Faisla Khud Karen
فیصلہ خود کریں
پاکستان کے عوام کو سب سے بڑا بحران ضروری اشیا کی نایابی اور گرانی کی صورت میں درپیش ہے۔ جس میں آئے دن کمی کے بجائے اضافہ ہی ہو رہا ہے اور ہر روز ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ جاری ہے، گو کہ حکومت نے چند شہروں میں عوام کے لیے سہولت بازار قائم کیے ہیں۔ مگر یہ سستے بازار عوام کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں، کروڑوں پاکستانیوں کو ایسے بازاروں کی ضرورت ہے۔
جہاں سے ان کو ہر وقت ضرورت کی اشیا بآسانی اور مناسب نرخوں پر دستیاب ہوں۔ آٹے کی دستیابی کی جو صورتحال ہے۔ وہ سب بھگت رہے ہیں، حکومت نے آیندہ سیزن کے لیے گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس اضافہ شدہ گندم کی قیمت کے بعد آیندہ سال لامحالہ آٹے کی قیمت میں بھی اضافہ ہو جائے جس پر عوام ایک بار پھر احتجاج کریں گے اور مہنگائی کا ڈھنڈورا پیٹا جائے گا۔
لیکن کیا کیا جائے کہ کسان بھی مشکل کا شکار ہے اور اس کے پیداواری اخراجات اجناس کی موجودہ قیمت فروخت سے بھی پورے نہیں ہو پاتے، جس کی وجہ سے وہ روز بروز قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جا رہا ہے۔ آڑھتی منڈی میں اس کی جنس کی وہ قیمت نہیں لگاتے۔ جو اس کی لاگت سے مطابقت رکھتی ہو تا کہ وہ نقصان سے بچ جائے، لیکن جب کسان دور دراز سے اپنی جنس منڈی میں پہنچا دیتا ہے۔
تو اس کے پاس اس کی فوری فروخت کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہیں بچ جاتا اور وہ آڑھتی کے مرہون منت ہوتا ہے۔ جو بھاؤ آڑھتی لگا دیتا ہے۔ اسی پر اجناس کی فروخت ہوتی ہے۔ نتیجہ عموماً نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ عوام آٹے کے لیے پیسے ہاتھ میں لیے پھرتے ہیں، لیکن اس کی دستیابی مشکل ہے۔ ڈاکے چوریاں امن و امان کی حالت سے ہمارے ذرایع ابلاغ ہمیں ہر وقت مطلع کرتے رہتے ہیں۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ کئی برسوں کی خرابیاں اور پیدا کردہ مسائل چٹکی بجاتے حل نہیں ہو سکتے، بلکہ ان کو حل کرنے کے لیے حکمرانوں کو خون پسینہ ایک کرنا ہو گا، اس کے باوجود بھی حالات کو نارمل کرنے میں نہ جانے کتنا عرصہ لگ جائے گا۔ لیکن ایک بات جو عوام کو دکھ رہی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے رویے نہیں بدلے۔ شک گزرتا ہے کہ یہ حکمران کہیں ایسا نہ سوچ رہے ہوں کہ خدا نے ایک موقع دے دیا ہے۔
ہم کیوں محروم رہیں عوام تو باتیں کرتے ہی رہتے ہیں۔ کوئی این آر او ہمیں بھی ہمارے ہر گھپلے کی معافی دلوا دے گا۔ اگر نہیں بھی دلوائے گا تو کیا ہو جائے گا۔ پرانے زمانے کی بات ہے کہ ہمارے ایک زمیندار نے بینک سے کپاس کی فصل پر قرضہ لے لیا اور ملی بھگت کر کے کپاس کے گودام کے دروازوں اور روشندانوں کے آگے کپاس کی گانٹھوں کے ڈھیر لگا دیے مگر گودام اندر سے خالی رہا۔
جب اس پر قرضے کی ادائیگی کا وقت آیا تو اس نے معذرت کر لی۔ بینک نے گودام چیک کیا تو وہ خالی پایا۔ مقدمہ چلا دو تین برس کی قید ہو گئی۔ کسی نے کہا پیسے دے دو اور رہا ہو جاؤ۔ اس زمیندار کا جواب تھا کیا میں تین برس آزاد رہ کر اتنے لاکھ کما سکتا ہوں۔ عرض یہ کرنی ہے کہ ہمیں اسمبلیوں کے اندر اور باہر جو حکمران دکھائی دے رہے ہیں یہ کسی طرح بھی سابقہ حکمرانوں سے مختلف نہیں ہیں۔
ان کا تعلق بھی اشرافیہ سے ہی ہے۔ عوام صبر کرنے کے لیے تیار ہیں کہ اس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ لیکن ان کا عاجزانہ مطالبہ صرف اتنا ہوتا ہے کہ ان کے مسائل کے حل کے لیے حکمران سنجیدگی اختیار کریں اور ان کے مسائل کا احساس کریں۔ میں جب اپنے ملک پر نظر دوڑاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ میرے ملک میں کیا ہے۔ جو نہیں ہے ایک پاکستانی کی ضرورت کی ہر چیز موجود ہے۔
کوئی پاکستانی بے گھر یا بے مکان نہیں ہے کوئی رات کو بھوکا نہیں سوتا اسے سفر درپیش ہو تو موٹر کار بس ریلوے اور جہاز تک موجود ہیں۔ علاج کی ضرورت ہو تو اسپتال موجود ہیں، پڑھنا ہو تو تعلیمی ادارے موجود ہیں، سیرو سیاحت کرنی ہو تو دنیا کی بہترین قدرتی سیر گاہیں موجود ہیں، ذہنی تفریحی اور معلومات کے لیے دنیا کا میڈیا موجود ہے۔ زندگی کی کسی ضرورت کا نام لیں مناسب حد تک وہ وطن عزیز میں موجود ہے۔
لیکن چند لٹیرے اور بے رحم لوگ ملک کے وسائل کو مسلسل لوٹ رہے ہیں اور ملکی وسائل پر انھوں نے اپنا تسلط قائم رکھا ہوا ہے۔ ان کی آمدنی کو کھائے جا رہے ہیں اور دنیا بھر کے بینکوں میں لوٹ کا یہ مال جمع کر رہے ہیں۔ انھی لوگوں نے پاکستانیوں کو پاکستان کی نعمت سے محروم کر دیا ہے۔ خود یہ لوگ آدھے پاکستان میں اور آدھے پاکستان سے باہر ہیں یعنی ان کی دولت اور اولاد ملک سے باہر ہے۔
لیکن پھر بھی پاکستانی کہلاتے ہیں یہ لوگ پاکستانیوں کو نوچ رہے ہیں اور بے فکر ہیں، بلکہ الٹے حکمران ہیں۔ جس کی دولت باہر ہو اور اولاد کے مفادات بھی باہر ہوں وہ کتنا پاکستانی ہے فیصلہ آپ خود کر لیں۔