Hamara Aisa Hasher Kyun Hai?
ہمارا ایسا حشر کیوں ہے؟
پچھلے دنوں مجھے دو شادیاں اٹینڈ کرنے کا موقع ملا، اور یہ دونوں شادیاں دو مختلف خاندانوں کی تھیں اور دو مختلف جگہوں پر تھیں۔ دونوں شادیوں کے فنکشن شاندار تھے۔ اس قدر شاندار طرز کے کھانے اور مہندی کے فنکشن میں شاندار رقص، رقص تو اعضاء کی شاعری ہے جو دیکھنے والوں کو محضوض کرتی ہے، خوشی کا تعلق انسان کے ذاتی اطمینان سے ہوتا ہے۔ ہندوؤں کے، اور انگریزوں کی تقریبات میں اعضاء کی شاعری، ان کے لئے تو تسکین کا باعث ہوسکتی ہے، کیونکہ اس کے تانے بانے ان کے مذہب سے جڑے ہوتے ہیں، لیکن ہم کہاں پر کھڑے ہیں؟
ان دونوں شادیوں میں ایک بات مشترک تھی، ایک شادی میں دلہن کی رخصتی کے وقت اسماءِ حسنیٰ اونچی اونچی آواز میں لگے ہوئے تھے اور دوسرا فنکشن چونکہ ولیمہ کا تھا تو اس میں دلہن کے حال میں داخلے کے وقت اسماءِ حسنیٰ اونچی آواز میں لگے ہوئے تھے۔ جو بہت ہی اچھا تاثر دے رہے تھے اور خدا کے ناموں سے تو واقعی دل کو سکون سا ملتا ہے۔ خدا کی کچھ خصوصیات ہیں جو صرف اس کے لئے یکتا ہیں جیسے وہ اول و آخر ہے، وہ لازوال ہے، ہمیشہ ہے اور ہمیشہ رہے گا، لیکن کچھ خصوصیات ایسی ہیں جن کے بارے میں انسانوں کو بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اندر داخل کریں۔ جیسے اقبال نے کہا ہے کہ
قہاری و غفاری و قدوس و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
یہ فنکشن اٹینڈ کرنے کے بعد اتفاق سے عید میلاد النبیؐ بھی آ گیا، عید میلاد النبیؐ کی تقریبات اور دوسری طرف شادیوں کے حد سے تجاوز کرتے ہوئے اخراجات، جن پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ہم حضورؐ کی محبت میں بہت کچھ کرتے ہیں، صرف وہی نہیں کرتے جس سے اللہ کے نبیؐ سے محبت ثابت ہوتی ہے۔
یہ اسماءِ حسنیٰ جو بلند آواز میں لگے ہوتے ہیں، اگر روعِ زمین پر کسی شخص میں ہیں تو وہ ہمارے نبیؐ کی ذاتِ گرامی ہے، اسی لئے وہ ہمارے لئے عملی نمونہ ہیں، ہم اپنے نبیؐ سے والہانہ محبت کرتے ہیں مگر وہی نہیں کرتے جو کرنے کا کام ہے، جس کے کرنے سے ہماری زمین جنت کا گہوارہ بن سکتی ہے، ہم ان جیسی زندگی نہیں گزار سکتے۔ حضورؐ کی مدنی زندگی میں دس لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی مملکت کے سربراہ تھے اور مولانا شبلی کے الفاظ میں:
"یہ وہ زمانہ تھا جب تمام عرب حدودِ عرب، حدودِ شام سے لے کر عدن تک فتح ہو چکا تھا اور مدینہ کی سرزمین میں زر کا سیلاب آ چکا تھا۔ " سیرت النبیؐ (جلد اول) صفحہ (349 - 352)
لیکن اس کے باوجود آپؐ نے جس انداز کی زندگی بسر کی، اس کے متعلق کتبِ تاریخ میں ہے:
"حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپؐ کا کوئی کپڑا طے کر کے نہیں رکھا گیا۔ صرف ایک جوڑا ہوتا تھا، دوسرا نہیں تھا جو طے کر کے رکھا جاتا۔ جن کپڑوں میں آپؐ نے وفات پائی، ان میں اوپر نیچے پیوند لگے ہوئے تھے۔ گھر میں ہر وقت فاقہ رہتا تھا اور رات کو آپؐ اور سارا گھر بھوکا سوتا تھا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مدینہ میں قیام سے لے کر وفات تک آپؐ نے دو وقت کی روٹی سیر ہو کر نہیں کھائی"۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی سلطنت کے مالک ہونے کے باوجود آپؐ کی ایسی زندگی اس لئے نہیں تھی کہ آپؐ دنیاوی آسائش کو قابلِ نفرت سمجھتے تھے۔ ایسا قطعاََ نہیں تھا، وجہ یہ تھی کہ مملکت کے وسیع ہونے کی وجہ سے حضور ﷺ وہ آسائشیں استعمال نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ ہر شحص کو وہ آسائشیں میسر نہیں تھیں۔
ہم شادی کی تقریبات کا آغاز محفلِ میلاد سے کرتے ہیں، جس میں نعتیں پڑھی جاتی ہیں اور اس محفل پر بھی لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ بار بار مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔
جب یہ قوم اسلامی اُصولوں پر کاربند تھی تو حالت یہ تھی کہ بائیس لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی مملکت کے سربراہ (عمر فاروق) کے تہبند پر دس دس، بارہ بارہ پیوند لگے ہوتے تھے۔ لیکن جب ان میں ملوکیت بار پا گئی تو کیفیت یہ تھی کہ اُموی خلیفہ، ہشام بن عبدالملک جب حج کے لئے چلا ہے واضح رہے کہ سیر و تفریخ کے لئے نہیں حج کے لئے تو چھ سو اونٹوں پر صرف اس کے کپڑے لدے ہوئے تھے۔
حضرت عمرؓ کا خدشہ واقعی درست تھا۔ جب مدائن فتح ہوا۔ اس دن اتفاق سے جمعہ کا دن تھا۔ حضرت سعدؓ کو کسریٰ کے خزانوں سے تیس کھرب دینار ملے تھے اور محل میں جو ساز و سامان تھا اس کی قیمت کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ کسریٰ کا موتیوں کا ہار اور جواہرات سے مرصع تاج اور ریشمی ملبوسات اور بہت کچھ اہلِ مدینہ کی آنکھیں جو دیکھ رہی تھیں، ان کا ذہن باور نہیں کرتا تھا۔
ساٹھ مربع گز کا تو صرف قالین تھا جس پر مملکت کا نقشہ بنا ہوا تھا، جس کی زمین سونے کی تھی اور جابجا موتیوں کی نہریں تھیں۔ حضرت سعدؓ نے لکھا تھا کہ یہ تمام زر و جواہرات مسلمانوں کو ایسے ایسے مقامات سے ملے تھے جہاں انھیں کوئی دیکھنے والا نہیں تھا، لیکن ان میں سے کسی نے ایک سوئی بھی اپنے پاس نہیں رکھی۔
دوسری صبح جب سارا مالِ غنیمت صحنِ مسجد میں جمع کر دیا گیا تو حضرت عمرؓ نے اس پر ایک عبرت انگیز نگاہ ڈالی اور آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپک پڑے، عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا کہ امیرالمومنین! یہ تو مقامِ تشکر تھا۔ آپ رونے کیوں لگے؟ آپ نے جواب دیا کہ جس قوم میں دنیا کی فراوانی آ جائے، اس میں رشک اور حسد پیدا ہو جاتا ہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ ہمارا حشر ایسا نہ ہو۔
خدشہ درست تھا، اب مسلمان دنیا بھر میں رسوا ہو رہے ہیں۔