Zindagi Ki Talash Mein Maut Ka Safar
زندگی کی تلاش میں موت کا سفر
اکثر آپ نے میلوں میں موت کا کنواں دیکھا ہو گا، جہاں موٹر سائیکل سوار یا کار ڈرائیور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر موت کے کنویں کی گول دیواروں پر تیزی سے اپنی موٹر سائیکل یا کار دوڑاتا ہے، خدانخواستہ کسی خرابی کی وجہ سے ڈرائیور کی گاڑی بند ہو جائے یا وہ اپنا بیلنس نہ رکھ پائے تو اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے، مرضی سے موت کے کنوئیں میں پرفارم کرنے کی وجہ سے اپنی موت کا ذمہ دار وہ خود ہی کہلاتا ہے۔
ٹھیک اسی طرح پناہ گزین جب جنگ، ظلم و تشدد، نقص امن، سیاسی یا دیگر وجوہات کی بناء پر اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر غیر ملک میں پناہ لینے کے لئے خطرناک جنگلوں، صحراوں، دریاوں اور سمندروں کا سفر کرتے ہیں تو ا ن کا یہ سفر موت کا سفر کہلاتا ہے۔ جسے طے کرنے کے دوران ہزاروں پناہ گزین یا تو ہلاک ہو جاتے ہیں یا لاپتہ ہو جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سن 2022 کی پہلی سہ ماہی کے دوران تقریباََ اٹھارہ ہزار سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن نے یورپ پہنچنے کے لیے بحیرہ روم کو عبور کیا، مجموعی طور پر، پچھلے آٹھ سالوں میں 2 سے 3 ملین افراد نے یہی سفر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سن 2014 سے لے کر سن 2021 کے درمیانی عرصہ میں تقریباََ چوبیس ہزار چار سو سے زیادہ افراد بحیرہ روم کو عبور کرنے کی کوشش میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔
بین الاقوامی ویب سائٹ میں شائع خبروں کے مطابق رواں برس اپریل کے مہینے میں شمالی افریقی ملک تیونس کے ساحلوں کے قریب یورپ کی طرف سفر کرنے والے افریقی تارکین وطن کی دو کشتیاں سمندر میں ڈوب جانے سے تیرہ افراد ہلاک ہو گئے۔ جن میں چھ خواتین اور چھ بچے بھی شامل تھے۔ اسی طرح ایک اور خبر کے مطابق مارچ میں مراکش کے ساحل پر کشتی میں سوار خواتین اور نوزائیدہ بچوں سمیت چوالیس تارکین وطن اسپین پہنچنے کی آس دل میں لئے ڈوب گئے۔
اس کے باوجود موت کے سفر میں بچ جانے والے خوش نصیب پناہ گزینوں کو جو زندگی ملتی ہوتی ہے، اس کو وہ موت سے بھی بدتر کہتے ہیں کیونکہ وہ ساری عمر بنیادی حقوق سے محروم رہتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس وقت 82 ملین سے زائد افراد نسلی تعصب، مذہبی کشیدگی، امتیازی سلوک، جنگ، تشدد، ظلم وستم یا سیاسی تناؤ سے اپنے کنبے کو بچانے کے لئے اپنا گھر بار، اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ممالک میں پناہ گزینوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
بدقسمتی سے خراب حالات اور واقعات کے شکار افراد جن مصائب سے بچنے کے لئے جلا وطنی اختیار کرتے ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ مشکلات ان کو دیار غیر میں برداشت کرنی پڑ جاتی ہیں۔ سن 1951 اور 1967 میں رفیوجی کنونشن میں پناہ گزینوں کے حقوق اور میزبان ممالک کی ذمہ داریوں پر سب سے پہلے روشنی ڈالی گئی۔ لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر کئی ممالک پناہ گزینوں کو ان کے حقوق فراہم نہیں کر رہے، اسی شعور کو اجاگر کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہر سال 20 جون کو پناہ گزینوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
یہ عالمی دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کردہ قرار داد کے فیصلے کے نتیجے میں سن 2000 سے منایا جا رہا ہے، اس سال اس دن کا موضوع ہے "جو بھی، جہاں بھی، جب بھی۔ ہر کسی کو تحفظ حاصل کرنے کا حق ہے۔ " اقوام متحدہ کے بیا ن کردہ اسی تحفظ اور بنیادی حقوق کی تلاش میں شام کے بیس لاکھ سے زائد افراد اردن، لبنان، ترکی اور عراق میں پناہ گزینوں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح اسرائیلی جارحیت کے باعث ہزاروں فلسطینی مسلمان اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
جبکہ قابض اسرائیلی حکومت روس اور یوکرین کی جنگ کی آڑ میں پچیس ہزار سے زائد یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین میں آباد کر چکی ہے۔ افغانستان کے چھبیس لاکھ سے زائد افراد مہاجر کی حیثیت سے دوسرے ممالک میں پناہ گزین کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ عراق کے چودہ لاکھ چھبیس ہزار افراد، صومالیہ کے دس لاکھ سات ہزار اور سوڈان کے پانچ لاکھ سے زائد افراد دوسرے ممالک میں پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اسی طرح مقبوضہ کشمیر اور انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کر کے انھیں پناہ گزین بننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو چاہئے کہ اس عالمی دن کے موقع پر مودی حکومت سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کو پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے پر مجبور کرنے والے ممالک کا سماجی و معاشی بائیکاٹ کروانے کے لئے اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔