Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Arzoo Nadeem
  4. Bandon Ko Gina Karte Hain Tola Nahi Karte

Bandon Ko Gina Karte Hain Tola Nahi Karte

بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولہ نہیں کرتے

گوہر بٹ، عمران شفقت اور بہت سے دوسرے لوگ جمہوریت اور آئین کا بہت تذکرہ کرتے ہیں اور میں ان کے وی لوگ بڑے شوق سے دیکھا کرتی ہوں۔ بےنظیر بھٹو کا نام بھی جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے والوں میں آتا ہے۔ میں کافی دیر سے سوچ رہی تھی کہ جمہوریت کے بارے میں تفصیل سے لکھا جائے، یہ کالم خاص طور پر گوہر بٹ اور عمران شفقت اور بہت سے دوسرے لوگوں کے لئے، جن کا علم کا دائرہ جمہوریت کو ایمان کی حد تک درست سمجھنے پر ہے۔ میں نے جب مردِ دانا اقبال کو پڑھا اور اُس نے کہا کہ

جمہوریت اِ ک طرزِ حکومت ہے جس میں

بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولہ نہیں کرتے

میں نے جمہوریت اور دیگر نظاموں پر تحقیق شروع کی اور مختلف کتابیں کھنگا لیں۔

چھٹی صدی عیسوی میں، ساری دنیا میں، اندازِ حکومت ملوکیت تھا۔ جس کی رو سے راجہ کو ایشور کا اوتار، قیصر کو خدائی اختیارات کا حامل، کسریٰ کو زمین پر خدا کا سایہ سمجھا جاتا تھا۔ عین اُس ماحول میں قرآن نے آ کر کہا کہ "کسی انسان کو اس کا حق حاصل نہیں، خواہ اسے ضابطہ قوانین، حقِ حکومت اور نبوت بھی کیوں نہ مل گئی ہو، وہ لوگوں سے کہے کہ تم خدا کے نہیں بلکہ میرے محکوم بن جاؤ" (79\3)۔

اس ایک اُصول کی رو سے، قرآن نے ملوکیت تو ایک طرف، حکومت کی کوئی ایسی شکل باقی نہ رہنے دی، جس میں انسان دوسرے انسانوں پر حکومت کرے۔ اب رہا یہ کہ پھر حکومت ہو کس طرح سے؟ اس نے کہا کہ حکومت انسانوں کی نہیں ہوگی، بلکہ ان مستقل اقدار اور اُصولوں کی ہوگی جو خدا کی طرف سے عطا کئے گئے ہیں۔ ان اُصولوں کی چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے، اُمت اپنے زمانے کے تقاضے کے مطابق باہمی مشاورت سے اپنے معاملات طے کرے گی۔

اس میں مذہبی پیشوائیت کا بھی کوئی دخل نہیں ہوگا، اس لئے یہ نظام تھیا کریٹک بھی نہیں ہوگا۔ اس اُصول کے مطابق مسلمانوں نے نظامِ حکومت قائم کیا، جس کے انسانیت ساز نتائج وجہ شادابیّ عالم بن گئے۔ اس کے بعد، اس قوم نے اس اُصول کو چھوڑ دیا اور انسان پھر تنہا عقل کی رو سے، ایک اطمینان بخش نظامِ حکومت کی تلاش میں چل نکلا۔ ہزاروں خون ریزیوں کے بعد اس نظام تک پہنچا ہے، جسے اُس نے جمہوریت کے نام سے تعبیر کیا ہے۔

مغرب کے بڑے بڑے مفکرین اور سیاستدان اس نظام کے ہاتھوں نالاں ہیں۔ مثلاََ فرانسیسی مفکر Rene guenn اپنی کتاب crisis of the modern word میں لکھتا ہے:

"اگر لفظ جمہوریت کی تعریف یہ ہے کہ لوگ اپنی حکومت آپ قائم کریں تو یہ ایک ایسی چیز کا بیان ہے جس کا وجود ناممکنات میں سے ہے۔ جو پہلے کبھی وجود میں آئی ہے اور نہ آج کہیں موجود ہے۔ ایک ہی قوم بیک وقت حاکم اور محکوم نہیں ہو سکتی۔ ہماری موجودہ دنیا میں جو لوگ کسی نہ کسی طرح قوت اور اقتدار حاصل کر لیتے ہیں، ان کی سب سے بڑی قابلیت اس میں ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں یہ عقیدہ قائم کر دیں کہ ان میں کوئی حاکم نہیں بلکہ وہ خود اپنے آپ حاکم ہیں۔

عام رائے دہندگی کا اُصول اِسی فریب دہی کی خاطر وضع کیا گیا ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ اکثریت کی یہ مرضی ایک ایسی شے ہے جسے نہایت آسانی سے ایک خاص رُخ پر بھی لگایا جا سکتا ہے اور بدلہ بھی جا سکتا ہے۔ اقبال کے الفاظ میں

ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام

جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری

دیو اسبداد جمہوری قبا میں پائے کوب

تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

اکثریت کے فیصلوں کے متعلق ایک اور مفکر پروفیسر الفرڈ کوبن اپنی کتاب "the crisis of civilization" میں لکھتا ہے: "یہ اُصول بنیادی طور پر غلط ہے کہ اگر کسی غلط بات کو لاکھ آدمی بھی صحیح کہہ دیں تو وہ صحیح نہیں ہو سکتی۔ فیصلہ وہی صحیح ہو سکتا ہے جو درحقیقت صحیح ہو، نہ وہ کہ جسے زیادہ لوگ صحیح کہنا شروع کر دیں"۔

جس آئین کا تذکرہ بار بار تجزیہ نگاروں کی طرف سے ہوتا رہتا ہے اُس کے بارے میں قائدِاعظم نے کہا تھا کہ "پاکستان کا آئین آج سے چودہ سو سال پہلے ہی متعین ہو چکا تھا جو آج بھی خدا کی کتاب میں محفوظ ہے"۔

بات صرف اتنی سی ہے جو ہم اب تک سمجھ نہیں سکے کہ اسلام نظامِ زندگی ہے، یہ مذہب نہیں ہے، اور اس نظام کا مقابلہ دنیا کے دیگر نظاموں سے ہو سکتا ہے مثلاََ مارکسی نظام، مغرب کا جمہوری نظام، پارلیمانی نظام، سیکولر نظام وغیرہ۔ اقبال کے الفاظ میں جمہوریت کیا ہے؟

ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام

جس کے پردوں میں غیر از نوائے قیصری

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب

تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

دنیا بہترین نظامِ حکومت خلافتِ راشدہ کے دور میں دیکھ چکی ہے جو بظاہر شخصی حکومت کا دور نظر آتا ہے۔ جس میں حضرت عمر جو گیارہ لاکھ مربع میل ریاست کے حکمران تھے ان کی تہبند پر دس بارہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ میں بار بار اس بات کو دُہراتی ہوں کہ ہم نے پاکستان کا مطالبہ ہی اس لئے کیا تھا کہ ہم اسلام کے اُصولوں کو آزما سکیں اور وہی خلافتِ راشدہ کے دور کی یاد تازہ کر سکیں، اگر یہ سب کچھ ممکن نہیں تھا تو ہمیں خدا کے نام پر یہ مملکت حاصل کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

اُس دور میں دین سیاست سے الگ نہیں تھا اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ جب ہم نے دین کو سیاست سے الگ کر کے اس کو ذاتی معاملہ بنا دیا تو پھر کیا ہوا؟ پھر مسلمانوں میں ملوکیت بار پا گئی اور کیفیت یہ تھی کہ اُموی خلیفہ ہشام بن عبدالمالک جب سیر و تفریخ کے لئے نہیں بلکہ حج کے لئے چلا ہے تو چھ سو اُونٹوں پر اس کے کپڑے لدے ہوئے تھے۔

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔

Check Also

Fahash Tarkari

By Zubair Hafeez