Nabina Pan Ya Nazar Ki Kamzori
نابینا پن یا نظر کی کمزوری
نابینا پن یا نظر کی کمزوری کو پڑھنے اور سمجھنے سے پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ ہماری آنکھ کام کیسے کرتی ہے اور اس وقت دنیا بھر میں جزوی یا کلی طور پر نابینا افراد کی تعداد کیا ہے۔ اور کیسے یہ تعداد ہر سال مسلسل بڑھ رہی ہے؟
جب روشنی فوٹانز کسی چیز سے منعکس ہو کر آپ کی آنکھ تک پہنچتی ہے۔ تو سب سے پہلے آنکھ کے قورنیہ سے ٹکراتی ہے جو آنکھ کے اوپر ایک شفاف "حفاظتی" تہہ ہے یہ روشنی "قورنیہ" سے گزر کر آپ کی آنکھ کی "پتلی" سے ہوتی ہوئی ریٹنا تک پہنچتی ہے۔۔ اور پھر وہاں اس "Object" کا عکس بناتی ہے۔
آنکھوں کے سپیشلسٹ کا کہنا ہے کہ یہاں سے آپٹک نرو کے ذریعے اس "object" کا سگنل دماغ تک پہنچتا ہے۔ جہاں دماغ اسے "پراسیس" کرکے ہمیں دیکھنے کا تجربہ فراہم کرتا ہے۔۔ اگر ہم آنکھ کی ساخت پر غور کریں تو آنکھ کے سامنے ایک بیرونی شفاف تہہ ہوتی ہے جسے "قورنیہ" کہا جاتا ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں کانٹیکٹ لینز لگتے ہیں۔۔ اللہ ﷻ کی قدرت دیکھیں، اگر "قورنیہ" شفاف نہ ہوتی تو روشنی آنکھوں میں داخل نہیں ہوسکتی اور پھر ہم دیکھ نہیں سکتے۔ لہٰذا آنکھ کے اس حصے میں خون سپلائی کرنے کا نظام نہیں ہو سکتا آنکھ کے اس حصے کو بھی "آکسیجن" کی ضرورت ہوتی ہے۔ آنکھ کے اس حصے کو غذائیت فراہم کرنے کے لیے اللہ تعالی نے الگ سے نظام بنایا ہے جس کے ذریعے ایک شفاف مائع اس حصے کو ضروری اکسیجن اور دوسری "معدنیات" فراہم کرتا ہیں۔ اس مائع کو قورنیہ کے ٹشو تک پہنچانے کے لے باقاعدہ رگیں ہوتی ہیں جو آنکھ کے چاروں طرف موجود ہوتی ہیں۔ اور آپٹک نروو تک جاتی ہیں۔۔ اگر اس مائع کے بہاؤ کے نظام میں کوئی blockage ہوجائے، تو اس مائع کو سپلائی کرنے والی رگوں میں مائع کا دباؤ بڑھنے لگتا ہے اس دباؤ کی وجہ سے"آپٹک نروو" کو خون پہنچانے والی رگیں بھی دبنے لگتی ہیں اور آپٹک نروو کو خون کی سپلائی میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے اور اسطرح خون کی رکاوٹ سے ان نرووز کے خلیے مرنے لگتے ہیں۔ آنکھ کے ڈھیلے کی shape درست رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس میں مائع کا "دباؤ" ایک مخصوص رینج میں ہی رہے، اس سے کم یا زیادہ نہ ہونے پائے اگر آنکھ میں مائع کا پریشر بہت کم ہو جائے، تو آنکھ کا ڈھیلا پچک سکتا ہے چنانچہ آنکھ کے ڈھیلے کو درست حالت میں رکھنے کے لیے آنکھ کے اندر کے پریشر کو آنکھ کے باہر اس مائع کے پریشر کے برابر ہونا چاہیے۔
ماہرین نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ اگلی "چار دہائیوں" میں دنیا بھر میں"نابینا افراد" کی تعداد تین گنا بڑھ جائے گی لانسٹ گلوبل ہیلتھ رپورٹ کے مطابق، اگر بہتر امداد کے ذریعے دنیا کے لوگوں کے "بینائی" کے مسائل کا علاج نہ ہو سکا، تو سنہ 2050 تک دنیا میں اندھے پن کے شکار افراد کی تعداد تیس کروڑ ساٹھ لاکھ سے بڑھ کر "ایک ارب پندرہ کروڑ" تک پہنچ جائے گی۔ لمبی عمر بھی نابینا افراد کی تعداد میں اضافے کا ایک سبب ہے۔۔ جنوبی ایشیا اور نیم صحارائی افریقہ میں اندھے پن اور نظر کی کمزوری کے شکار افراد کی تعداد زیادہ ہے۔ اس تحقیق کے مطابق نظر کی کمزوری کے شکار افراد کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔۔ لیکن چونکہ دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے، اور لوگوں کی عمر میں اضافہ ہو رہا ہے اس لیے ماہرین نے یہ پیش گوئی کی ہے کہ آنے والی دہائیوں میں نابینا افراد کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔۔ دنیا کے 188 ممالک سے "موصول" ہونے والے "اعداد و شمار" کے مطابق دو ارب سے زیادہ آبادی کم سے "شدید نوعیت" کے امراض چشم کی طرف بڑھ رہی ہیں۔۔ یہ تعداد سال 2050 تک آبادی میں اضافے کے تناسب سے خطرناک سطح تک پہنچ سکتی ہے۔۔
پروفیسر رپرٹ بورنی جن کا تعلق انگلیا رسکن یونیورسٹی سے ہیں۔۔ کا کہنا ہے کہ تھوڑی سی بھی نظر کی "کمزوری" کبھی کبھی انسان کی زندگی پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔۔ جیسے کچھ لوگ اس مسئلے کی وجہ سے ڈرائیونگ نہیں کر پاتے، اور اپنی کہیں آنے جانے کی آزادی کھو بیٹھتے ہیں۔۔ وہ کہتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک میں تھوڑے انفراسٹرکچر کی مدد سے لوگوں کو دوبارہ کام کرنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔۔ سائٹ سیورز نامی امدادی ادارہ جو دنیا کے تیس 30 ممالک میں کام کرتا ہے کے مطابق آنکھ کے عدسے کے متاثر ہونے یعنی "آنکھ" میں"موتیا" آجانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔۔ انگلیا رسکن یونيورسٹی سے منسلک آنکهيں سپیشلسٹ ڈاکٹر عمران کا کہنا ہے، کہ بڑھتی عمر کی وجہ سے "دائمی امراض چشم" بڑھے ہیں۔۔ اور ہمارا اندازہ ہے کہ یہ غریب ممالک میں بڑھے گا۔ ان کے خیال میں ترقی پذیر ممالک میں صحت کا نظام بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔۔ اور ان ممالک میں زیادہ نرسوں اور ڈاکٹرز کی ضرورت ہے۔۔ جنھیں آنکھوں کی صحت کے طریقہ کار سے متعلق تربیت دی جائے۔۔ جنوبی ایشیا میں ایک کروڑ 17 لاکھ افراد آنکھوں کے مرض کا شکار ہیں جب کہ مشرقی ایشیا میں یہ تعداد 60 لاکھ 20 ہزار ہے اور جنوب مشرقی ایشیا کی تیس لاکھ 50 ہزار آبادی متاثر ہے۔ اسی طرح مغربی یورپ کی کل آبادی کا اعشاریہ پانچ فیصد حصہ متاثر ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنا ئزیشن کے اعداد و شمار نے بتایا کہ دنیا بھر میں 70 فیصد لوگ جنہیں طبی چشموں کی ضرورت ہوتی ہے وہ عینک حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔۔ یہ اعداد و شمار "سائنس ان فائیو" کی ایک "ٹی وی" قسط میں وسمیتا گپتا سمتھ نے پیش کئے۔ ہیلتھ آرگنائزیشن اپنے آفیشل پلیٹ فارمز پر پروگرام میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے بصارت کی ماہر ڈاکٹر سٹیورٹ کیل نے اظہار خیال کیا۔۔ پروگرام میں دنیا بھر میں"نابینا پن" کی بنیادی وجوہات کو بیان کیا گیا۔ کن افراد کو اندھے پن کا سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔۔ اور اندھے پن سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے بھی آگاہی دی گئی۔ ڈاکٹر سٹیورٹ کیل نے کہا کہ اندھے پن کی ایک اہم وجہ موتیا بند ہے۔ اس سے وقت کے ساتھ ساتھ بینائی میں تیزی سے دھندلا پن ہوتا ہے۔۔ کمزور بصارت اور اندھے پن کی دوسری بڑی وجہ وہ ہے جسے اضطراری خرابی کہا جاتا ہے۔۔ جن کی سب سے عام قسمیں نزدیکی یا دور کی بصارت کی کمی ہے۔۔ اضطراری خرابی آنکھ کی گیند جسے ریٹینا کہا جاتا ہے۔ غیر معمولی شکل یا لمبائی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ آنکھ میں داخل ہونے والی روشنی آنکھ کے پچھلے حصے پر صحیح طور پر مرکوز نہیں ہوپاتی۔