Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Iqbal Shahid
  4. Likhne Ka Wabal Aur Parhne Ka Azab

Likhne Ka Wabal Aur Parhne Ka Azab

لکھنے کا وبال اور پڑھنے کا عذاب

ہم میں سے ہر خاص و عام اور عالم و جاہل اس بات سے بخوبی واقف ہے۔ کہ معاشرے میں کیا کیا مسائل چل رہے ہیں۔ اور ہر ایک اس بات کا خواہاں بھی ہے کہ یہ مسائل حل ہو جائیں۔ اور اس کے لیے اس کے پاس ہر قسم کا تجزیہ، تجاویز بھی موجود ہوں گی، تبھی تو آج کل ہر دوسرا بندہ شاعر، دانشور (خود ساختہ) بنا ہوا ہے۔ اسے اب رابطوں کی دنیا کا فائدہ کہہ لیں یا نقصان۔ مگر اس سب کے باوجود معاشرتی برائیوں کاگراف بلند ہوتا جاتا ہے اور اخلاقی پستی کامعیار گرتا ہی چلا جا رہا ہے۔ کچھ بنیادی رویے اور عادات جب تک نہیں تبدیل ہوں گی، تب تک تبدیلی کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جا سکتا۔

اب سوال یہ ہے۔ کہ علم و دانش کی اتنی فراوانی کے باوجود ہم پیچھے کیوں جا رہے ہیں، ہمارے مسائل کیوں حل نہیں ہونے کا نام لیتے، کیوں ہم علم کی تاثیر نہیں پا رہے ہیں؟ جی اس کا تعلق دو چیزوں سے ہے۔ ایک یہ کہ ہمارے دانشور (کچھ کو لوگ سمجھنے لگتے ہیں، اور کچھ خود کو لوگوں کی وجہ سے، حقیقی تو بہت کم ہی ہیں) کیا لکھتے ہیں، بولتے ہیں اور دوسرا یہ کہ ہم کیا پڑھتے اور سنتے ہیں۔

اب خوش قسمتی سے یا بد قسمتی سے ہمارے ہاں دانشور بننا بہت آسان ہے۔ آپ کسی بھی شعبہ سے ہیں، جو بھی آپ کی تعلیی قابلیت ہے، جو بھی آپ کا پیشہ یا پسِ منظر ہے، اس سے قطعِ نظر بس کاغذ قلم اٹھائیے، آج کا کوئی بھی سماجی یا سیاسی (یہاں تک کہ دینی بھی) مسئلہ دیکھئے اور اس میں اخلاقیات کے دو چار فقرے ڈالیے، ہو سکے تو احادیث کا حوالہ بھی دے دیجئے اور ہاں چند مصرعے یا اشعار ضرور شامل کر لیجئے ( اقبال کے زیادہ مقبول ہیں، چاہے آپ کو ان کا مطلب پتہ ہو یا نہ ہو)۔ اور وقت اجازت دے تو گوگل سے بھی تھوڑی مدد لے لیجئے۔ بس دو تین تحریریں سوشل میڈیا پہ ڈال دیجئے (یا ڈلوا دیجئے)۔ لیجئے ایک ہفتے میں دانشور تیار ہے۔ اسی فارمولا میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے شعرا، صحافی اور تجزیہ کار، ذاکرین اور عالم بھی تیار کیے جا سکتے ہیں۔ میری نظر میں ایسے لوگ محض "فیس بکی دانشور" ہیں جو اپنے فائدے کے لیے لوگوں کی جہالت اور جذبات کا استعمال کرتے ہیں۔

اب ذرا آگے آکے دیکھئے۔ کچھ ایسے لوگ جو علمی پسِ منظر رکھتے ہیں، مطالعہ بھی رکھتے ہیں لیکن نظر (vision) سے محروم ہیں۔ ان کو اپنی قابلیت کا اتنا ناز ہے کہ یہ ہر مسئلہ کے اوپر اپنی رائے قائم کرنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں چاہے وہ مسئلہ ان کے علم کے متعلقہ ہے یا نہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے۔ کہ کمپیوٹر سائنس کے لوگ سماجیات اور نفسیات پہ بھاشن دے رہے ہوتے ہیں، اسلامیات کے لوگ سیاسی اور طبی مسائل پر طبع آزمائی کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اقبالیات کی جس طرح سے "انجینیئرنگ" کی جاتی ہے وہ بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس تو علم کا بحرِ بیکراں ہے۔ بس اسی خوش فہمی میں لمبی لمبی باتیں تو بہت چھوڑی جاتی ہیں مگر قارئین پر اثر جو بیداری یا تبدیلی کی شکل میں نظر آنا چاہئے وہ نہیں ہوتا۔

لکھنے والوں کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے۔ کہ وہی کتابی اور قدیم طرز کو اپنائے ہوئے ہیں۔ تجزئے اور تجاویز شامل کر دیتے ہیں مگر تحریک نہیں دیتے لوگوں کو، گویا تبلیغ برائے تبلیغ ہی کیے جا رہے ہوں۔ علم کی دھاک بٹھاتے اور تصانیف (اور ویڈیوز، آرٹیکلز) کی تعداد میں اضافہ کرتے جاتے ہیں مگر کبھی یہ نہیں سوچا کہ اتنا کچھ لکھنے کا فائدہ کتنا ہوا ہے؟ لوگوں کی سوچ کس قدر تبدیل ہوئی، رویے کس قدر تبدیل ہوئے!

اب پڑھنے والوں سے میری گزارش یہ ہے۔ کہ چاہے آپ آن لائن پڑھ رہے ہیں، یا کتاب کی شکل میں یہ خیال ضرور رکھیں کہ آپ کس کو پڑھ رہے ہیں، مصنف کا کیا تعارف ہے، کس شعبہ سے تعلق ہے، تعلیمی قابلیت کیا ہے۔ یہ سپیشلائزیشن (specialization) کا دور ہے۔ کسی کے پاس وقت نہیں ہے فضول بحث میں پڑنے کا۔ اس لیے اس کو پڑھیں جو متعلقہ مسائل میں ماہر ہو، اسلامیات کے علم کے حصول کے لیے سماجیات والوں کو نہ پڑھیں اور سیاسیات کے متعلقہ مسائل کمپیوٹر والوں سے نہ پوچھیں۔ اور ادب کا سوال سائنس والوں کے سامنے نہ رکھیں۔ ورنہ آپ صرف اور صرف اپنا وقت اور توانائی ہی برباد کریں گے، حاصل کچھ نہیں ہوگا۔

ہمارے سماج کا المیہ یہی ہے۔ کہ یہاں ہر بندہ باقی سارے کام کر لیتا ہے سوائے اس کے اپنے کام کے۔ آگے بڑھنا ہےتو سمجھنا چاہئے۔ کہ کس سوال کا جواب کس کے پاس ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم دماغ کے مرض کی دوا لینے گردے کے ڈاکٹر کے پاس پہنچے ہوئے ہیں۔ لکھنے والوں سے بھی یہی گزارش ہے کہ اپنے متعلقہ شعبہ تک محدود رہیں، اسی میں مہارت اور قابلیت پیدا کریں، اور مسائل کو عملی طور پر حل کرنے میں کردار ادا کریں۔ شہرت اور ہر فن مولا بننے کی خواہش میں اپنا اور سماج کا وقت نہ برباد کریں۔

ہوا یوں کہ ایک مصنف کا ایک "وسیع و عریض" تجزیہ نظر سے گزرا۔ جو دو درجن کے قریب کتابیں بھی تصنیف کر چکے ہیں اور لاکھوں فالورز رکھتے ہیں سوشل میڈیا پر۔ پڑھنے کے بعد کچھ شکوک و شبہات نے ذہن میں جنم لیا، اس لیے مصنف کے متعلق مزید معلومات لی۔ مگر اتنا ہی پتہ چلنا مرے لیے کافی ہو گیا کہ موصوف کی ماسٹرز کی ڈگری کمپیوٹر سائنس میں ہے مگر ایم۔فل "سوشل سائنسز" میں ہے۔ مری سمجھ سے تو بالا تر تھا سوشل سائنسز میں ایم فل کیسے ہو گئے کمپیوٹر پڑھنے کے بعد۔ مزید یہ بھی کہ "سوشل سائنز" کوئی ایک مضمون تو ہے نہیں، کم از کم مضمون کا نام ہی ظاہر کر دیتے!!

یہ تو محض ایک مثال ہے۔ اور پتہ نہیں لا علمی میں ہم روزانہ کی بنیاد پر "کتنا کچھ" اور "کہاں کہاں " سے آیا ہوا پڑھ، دیکھ اور سن رہے ہوتے ہیں۔

ذدا سوچئے!

Check Also

Pakistan Stock Market Mein Tareekh Saaz Tezi

By Rehmat Aziz Khan