برقرار رہتا ہے۔ ازدواجی رشتہ بھی اس "السکان" کشتی کے پتوار کی مانند ہے جو آگے بھی بڑھتا جاتا ہے اور اس کا توازن بھی برقرار رہتا ہے۔ ذرا تصور میں لائیے اس طرح کے ازدواجی تعلق کو جس کا نقشہ قرآن کھینچتا ہے اس کے مطابق تو ہماری زندگیاں جنت کا نمونہ ہوتیں لیکن ہم اپنے اردگرد کیا دیکھتے ہیں؟ کیا مرد اور عورت میں ذہنی ہم آہنگی نظر آتی ہے؟ اس ذہنی ہم آہنگی کے بغیر جو نسل دنیا میں آتی ہے، وہ کیا تصور لے کر دنیا میں آتی ہے؟
عرب جب سفر کرتے تھے وہ زیادہ تر اونٹوں پر ہوتا تھا۔ سفر کے دوران اس چیز کا خیال رکھا جاتا تھا کہ جو دو سواریاں وہ اکٹھی بٹھاتے تھے ان میں ذہنی ہم آہنگی ہو تاکہ طویل سفر خوشگوار طریقے سے کٹ جائے۔ ہم زندگی بھر کے ساتھی کا انتخاب کن بنیادوں پر کرتے ہیں؟ آپ خود فیصلہ کریں؟ قرآن کہتا ہے کہ اگر تم کسی گرتی ہوئی قوم کو سنبھالنا چاہتے ہو تو اُس کی ابھرنے والی نسل کو سنبھال لو۔ اگر تم نے آنے والی نسل کے دل و دماغ کی تربیت صحیح خطوط پر کر دی تو قوم خود بخود سنبھل جائے گئی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بہ نسبت مردوں کے، معاشرہ کی اصلاح عورتیں زیادہ آسانی اور مؤثر طریقے سے کر سکتی ہیں۔ معاشرہ خاندانوں کے مجموعہ کا نام ہوتا ہے، اور عورت گھر کی صلاح نہایت حسن کارانہ انداز سے کر سکتی ہے، اور یہ اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ اگر ہم نے اپنی آنے والی نسل کو سنبھال لیا تو سمجھیں کہ ہم نے اپنی قوم کو سنبھال لیا۔ اب ان دو افراط و تفریط کی طرف آئیں جو بحث کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔
ایک گروہ "میرا جسم، میری مرضی" کے نعرہ کا حامی اور دوسرا کہتا ہے کہ عورتیں گھروں میں رہیں کیونکہ ان کے باہر آنے سے ہمارا ایمان خراب ہوتا ہے۔ لعنت ہے ایسے ایمان پر جو دھاگا سے بھی کچا، منٹوں، سیکنڈوں میں ڈول جاتا ہے۔ بعض شعبے ایسے ہیں جن میں خواتین کی ضرورت ہوتی ہے مثلاََ میڈیکل کا شعبہ، شعبہ تعلیم، عدالتوں میں بھی خواتین کے مقدمات پیش ہوتے رہتے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں وہ اپنا مؤثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس سے پہلے انہیں اپنی اولاد کی تربیت ہر زور دینا ہے جس کا انہوں نے اپنے ربّ کی عدالت میں جواب دینا ہے۔
کردار کے حوالے سے عورتوں میں حضرت مریم کو پیش کیا جاتا ہے، جنہوں نے اُس زمانے میں ہیکل کی زندگی میں رہ کر اپنے کردار کی حفاظت کی اور مردوں میں حضرت یوسفؑ کو جنہوں نے خالی کمرہ میں انتہائی طاقتور عزیز کی بیوی کی بےحد کوشش کے باوجود اپنے کردار کو داغدار نہ ہونے دیا، اُس خالی کمرے میں سوائے خدا کے کوئی دیکھنے والا نہ تھا۔ رہتی دنیا تک خدا نے کردار کے حوالے سے حضرت مریمؑ اور حضرت یوسفؑ کو ہمیشہ کے لئے مثال کی حیثیت سے قرآن میں جگہ دے دی۔
اگر خواتین آئندہ آنے والی نسلوں کی تربیت ٹھیک خطوط پر کرنے میں کامیاب ہوگئیں اور نئی نسل کو یہ سمجھانے میں کامیاب کہ ہمیں اپنی ذات کی تربیت ایسی کرنی جس سے وہ اگلی دنیا میں کامیابی سے قدم رکھ سکے کیونکہ موت صرف جسم کو آتی ہے ذات کو تو اگلی دنیا میں جانا ہے۔ جیسی تربیت ہم نے اپنی ذات کی کی ہوگئی ویسی ہی ہمیں زندگی مل جائے گئی۔ بقول اقبالؒ۔
ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
یہ فریضہ ایک ماں اور ایک استاد کا سب سے زیادہ ہے۔ ایک ماں کو دیکھنا ہے کہ جس رفتار سے بچے کے جسم کی پرورش ہو رہی ہے اس کا قد اور اعضاء بڑھ رہے ہیں، اسی رفتار سے اس کا ذہن mind یا قرآن کے الفاظ میں قلب بھی پختہ ہوا ہے یا نہیں۔ اگر ایسا بھی ہو رہا تو سمجھ لو کہ یہ بچہ بڑا ہو کر اپنے لئے مصیبت اور معاشرہ کے لئے وبالِ جان بن جائے گا۔ انسانی بچے میں صلاحیتیں ان گنت ہوتی ہیں اور ان کی تکمیل کے لئے کوئی آخری حد مقرر نہیں ہوتی۔
اگر ہم ساری عمر ان کی نشوونما کرتے رہیں تو وہ آگے ہی آگے بڑھتے جائیں گے۔ اگر بچے کی صلاحیتیں دبی کی دبی رہ جائیں تو کیا معلوم انسانیت ان کے کس قدر بیش بہا جوہروں سے محروم رہ جائے گئی۔ اگر خواتین نے اپنی آنے والی نسلوں کی ٹھیک خطوط پر تربیت کر دی تو پھر ہر دن 8 مارچ کا دن ہوگا۔ ہمیں سال میں صرف ایک دن منانے کی ضرورت نہیں رہے گئی۔
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ