Kamyab Zindagi Aur Mard e Mujahid Quaid e Azam
کامیاب زندگی اور مردِ مجاہد قائدِ اعظم
اکثر ہم لوگوں سے یہ کہتے سنتے ہیں کہ فلاں کی زندگی بڑی کامیاب ہے۔ ہم نے کامیابی کے معیار کو مال و دولت کے ساتھ جوڑ رکھا ہے کہ جس نے جتنا زیادہ پیسہ کمایا وہ اس قدر کامیاب ہے یا جس کی جتنی اچھی نوکری ہوئی وہ اتنا ہی کامیاب رہا۔ اکبر آ بادی نے کیا خوب کہا تھا۔
کیا کہیے احباب کیا کا دہائے نمایاں کر گئے
بی اے کیا نوکر ہوئے، پنشن ملی اور مر گئے
جن افراد یا اقوام کے سامنے زندگی کے بلند مقاصد ہوں ان کے ہاں کامیاب زندگی کا معیار کچھ اور ہوتا ہے، محمد علی جناح کے شعور نے جب آنکھ کھولی تو اس نے دیکھا کہ اس کا ملک غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ احساس اُس مردِ مومن کے لئے نا قابلِ برداشت تھا، اگر وہ زمانے کے ساتھ چلنے کا سوچتا تو وہ تمام مدارج جو کسی ہندوستانی کو مل سکتے تھے قائدِ اعظم کے قدم چومتے اور ان کی زندگی دنیا کی نظر میں کامیاب زندگی ہوتی، لیکن مصلحت کی یہ زندگی رب کی نظر میں کبھی کامیاب نہ تھی!
ایک مردِ مومن کی صحیح عظمت اس وقت سامنے آئی جب اس نے نہ صرف انگریزوں اور ہندوؤں سے جنگ لڑی بلکے کچھ گروہ مسلمانوں کے بھی تھے جو قائدِ اعظم کے خیلاف تھے ان کے سامنے بھی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے! جب انگریزوں کی گرفت ہندو ستان پر ڈھیلی ہوگئی تو ہندوں کے عزائم کھل کر سامنے آ گئے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کے الفاظ میں"دراصل جمہوری حکومت کے معنی یہ ہیں کہ اکثریت، اقلیت کو ڈرا، دھمکا کر اپنے قابو میں رکھنا چا ہتی ہے"۔ میری کہانی۔ جلد دوم صفحہ نمبر 455۔
جب کہ قرآن قوموں کی تشکیل آئیڈیا لوجی کے اشتراک سے کرتا ہے۔ اس اُصول کی رو سے صورت یہ تھی کہ مکہ کا رہنے والا ابو جہل رنگ نسل، زبان کے لحاظ سے اُس قوم کا فرد تھا اور روم کا صہیبؓ، حبش کا بلالؓ اور فارس کا سلمانؓ ایمان کے اشتراک کی بناء پر مسلمان اُمت کے افراد۔
یہ تھا تشکیلِ اُمت کا اُصول جو قرآن نے چودہ سو سال پہلے پیش کیا اور اقبال نے اس کو زندہ کیا اور مردِ مومن محمد علی جناح نے اسی اُصول کے تحت پاک سر زمین کو حاصل کیا۔
وہ شخص جو شدید بیمار تھا اور اس کے قوتِ ارادی کا یہ حال تھا کہ اُس وقت پوری قوم اس مردِ مجاہد کے ساتھ اِس طرح کھڑی تھی کہ اُس وقت کسی کے دل میں یہ خیال تک بھی نہ آتا تھا کہ پا کستان بن بھی جائے گا یا نہیں! یقین تھا! یقینِ محکم!
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا!
اور ہمارے اپنے نیشلسٹ علماء ان میں ابو الاٰ مودودی صاحب نے کہا کہ "لیگ کے قائدِ اعظم سے لے کر چھوٹے متقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں جو اسلامی ذہنیت اور اسلامی فکر رکھتا ہو اور معملات کو اسلامی نقطہ نظر سے پر کھتا ہو"۔ ترجمان القرآن (ذی الحجہ 1259) صفحہ نمبر 33۔
مولانا آزاد کی طرف سے گاندھی جی نے یہ سند لی کہ جس میں وہ کہتے ہیں"عالمگیر سچائیاں تمام مذاہب میں یکساں طور پر پائی جاتی ہیں۔ قرآن نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ تمام مذاہب سچے ہیں"۔
مولانا کی تفسیر کے اس حصے کا ہندی میں ترجمہ کیا گیا اور کانگرس کی طرف سے اس کی عام اشاعت کی گئی۔ اور ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اسلام کوئی جدا گانہ دین نہیں ہے اور اس کو الگ مملکت کی قطعاََ ضرورت نہیں ہے۔
مولانا حسین احمد مدنی احرار والے، جماعت اسلامی والے، جمعیت العلماء ہند، سرحد کے سرخپوش، بہار کے انصار وغیرہ سب کانگرس کے ساتھ تھے۔
دوسری طرف علامہ اقبال کی وفات کے بعد یہ مردِ مجاہد سمندر کی تلاطم خیز موجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تنہا کھڑا تھا۔
ہوا تھی گو تندو تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا تھا
دوسری طرف مہاتما گا ندھی خود اپنے بارے میں کیا کہہ رہے تھے "میں اپنے آپ کو سنانتی ہندو کہتا ہوں کیونکہ میں ویدوں، آپ نشدوں، پرانوں اور ہندووں کی تمام مذہبی کتابوں کو مانتا ہوں۔ اوتاروں کا قائل ہوں اور تناسخ کے عقیدے پر یقین رکھتا ہوں میں کھشا کو اپنے دھرم کا جزو سمجھتا ہوں اور بت پرستی سے انکار نہیں کرتا، میرے جسم کا رواں رواں ہندو ہے"۔ ینگ انڈیا 1921.10.13
دوسری طرف مولانا ابو الکلام آزاد کا ارشاد تھا کہ "گاندھی نے جنگِ آزادی میں اپنی جان اور مال دونوں لٹا دئیے، پس وہ مجاہد فی سبیل اللہ ہیں"۔ مضامینِ آزاد صفحہ نمبر 19.
یہ جنگ درحقیقت کفر و اسلام کی جنگ تھی۔ حق و باطل کی جنگ تھی، جس میں ایک مغربی وضع کا سن رسیدہ مسلمان ایک طرف اور تمام ہندو اور نیشنلسٹ علماء دوسری طرف!
قائدِ اعظم کی وفات پر اس مردِ مجاہد کی عظمت دنیا کی زبان پر بے ساختہ آ گئی، دنیا کے عظیم تریں اخبار لندن ٹائمز نے لکھا۔ "قائدِ اعظم نے اپنی ذات کو ایک بہترین نمونہ پیش کرکے اپنے اس دعوے کو ثابت کر دیا کہ مسلمان ایک علحیدہ قوم ہیں۔ ان میں وہ ذہنی لچک نہیں تھی جو۔ انگریز کے نزدیک ہندوستانیوں کا خاصہ ہے۔ ان کے تمام خیالات ہیرے کی طرح قیمتی مگر سخت اور شفاف ہوتے تھے۔ ان کے دلائل میں ہندو لیڈروں جیسی حیلہ سازی نہ تھی بلکہ وہ جس نقطہ، نظر کو اپنا ہدف بناتے تھے اس پر براہِ راست نشانہ باندھ کر وار کرتے تھے وہ نا قابلِ تسخیر حریف تھے"۔
قائدِ اعظم نے حقیقتاً ثابت کیا کہ اگر کوئی بھی چاہے تو وہ اپنے مقصد کو حاصل کر سکتا ہے اگر مقصد سچا اور ارادہ پختہ ہو، ایمان کی مضبوطی اس کے ساتھ ہو۔
قائدِ اعظم کی زندگی کا مقصد ہی یہ تھا کہ ہمیں ایسی آزاد اسلامی مملکت لے کر دیں جہاں ہم اسلامی اُصولوں کو آزما سکیں اور پھر ہم نے کیا کیا!