Khatoon Police Officer Ki Bahaduri
خاتون پولیس افسر کی بہادری
سوشل میڈیا پر پاکستان کی ایک خاتون پولیس آفیسر کی ویڈیو دنیا بھر میں وائرل ہو رہی ہے جو ڈنڈا پکڑے سختی سے لوگوں کو گھروں سے نکل کر محفوظ مقام پر جانے کا کہہ رہی ہے۔ خاتون پولیس آفیسر کی مزید ویڈیوز اور تصویریں وائرل ہوئیں جسے دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین کو یہ بات معلوم ہوئی کہ خاتون کا نام قراۃ العین وزیر ہے جو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں اسسٹنٹ کمشنر ہے۔
نیٹ یوزرز نے ویڈیوز میں دیکھا کہ خاتون پولیس افسر پانی میں ڈوبی گلیوں، محلوں میں جا کر اپنے ڈنڈے سے لوگوں کے گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کر انھیں کسی محفوظ مقام پر منتقل ہونے کے لئے سختی سے کہہ رہی ہے۔ دراصل سوات کے مختلف علاقوں میں تباہی مچانے کے بعد سیلاب چارسدہ اور نوشہرہ کی جانب بڑھ رہا تھا جس کے متعلق قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے نیشنل ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے وارننگ بھی جاری کی تھی۔
جس کے بعد وہاں انتظامیہ کی جانب سے لاوڈ سپیکر پر بار بار اعلانات کئے گئے کہ مقامی رہائشی فوری طور پر وہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل ہو جائیں لیکن بارہا اعلان کے باوجود بیشتر مقامی لوگوں نے چوری کے ڈر سے اپنے گھر نہ چھوڑے۔ جس پر خاتون افسر نے پولیس کا روائتی انداز اپناتے ہوئے ڈنڈا پکڑا اور دروازے کھٹکھٹا کر لوگوں کو سختی سے وہاں سے منتقل کرنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس شہر میں رہنے والے تمام لوگوں کو بروقت محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا اس طرح وہ سب خوفناک سیلابی ریلہ میں ڈوبنے سے بچ گئے۔
خاتون پولیس افسر کے کارنامہ کو سراہا جانے لگا۔ یہ شائد پہلا موقع تھا کہ سوشل میڈیا صارفین اور عام لوگوں نے پولیس کے روائتی انداز کو نہ صرف پسند کیا بلکہ دبنگ خاتون آفیسر کی بہادری پر اسے خوب داد بھی دی۔ ایک رپورٹ کے مطابق نوشہرہ سے دو لاکھ تیس ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ پولیس آفیسر قراۃ العین وزیر اگر لوگوں پر اس طرح سے سختی نہ کرتیں تو خدانخواستہ وہاں بہت سی ہلاکتوں کا اندیشہ تھا۔
پاکستان ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی روزانہ کی بنیاد پر جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق غیر معمولی اور طویل بارشوں کے نتیجہ میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے چودہ جون سے لے کر اٹھائیس اگست تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ مجموعی طور پر تین کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ آبادی متاثر ہوئی ہے، ملک میں سیلاب کی وجہ سے اب تک ہونے والے نقصانات کا تخمینہ نو سو ارب روپے لگایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملک کے 110 اضلاع میں جانی نقصان کے علاوہ 10 لاکھ سے زائد مکانات اور عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں سات لاکھ سے زائد مویشی سیلابی ریلہ میں بہہ چکے ہیں اور فصلیں مکمل برباد ہو چکی ہیں۔ سیلابی ریلے سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ میں تباہی پھیلانے کے بعد پنجاب میں داخل ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے میانوالی میں سیلاب کا خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ دریائے راوی کے نزدیک مختلف مقامات پر قائم آبادیوں کو سیلاب کا خطرہ ابھی بھی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ سیلاب کے دوران اموات کی شرح بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب لوگوں کو سیلاب کی اطلاع دی جاتی ہے تو وہ فوری طور پر خود کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کی بجائے خام خیالی میں مبتلا رہتے ہیں کہ وہ سیلاب سے باآسانی نمٹ لیں گے، آپ نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی کئی ویڈیوز میں دیکھا ہو گا کہ سیلابی ریلے جب کسی پُل یا سڑک کے اوپر سے گزر رہے ہوتے ہیں تو کوئی موٹر سائیکل سوار یا کار ڈرائیور غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل سیلابی ریلے میں سے گزارنے کی کوشش میں ڈوب جاتے ہیں۔
یہ وہ بدقسمت افراد ہیں جو خود موت کو گلے لگا لیتے ہیں، ان کو اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ سیلابی ریلہ اس قدر تیزی سے بہہ رہا ہوتا ہے کہ اگر ایک بڑا ٹرک بھی اس کے راستے میں آ جائے تو وہ اسے بھی باآسانی اپنے ساتھ بہا کر لے جا سکتا ہے۔ ملک میں سیلاب آتے ہی منافع خور مافیا بھی متحرک ہو گیا ہے سیلاب کا بہانہ بنا کر اشیائے خورد و نوش، سبزیاں، پھل، گوشت مہنگے داموں بیچے جا رہے ہیں۔ پنجاب حکومت کو چاہیے کہ وہ ناجائز منافع خوری کرنے والے دکانداروں اور مافیا کے خلاف ٹھوس اقدامات کرے۔
آخر میں مخیر حضرات اور معاشرے کے ہر فرد سے اپیل ہے کہ وہ سیاسی وابستگی یا باہمی رنجش کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد کے لئے متحد ہو کر عطیات جمع کروائیں تاکہ ملک دشمن عناصر کو بھی یہ پیغام مل جائے کہ ہم سب پاکستانی ایک تھے، ایک ہیں اور ہمیشہ ایک ہی رہیں گے۔