Youm e Takbir
یوم تکبیر
جرمن کے دو سائنس دانوں "آٹوہان" اور"قرٹز سٹراسمان" نے سن 1938ء میں پہلی مرتبہ انکشاف کیا کہ دنیا میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کے لئے یورینیم دھات سے ایک بہت خطرناک قسم کا بم (ایٹم بم) بنایا جا سکتا ہے۔ جب ایڈولف ہٹلر کو یہ بات پتہ چلی تو اس نے سائنس دانوں کو حکم دیا کہ وہ یورینیم سے جلد ایٹم بم بنائیں تاکہ وہ دنیا میں تباہی پھیلا کر راج کر سکے۔ اس سے پہلے کہ ہٹلر کا دنیا پر راج کرنے کا خواب پورا ہوتا اُس نے خود کشی کر لی۔
ایڈولف ہٹلر کو ایک کروڑ دس لاکھ افراد کا قاتل بھی کہا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم بھی اسی کی وجہ سے شروع ہوئی جس میں پانچ کروڑ لوگ مارے گئے۔ ذرا اندازہ لگائیں ہٹلر نے ایٹم بم کے بغیر ہی کتنے کروڑوں لوگوں کی جان لے لی اگر اس کو ایٹم بم مل جاتا تو شائد وہ دنیا میں کسی کو بھی جینے نہ دیتا۔ اس دور میں ہٹلر کا ایٹم بم بنانے کا منصوبہ تو مکمل نہ ہو سکا لیکن امریکہ نے ایٹم بم پر خفیہ پروگرام شروع کر دیا۔
مشہور سائنس دان البرٹ آئن سٹائن نے جب اس وقت کے امریکی صدر "فرینکلن روز ویلٹ" کو ایک خط کے ذریعے اطلاع دی کہ نازی ایٹم بم بنا رہے ہیں تو امریکی صدر نے حکومتی سطح پر ایٹم بم کی تیاری شروع کر دی جس کے نتیجہ میں امریکہ کا ماہر طبیعات "رابرٹ اوپین ہائیمر" دنیا میں پہلا ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہو گیا جس کا تجربہ سن 1945 میں میکسیکو کے ریگستان میں کیا گیا اس ایٹمی تجربہ کو "ٹرینٹی" کا نام دیا گیا۔
امریکہ نے بعد میں یہی ایٹم بم ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے جس سے ایک بہت بڑی انسانی و زمینی تباہی ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباََ ڈیڑھ سے ڈھائی لاکھ لوگ راکھ اور موم کا ڈھیر بن گئے اس کے باوجود آج تک وہاں ایٹم بم کے منفی اثرات ختم نہیں ہو سکے۔ پہلا ایٹم بم بنانے والے ماہر طبیعات "رابرٹ اوپین" کو جب پتہ چلا کہ اس کے بنائے ہوئے ایٹم بم سے لاکھوں لوگ مارے گئے ہیں تو وہ بے حد دکھی ہوا اور بم دھماکوں کے دو ماہ بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہو گیا۔
ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم کے دھماکوں کے بعد دنیا جان چکی تھی کہ ایٹم بم کی تباہی کے اثرات نہ ختم ہونے والے ہیں اس کے باوجود انڈیا کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی اور سابق حکمرانوں پر ہر وقت ایٹمی اسلحہ کی دوڑ کا بھوت سوار رہا ہے۔ انڈیا نے امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا کے تعاون سے جب 18 مئی 1974 کو ایٹم بم کا پہلا تجربہ کر کے ایٹمی اسلحہ کی دوڑ شروع کی تو اُس وقت پاکستان کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچا تھا کہ انڈیا کے ساتھ طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے ایٹم بم بنانے کی تیاری کرے۔
لیکن اس وقت پاکستان کے پاس نہ تو خاطر خواہ وسائل تھے اور نہ ہی ایسے تجربہ کار سائنس دان تھے، پاکستان کے پاس صرف ایک جذبہ حب الوطنی تھا جس کے بل پوتے پر اس وقت کے وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو نے فوراً پاکستانی ایٹمی منصوبہ شروع کیا۔ 11 مئی 1998 کو ایک مرتبہ پھر انڈیا نے اپنی برتری دکھانے کے لئے ایٹمی دھماکے کئے تو دنیا بھر کی نظریں پاکستان پر مرکوز ہو گئیں۔ انڈیا نے تین ایٹمی دھماکے کرنے کے دو روز بعد 13 مئی کو مزید دو ایٹمی دھماکے کر دیئے۔
خوش قسمتی سے اُس وقت تک پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکا تھا بس دنیا کو اس ایٹمی صلاحیت کا مظاہرہ کر کے دکھانے کی دیر تھی۔ اس سے قبل کہ پاکستان انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کا جواب دیتا، امریکہ سمیت متعدد عالمی طاقتوں نے اس وقت کے وزیراعظم محمد نواز شریف پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ جواباََ ایٹمی دھماکے ہر گز نہ کئے جائیں۔
کبھی اقتصادی پابندیوں کی دھمکیاں دی گئیں تو کبھی اربوں ڈالرز کے پیکج کا لالچ دیا گیا لیکن نواز شریف نے عالمی دباؤ اور پیشکش کو یکسر مسترد کر دیا اور پھر 28 مئی 1998 کے روز سہ پہر 3 بج کر16 منٹ پر ایک بٹن پریس ہوتے ہی ایسا زور دار ایٹمی دھماکہ ہوا کہ بلوچستان کا چاغی پہاڑ شعلوں سے دہکتا ہوا سنہرا پہاڑ بن گیا۔ انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کر کے نواز شریف نے پاکستان کو عالم اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی طاقت بنا دیا۔
اس عظیم کامیابی کا کریڈٹ نواز شریف، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک مند، شہید ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ ان ہزاروں گمنام پاکستانیوں کو بھی جاتا ہے جنھوں نے ایٹمی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں تعاون و مدد کی۔ پی ٹی وی پر قوم سے خطاب کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف نے تاریخی الفاظ میں انڈیا کو کہا کہ "آج ہم نے اُن کا بھی حساب چکا دیا ہے۔ "