Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hussnain Nisar
  4. Kahani Aik Cipher Ki

Kahani Aik Cipher Ki

کہانی ایک سائفر کی

اہم ترین سوال جو مختلف لوگ اٹھاتے رہے وہ "سائفر" نام کی شے کے بنیادی حقائق سے بھی آگاہ نہیں تھے۔ اس ضمن میں وسیع پیمانے پر پھیلی بےخبری نے مجھے انتہائی دُکھ سے اس حقیقت کو ایک بار پھر شدت سے تسلیم کرنے کو مجبور کیا کہ ہمارے نام نہاد میڈیا کے مچائے شور کے باوجود ہم عوام کو سمجھا ہی نہیں پائے کہ "سائفر" کیا بلا ہے۔ اس کی مبادیات کو بیان کئے بغیر ہم صحافی عمران خان صاحب کی اندھی نفرت یا عقیدت میں مبتلا ہوئے افراد کی محض من پسندانہ توجیہات ہی بیان کرنے میں مگن ہیں۔

عمران خان صاحب کے حامی نظر بظاہر جائز بنیادوں پر یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر ان کے قائد کے خلاف امریکہ نے واقعتاََ کوئی "سازش" نہیں رچائی تھی تو موجودہ حکومت مشہور زمانہ سائفر کی "کاپی" منظر عام پر کیوں نہیں لا رہی؟ خان صاحب سے منسوب جو آڈیو لیک حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے وہ یہ حقیقت بھی منظر عام پر لائی ہے کہ ایک کائیاں سیاستدان کی طرح سابق وزیراعظم اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت کو "سائفر" کے بنیادی لوازمات کی خبر نہیں۔

وہ اسے ایک خط یا "مراسلہ" تصور کرتے ہیں جو واشنگٹن میں مقیم ہمارے سفیر نے ایک امریکی سفارت کار سے ملاقات کے بعد اسلام آباد کو آگاہ کرنے کے لئے ویسے ہی انداز میں لکھا تھا جیسے مثال کے طور پر میں یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ عمران خان صاحب جن دنوں"سائفر" کی دہائی مچانا شروع ہوئے تو ہماری وزارت خارجہ کا یہ پیشہ وارانہ فرض تھا کہ وہ اپنے ترجمان کے ذریعے فقط اس نوعیت کے مراسلے کے بنیادی اوصاف عوام کو سمجھا دیتے۔

مان لیتے ہیں کہ سرکاری افسروں کی چند مجبوریاں ہوتی ہیں۔ ان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ "حکومت" تصور ہوتے سیاستدان کے پھیلائے بیانیے کو "رد" کرتے سنائی دیں۔ "آف دی ریکارڈ" اور "ڈیپ" نام کی بھی تاہم چند بریفنگز ہوتی ہیں۔ وزارت خارجہ کے حکام عوام میں مقبول شمار ہوتے صحافیوں اور اینکر خواتین و حضرات کے منتخب گروپ کے ساتھ اس نوعیت کی بریفنگ کا اہتمام کر سکتے تھے۔

بعد ازاں"ذمہ دار ذرائع" سے منسوب کرتے ہوئے حقیقت لوگوں کو سمجھائی جا سکتی تھی۔ افسروں کو مگر اپنی نوکری بچانا ہوتی ہے۔ حکومت وقت کو ناراض کرنے کی جرات نہیں دکھاتے اور یوں میری دانست میں پیشہ وارانہ بددیانتی نہ سہی غفلت کے مرتکب یقیناََ ہوتے ہیں۔ "سائفر" کے حوالے سے بنیادی حقیقت یہ ہے کہ وہ عام زبان میں نہیں لکھا جاتا۔ جو پیغام پہنچانا ہو اسے خفیہ زبان میں لکھنا ہوتا ہے۔ سفارتی زبان میں اسے "کوڈ" کہا جاتا ہے۔

دنیا بھر کی جاسوسی ایجنسیاں ہمیشہ اس تڑپ میں مبتلا رہتی ہیں کہ وہ اس "کوڈ" تک رسائی حاصل کر پائیں جو ان کے حریف ممالک خارجہ امور کی بابت پیغام رسانی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ "کوڈ" میں جب کوئی اہم پیغام لکھ دیا جائے تو وزارت خارجہ میں وصول ہو جانے کے بعد زیر استعمال "کوڈ" سے آگاہ افسر ہی اسے "ڈی کوڈ" کر سکتے ہیں۔

اہم ترین موضوع پر جب کوئی "سائفر" مل جائے تو اسے "ڈی کوڈ" کرنے کے بعد جو مضمون تیار ہوتا ہے اسے ہماری ریاست کے پانچ اہم ترین افراد کے علاوہ کسی اور کے دیکھنے کا اختیار ہی حاصل نہیں۔ وزارت خارجہ کے کلیدی مدارالمہام کے علاوہ جن دیگر افراد تک "ڈی کوڈ" ہوئی جو "کاپی" بھیجی جاتی ہے اصولی طور پر اسے پڑھ کر فی الفور ضائع کر دیا جاتا ہے۔ فقط وزارت خارجہ کے ریکارڈ ہی میں اسے اپنی اصل صورت میں محفوظ رکھا جاتا ہے۔

خفیہ زبان یا "کوڈ" میں جو پیغام رواں برس کے آغاز میں واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر نے اسلام آباد بھجوایا اس کی "کاپی" میرے اور آپ ہی کے نہیں صدر مملکت، وزیراعظم، آرمی چیف یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے روبرو بھی رکھ دی جائے تو وہ اسے سمجھ نہیں پائیں گے۔ اس کے ذریعے پیغام کو سمجھنے کے لئے انہیں اس شخص یا افراد کی "گواہی" درکار ہو گی جنہوں نے مذکورہ "سائفر" کو "ڈی کوڈ" کیا تھا۔

ان کی جانب سے فراہم کردہ "گواہی" کی تصدیق کے لئے مگر یہ بھی لازمی ہے کہ جس دن وہ "سائفر" ڈی کوڈ ہوا تھا اس دن کے لئے مروجہ "کوڈ" کی تفصیلات سے بھی گواہی کو جانچنے والے کامل آگاہ ہوں۔ مختصراََ "عوام کو حقیقت سے آگاہ کرنے کے لئے" سائفر کی محض "اصل" ہی درکار نہیں۔ اس میں دیئے پیغام کی زبان سمجھنے کے لئے اس دن استعمال ہوئے "کوڈ" تک رسائی بھی درکار ہو گی۔

وہ "کوڈ" عیاں ہو گیا تو ہماری ریاست پر نگاہ رکھنے والی ایجنسیاں تھوڑی محنت کے بعد اندازہ لگا سکتی ہیں کہ کونسی بات بیان کرنے کے لئے کیا "کوڈ" استعمال ہوتا ہے۔ دنیا کی کمزور ترین ریاست بھی یہ "راز" عیاں کرنے کی جرات نہیں دکھائے گی۔ "سائفر" کے حوالے سے مذکورہ حقیقت پانچ مہینے گزر جانے کے باوجود مگر موجودہ حکومت عوام کو سمجھا نہیں پائی ہے۔

ریاستی اداروں نے بھی اس ضمن میں مناسب پیش قدمی سے اجتناب برتا۔ ہمارا میڈیا تو عرصہ ہوا صحافیانہ جستجو ترک کئے ہوئے ہے۔ عمران خان صاحب نے لہٰذا کمال مہارت سے اپنے حامیوں کو قائل کر دیا ہے کہ امریکہ ان کی وطن پرستی سے اُکتا گیا تھا۔ انہیں دھمکانے کی کوششیں ناکام ہو گئیں تو انہیں اقتدار سے فارغ کروانے کے لئے "آپریشن رجیم چینج" لانچ کر دیا گیا اور یوں ایک "امپورٹڈ حکومت" ہم پر مسلط کر دی گئی۔

ہمارے "محافظ" بھی اس تناظر میں اگر "سہولت کاری" نہیں تو غفلت و کوتاہی کے مرتکب دکھائی دئے۔ اپنے دیرینہ حامی ہی نہیں عام پاکستانیوں کی کماحقہ تعداد کو بھی عمران خان صاحب "سائفر"کے حوالے سے اپنی جانب سے بنائی داستان کی بابت قائل کر چکے ہیں۔ ان کے مخالفین کے پاس اب کف افسوس کی اذیت سے گزرنے کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں بچا۔

Check Also

Aankh Jo Kuch Dekhti Hai (2)

By Prof. Riffat Mazhar