Dyslexia
ڈسلیکسیا
"اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے، کہ وہ اپنے بچے کے مثالی ماں باپ بنیں۔ اس کی ہر ضرورت پوری کریں۔ اور اس کی "زندگی" کو زیادہ بہتر اور بامقصد بنائیں۔۔ یہ سوال ہر ماں اور باپ کو درپیش رہتا ہے۔ کہ اس سلسلہ میں کیا وہ اپنی "ذمہ داریاں" صحیح طریقہ سے ادا کر رہے ہیں؟ اور کیا ان کا بچہ ان سے خوش ہے؟ اس فکر مندی کے باوجود اکثر والدین وہ نظر اور رویہ بھی نہیں رکھتے، جسکی بچے کو سخت ضرورت ہوتی ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق، ہر بچہ "قدرتی" طور پر محبت اور توجہ چاہتا ہے۔
لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنا مقام اور اپنی مستقل اور منفرد شناخت بھی چاہتا ہے۔ بچوں کی ضرورتیں ان کی خواہشیں اور انکے خوف، یہ تمام چیزیں ہم بھی جان سکتے ہیں اگر ہم ان کے قدم سے قدم ملا کر چلیں۔ ایک بچے میں بھی وہ تمام احساسات ہوتے ہیں، جو ایک بالغ شخص میں ہوتے ہیں، لیکن اس کے پاس تجربہ کی کمی ہوتی ہے۔ بچہ احساسات تو رکھتا ہے۔ لیکن ان کو بیان کرنے سے قاصر ہوتا ہے اپنے جذبات کو الفاظ کی شکل وہ نہیں دے سکتا۔ چونکہ آج ہمارا موضوع اسی سے متعلق ہے۔ لہذا آپ نے یہ مضمون اینڈ تک پڑھنا ہے کیونکہ یہ موضوغ آپ ہی کے بچوں کے متعلق ہے۔
یو گوو آن لائن سروے میں ایک ہزار پندرہ والدین کا انٹرویو کرنے پر معلوم ہوا کہ "نصف"بچوں کو کم "عمری" میں بولنے میں مسئلہ درپیش ہوتا ہے جسکے لیے ماہرین کی خدمات لی جاتی ہیں۔ یہ سروے برطانیہ کے پہلی "کمیونیکشن مہم" کا حصہ تھا۔ جس میں معلوم ہوا کہ کچھ بچے ایسے بھی ہیں۔ جو تین سال کی عمر تک پہنچنے تک ایک لفظ بھی ادا نہیں کرسکتے ہیں۔ سروے ٹیم کی مس جین گروس کا کہنا ہے کہ بچوں میں یہ مسئلہ بہت زیادہ ہے، اور ان کی جلد مدد کرنا ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ "کسی سے رابط کرنے کی صلاحیت بنیادی اہلیت اور اس میں دوسری چیزیں نیچے رہ جاتی ہیں۔ بول چال سیکھنا سب سے اہم مہارت ہے اور اکیسویں صدی میں بچوں کو اس میں"مہارت" حاصل کرنا ہوگی"۔ ایسے بچوں کی تعداد کافی زیادہ ہے جو بولنے کے عمل کو سیکھنے میں"مشکلات" کا شکار ہوتے ہیں اور خاص طور لڑکوں میں یہ مسئلہ زیادہ دیکھنے میں آیا ہے۔
یہ لازمی ہے کہ جتنا جلد ممکن ہوسکے، ایسے بچوں کو پیشہ وار ماہرین کی مدد فراہم کی جائے۔ بچوں کی اکثریت صحیح عمر میں پڑھنا لکھنا شروع کردیتی ہے لیکن کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں، جنکو پڑھنے لکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ، ایسے میں والدین سیکھنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالتے ہیں اور انھیں دوسرے بچوں کی "مثالیں" دیتے ہیں۔ بچے کے سیکھنے سمجھنے میں"دشواری" کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ (Dyslexia) بھی ہوسکتی ہے۔ اگر آپ کے بچے کو سیکھنے کے عمل میں مشکل پیش آتی ہے یا وہ پڑھنے لکھنے میں کم صلاحیت کا حامل ہے، یا اس کی اسکول میں کارکردگی بہتر نہیں ہے، تو یہ جاننے کی کوشش ضرور کریں کہ کہیں۔ آپ کے بچے کو Dyslexia تو نہیں، یہ کوئی ذہنی بیماری یا معذوری نہیں ہے۔ بلکہ اس کے شکار افراد کو الفاظ پڑھنے، پہچاننے، سمجھنے، یاد رکھنے اور لکھنے کے عمل میں دشواری محسوس ہوتی ہے، تاہم انہیں کند ذہن یا نکما نہیں کہا جاسکتا۔
اگر آپ کا بچہ /بچی سکول جانے سے ڈرتے ہیں، تو ٹیچر سے بات کرکے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ بچہ سکول میں کیوں خوشی محسوس نہیں کرتا۔ کیا اسکو سیکھنے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے، یا پھر وہ "غفلت" کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ "نفسیاتی مسائل"بھی آپ کے بچے کو سکول سے دور کرتے ہیں۔ سکول سے بھاگنے کے عمل میں نفسیاتی مسائل بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ اگر سکول بہتر ہے، گھر کا ماحول بھی درست ہے۔ لیکن اس کے باوجود بچہ سکول کو پسند نہیں کر رہا، تو پھر کوئی نفسیاتی مسئلہ بھی ہو سکتا ہے۔ اسے جاننے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ سکول کا بھی جائزہ لیا جائے۔ اگر وہاں کا ماحول بہتر نہیں، وہ بچوں کے نظم و ضبط پر دھیان نہیں دیا جا رہا، اساتذہ کا رویہ اچھا نہیں تو فورا اپنے بچے کا سکول تبدیل کرایا جائے کیونکہ یہ پہلا بہترین فیصلہ ہے، جو آپ اپنے بچے کی مستقبل کے لیے لے رہے ہیں۔
لیکن اس کے علاوہ آپکا بچہ/ بچی Dyslexia بھی ہوسکتی ہے۔ اب یہ کیا چیز ہے؟ فرض کریں اگر بچے کو اپنی آنکھوں کے سامنے حروف گھومتے نظر آتے ہیں، یا وہ حرف "ب" اور "پ" کے درمیان فرق نہیں کرپاتا، تو وہ کیسے بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے؟ یا استاد کی بات کو سمجھ سکتا ہے؟ یہ ایک بہت ہی سریس مسئلہ ہے۔ اس کو میڈیکل سائنس کی زبان میں Dyslexia کہتے ہیں۔ یعنی بچہ بعض حرف تہجی میں فرق نہیں کرپاتا۔ "ذ" کو "ز" کہہ لکھتے ہیں ح اور خ میں بھی فرق نہیں کرسکتے۔ انڈیا نے "Dyslexia" پر کافی موویز بھی بنائی ہیں۔ وہاں کے والدین اس چیز سے آگاہ ہیں۔ تارے زمین پر ان میں سے ایک مشہور فلم ہے۔ لیکن پاکستان میں بہت ہی کم لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ اب ایسے میں بچہ/بچی شدید پریشان رہتا/ رہتی ہے۔ جسکی وجہ سے ہر روز ان کی زندگی "مشکل تر" ہوتی چلی جاتی ہے، کیونکہ والدین اور ٹیچرز کا دباؤ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ ایسے میں بچہ ڈپریشن کا شکار ہوسکتا ہے۔
ایک ہی عمر اور "جماعت" کے بچوں کو ایک جیسا ہی لکھنا پڑھنا سکھایا جائے، تو سب بچے ایک جیسی "کارکردگی" کا مظاہرہ نہیں کرتے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہر بچہ بالآخر لکھنا پڑھنا سیکھ ہی جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ سیکھنے کے اس عمل میں ایک بچے کو "دوسرے" سے زیادہ وقت لگے، ایسی صورت میں والدین اور اساتذہ کو صبر واستقامت "دکھانے"کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے کو ڈانٹنے کے بجائے اس کے نہ سیکھنے یا اسے درپیش مشکل کی وجہ تلاش کرنی چاہئے۔
علامات:
ڈسلیکسیا کے شکار بچے کو بولنا "سیکھنے" میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ وہ الفاظ کا غلط تلفظ بھی کرسکتے ہیں شاعری کو مشکل محسوس کر سکتے ہیں، اور مختلف الفاظ کی آوازوں کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ بچے کو حروف کو آوازوں سے ملانا مشکل ہوسکتا ہے اور اسے الفاظ میں آوازوں کو پہچاننے میں دشواری ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ "ڈسلیکسیا" کی علامات اس وقت بھی پیدا ہو سکتی ہیں جب یہی بچہ زیادہ پیچیدہ "مہارتیں" سیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر گرائمر پڑھنے کی سمجھ، پڑھنے کی روانی، جملے کی ساخت اور گہری تحریر وغیرہ۔
کاغذ پر، ڈسلیکسیا کے شکار بچے اعداد اور حروف کو الٹ لکھ سکتے ہی۔ اس کے علاوہ بعض بچے الفاظ کی پروسیسنگ میں بھی غلطی کرتے ہیں۔ اگر کسی لفظ میں دو سے زیادہ حرف ہیں، تو صحیح آواز نکالنے میں مشکل ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، لفظ "Unfortunately " میں، ڈسلیکسیا کا شکار شخص "un" اور "ly" کی آوازوں پروسیس کر سکتا ہے۔ لیکن ان کے درمیان میں نہیں۔۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈیسلیکسیا کے شکار افراد کو اکثر توجہ مرکوز کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یعنی چند منٹ پڑھنے یا لکھنے کے بعد وہ ذہنی طور پر تھکن محسوس کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ عام آبادی کے مقابلے میں، ڈسلیکسیا میں مبتلا بچوں کی ایک بڑی تعداد میں توجہ کی کمی ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر (ADHD) بھی ہے۔
ڈسلیکسیا کا کوئی علاج نہیں ہے، لیکن مختلف طریقوں سے روزانہ کے کاموں کو بہت آسان بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
ڈسلیکسیا ہر فرد کو "مختلف" طریقے سے متاثر کرتا ہے، اور زیادہ تر لوگ اپنے "سیکھنے" کے فرق کو "ایڈجسٹ" کرنے اور ترقی کی منازل طے کرنے کے طریقے تلاش کرتے ہیں۔ اس کا مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ اس پر کافی وقت لگ سکتا ہے۔ لہذا اگر آپ کا بچہ /بچی ڈسلیکسیا کا شکار ہے تو ان سے سکول میں"کمپیٹیشن" کی امید نہ رکھیں اور ان کو فورس کریں کیونکہ وہ مقابلہ کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔