Jo Shai Ki Haqeeqat Ko Na Dekhe Wo Nazar Kya
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
ذرا تصور میں لائیں اس معمولی سے واقعہ کو کہ ایک شحص کو آپ سلام کرتے ہیں اور وہ نہایت بے رُخی سے اس کا جواب دیتا ہے۔ فرمائیے وہ کون سی عدالت ہے جس میں جا کر آپ اس کے طرزِ عمل کے خلاف دعویٰ دائر کریں گے اور وہ کون سا قانون ہے جس کی رو سے وہ عدالت اسے مجبور کر سکے گی کہ وہ آپ کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آیا کرے؟
ان چھوٹی چھوٹی اخلاقی روایات پر عمل درآمد کا تعلق قانون کی زنجیروں سے نہیں بلکہ جزبات کے نرم و نازک ریشمی دھاگوں سے جڑا ہوتا ہے۔ اور ان جزبات کا تعلق انسان کی تربیت سے ہوتا ہے۔ اس تربیت کے تانے بانے انسان کے عقیدوں سے وابسطہ ہوتے ہیں۔ اس مرحلے میں جو انسان اُمتِ محمدیہ سے وابسطہ ہوتے ہیں تو وہ زندگی کے ہر شعبے میں قرآن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ ان کی مثالیں جو خضورؐ کے تربیت یافتہ تھے ہمیں تاریخ میں جا بجا ملتی ہیں۔
"حضرت عمر کہا کرتے تھے کہ کسی شخص کے اخلاق پر اس وقت تک بھروسا نہ کرو جب تک اسے غصہ کی حالت میں نہ آزما لو۔ "
خلافتِ راشدہ کا ذکر جس تکرار سے خان صاحب نے پاکستان کی تاریخ میں کیا ہے، کسی اور نے نہیں کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ لیاقت علی خان نے خلافتِ راشدہ کا ذکر نہیں کیا لیکن انھوں نے اپنی زندگی بطور مثال اسی طرح پیش کر دی۔ اور ذکر کرنے والوں کی حالت یہ ہے کہ خود عدالت خان صاحب کو موقع پر موقع فراہم کر رہی ہے کہ آپ کے منہ سے جو پھول جھڑے ہیں ان کی وضاحت کر دیں، لیکن وہ چاہے عدلیہ ہو چاہے عام انسان، خان صاحب کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
وہ شاید مقبولیت کے نشے سے سرشار ہوتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ بھٹو جتنی مقبولیت شاید ان کی نہیں ہے یا شاید ان کے چاہنے والوں میں اتنا دم خم بھی نہیں کہ وہ سختیاں برداشت کر سکیں۔ بہرحال خان صاحب جس خلافتِ راشدہ کے حوالے دیتے رہتے ہیں اس دور میں اخترامِ آدمیت کا اس قدر احساس تھا کہ حضرت عمرو بن عاص رظہ نے ایک دفعہ ایک شخص کو منافق کہہ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس سے زیادہ اس کی ذلت اور کیا ہو سکتی ہے؟ حضرت عمرو بن عاص رظہ سے کہا کہ اس شخص سے معافی مانگ کر اسے راضی کر لو، ورنہ میں تمہیں سزا دونگا۔
اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ ایک دفعہ حمص کے حاکم، حضرت عمیر بن سعد کے منہ سے کسی زمی کے متعلق یہ الفاظ نکل گئے۔ " اخزک اللہ۔ خدا تجھے رسوا کرے"۔ اس پر انہیں اس قدر ندامت اور تاسف ہوا کہ خضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہو کر استعفےٰ دے دیا اور کہا کہ میں اس منصب کا اہل نہیں رہا۔ بھتیرا سمجھایا لیکن حضرت عمیر بن سعد اس بات پر ڈٹے رہے کہ وہ اس منصب کے اہل نہیں۔
حکیم الامت نے کیا خوب کہا تھا۔
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا۔
کاش خدا ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم چیزوں اور انسانوں کو اس کی اصل کے حوالے سے پہچان پائیں۔