Usman Buzdar Ki Jhatka Numa Qurbani Ke Baad
عثمان بزدار کی "جھٹکا" نما قربانی کے بعد
کچھ دیر قبل مستعفی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے منصب سے استعفیٰ دینے کے بعد اپنا پہلا بیان جاری کیا، وہ کہتے ہیں "میں نے پارٹی اور قوم کے مفاد میں اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو پیش کردیا ہے۔ وزارت اعلیٰ وزیراعظم اور پارٹی کی امانت تھی۔ جیسے ہی استعفیٰ منظور ہوا عہدہ چھوڑدوں گا"۔
سوموار کی صبح ان کے خلاف پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی گئی۔ اسی شام وزیراعظم نے چودھری پرویزالٰہی کو اسلام آباد بلاکر بتایا کہ انہوں نے عثمان بزدار سے استعفیٰ لے لیا ہے۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے آپ (چودھری پرویزالٰہی) ہمارے آئندہ امیدوار ہوں گے۔
پرویزالٰہی نے پیشکش قبول کرلی۔ (تادم تحریر خود چودھری پرویزالٰہی کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا) گجرات کے چودھری پرویزالٰہی قبل ازیں 2002ء سے 2007ء تک پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ چکے دھڑے بندیوں کی سیاست کے ماہر نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں پنجاب میں ترقیاتی کام کرائے۔ ملتان، فیصل آباد اور وزیرآباد میں امراض قلب کے ہسپتال ان کے دور میں بنے۔ ایمرجنسی سروس 1122 کا قیام بھی ان کے دور میں عمل میں لایا گیا تھا لیکن فی الوقت یہ ہمارا موضوع نہیں۔
عثمان بزدار کی قربانی (فقیر راحموں کے بقول جھٹکا) ہوئی یہ قربانی بنی گالہ کو راس آتی ہے خود گجرات کے لئے باعث مسرت بنتی ہے اس پر ملے جلے تاثرات ہیں۔ ہم ان سطور میں تواتر کے ساتھ عرض کرتے رہتے ہیں کہ جناب عمران خان الفاظ کے چنائو میں احتیاط کیا کریں کیونکہ اکثر وہ جو کہتے ہیں وہ بعد میں ان کے گلے پڑ جاتا ہے۔
یہاں تین مثالیں عرض کرسکتا ہوں۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا" جرنیل چاہتے ہیں امور مملکت ان کا لایا ہوا شخص (انہوں نے جو لفظ کہا وہ یہاں لکھا نہیں جاسکتا) چلائے میں اُن بندوں میں سے نہیں ہوں "۔ پھر وہ شجاع پاشا کے مشن زیرو زیرو سیون کے قائد بن گئے یہ اکتوبر 2011ءکی بات ہے۔
انہوں نے ایک زمانے میں یہ بھی فرمایا کہ ایم کیو ایم قاتلوں کا ٹولہ ہے۔ مشرف دور میں لندن میں منعقدہ اپوزیشن رہنمائوں کی ایک کانفرنس میں یہ تجویز بھی پیش کی کہ اپوزیشن کی کوئی جماعت مستقبل میں ایم کیو ایم کے ساتھ سیاسی اتحاد بنائے نہ اسے مخلوط حکومت میں شامل کرے۔
اس تجویز کے خلاف سب سے پہلے محترمہ بینظیر بھٹو بولیں انہوں نے کہا"آپ ابھی سیاست میں نئے آئے ہیں سیاستدان اور سیاسی جماعتیں کبھی آخری فیصلہ نہیں کرتے بلکہ فیصلے ملک، عوام اور جمہوریت کی ضرورت کو دیکھ کر ہوتے ہیں "۔ پھر مخدوم امین فہیم اور جناب نوازشریف نے بھی ان کی تجویز کو رد کردیا۔
یہ غالباً جولائی 2007ء کی بات ہے، اس وقت 12مئی کے سانحہ کراچی کی وجہ سے پاکستان میں عمومی سیاسی فضا ایم کیو ایم کے خلاف تھی اس کے باوجود عمران خان کی جذباتی تجویز مسترد ہوگئی۔ وقت بدلا یہی ایم کیو ایم عمران خان کی مخلوط حکومت کا حصہ بنی انہوں نے کہا ایم کیو ایم والے بڑے نفیس لوگ ہیں۔
عمران خان چودھری پرویزالٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیتے اور جلسوں میں خوب آڑے ہاتھوں لیتے تھے، 2018ء کے انتخابات میں انہوں نے ق لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی۔ ہمارے کچھ دوست کہتے ہیں کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ق لیگ نے کی اس کی مجبوری تھی لیکن ہم اب بھی اپنی بات (ان دنوں کالم میں جو عرض کیا تھا) پر قائم ہیں کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ عمران خان نے کی کیونکہ اس کے لئے انہیں سابق جنرل شجاع پاشا نے آمادہ کیا تھا اور اس ملاقات میں دو باضابطہ "سرکاری" افسر بھی موجود تھے۔
الیکشن کے بعد پرویز الٰہی کی خواہش تھی کہ انہیں وزیراعلیٰ بنایا جائے لیکن تحریک انصاف کے دو دھڑے (جہانگیر ترین اور علیم خان گروپس) اس خواہش کی تکمیل کے آڑے آگئے، یوں بارتھی تحصیل تونسہ کے عثمان بزدار کی لاٹری نکل آئی اور انہیں وزیراعلیٰ بنادیا گیا، چودھری صاحب سپیکر بن گئے۔
اب عثمان بزدار سے استعفیٰ لے کر پرویزالٰہی کو عمران خان نے وزارت اعلیٰ کے لئے امیدواربنادیا ہے۔ چند کیا سینکڑوں مثالیں مزید عرض کی جاسکتی ہیں کہ کب کیا کہا اور کب اس سے رجوع کیا۔ ضرورت اس لئے نہیں کہ خان صاحب کہتے ہیں یوٹرن لینا بڑا سیاستدان ہونے کی نشانی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا 6ارکان کی ہمدردیوں سے محروم مسلم لیگ ن 164 ووٹ رکھتے ہوئے پرویزالٰہی کو آسانی کے ساتھ وزیراعلیٰ بننے دے گی؟
لیکن اس سے پہلا سوال یہ ہے کہ متحدہ اپوزیشن نے انہیں باضابطہ طور پر وزیراعلیٰ بنانے کی پیشکش کی تھی (اس پیشکش کے دو کھلے مخالف تھے مریم نوازاور شاہد خاقان عباسی، مریم نواز نے جو بھی کہا نجی محفلوں میں کہا شاہد خاقان عباسی نے رواں ماہ کے دوران کم از کم 10ٹی وی انٹرویوؤں کے دوران اس بات کی تردید کی کہ مسلم لیگ (ن) پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ بنواسکتی ہے۔ عباسی کہتے رہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم 7سیٹوں والی پیپلزپارٹی کو پنجاب کی قسمت کا فیصلہ کرنے دیں۔
اتوار 27مارچ کو بہرطور ن لیگ کے وفد نے لاہور میں واقع چودھری ہائوس میں گجرات کے چودھریوں سے ملاقات کی اور ن لیگ کی طرف سے اس فیصلے کی رضامندی دے دی جس سے قبل ازیں آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن انہیں آگاہ کرچکے تھے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ پھر ایسا کیا ہوا کہ لگ بھگ 27گھنٹے بعد پرویزالٰہی نے تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کے لئے وزارت اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر نامزدگی قبول کرلی؟
مکرر عرض ہے ابھی تک خود چودھری پرویزالٰہی کا کوئی باضابطہ موقف سامنے نہیں آیا اس لئے ان کی مجبوری یا ضرورت پر اس وقت بات کریں گے جب وہ اپنا موقف دیں گے۔ فی الوقت آپ کو یہ بتاسکتا ہوں کہ گزشتہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب علیم خان اور مریم نواز کی ملاقات ہوئی تھی کہا یہ جارہا ہے کہ مریم نواز نے علیم خان کو یقین دہانی کروائی کہ اگر وہ اپنے 24ارکان کے گروپ کے ہمراہ (ن) لیگ کا ساتھ دیں تو انہیں وزارت اعلیٰ کے لئے امیدوار بنایا جاسکتا ہے۔
علیم خان اور مریم نواز میں یہ تیسری ملاقات تھی۔ پہلی دو ملاقاتوں میں شاہد خاقان عباسی موجود تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ ڈیفنس لاہور میں ہونے والی اس ملاقات کی اطلاع چودھری پرویزالٰہی کو بھی مل گئی انہوں نے اپنے تئیں کچھ اندازہ لگایا اور جونہی انہیں عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد وزیراعظم نے ملاقات کی دعوت دی وہ ملاقات کے لئے چلے گئے۔ (یہاں یہ ذہن میں رکھئے کہ وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد خود چودہری پرویز الہٰی کی خواہش پر جمع کروائی گئی تھی) ملاقات کے بعد سامنے آنے والی خبریں دہرانے کی ضرورت نہیں بالائی سطور میں عرض کرچکا ہوں۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ حالیہ دنوں میں عمران خان اور چودھری نثار علی خان کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی البتہ دونوں کے مشترکہ دوست پرویز خٹک چودھری نثارعلی خان سے ملنے گئے تھے انہوں نے چودھری نثار کو وزیراعظم سے ملنے کے لئے قائل کرنے کی کوشش کے دوران پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیشکش کا دانہ بھی پھینکا لیکن چودھری نثار نے نہیں "اٹھایا " اس لئے سابق بار بوائے حاضر سینئر سیاسی تجزیہ نگار کا یہ دعویٰ درست نہیں کہ وزیراعظم اور چودھری پرویزالٰہی کی ملاقات میں جب وزیراعظم نے انہیں بتایا کہ عثمان بزدار سے استعفیٰ لے لیا گیا ہے اور وزارت اعلیٰ کے لئے میری پہلی ترجیح آپ ہیں دوسری چودھری نثار علی خان تو چودھری پرویزالٰہی نے پیشکش فوراً قبول کرلی کیونکہ وہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ نثار علی خان وزیراعلیٰ بنے۔
دستیاب معلومات کے مطابق وزیراعظم اور چودھری پرویزالٰہی کی ملاقات سے قبل مونس الٰہی اور وزیراعظم کی ملاقات ہوچکی تھی۔
باردیگر سوال ہے وہ یہ کہ کیا تحریک انصاف کے اندر موجود تین بڑے گروپ علیم خان، جہانگیر ترین اور گورنر پنجاب کا ارائیں گروپ (اس گروپ کے 14رکن ہیں) چودھری پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ کے طورپر قبول کرلیں گے؟ ڈیڑھ ملین ڈالر کے اس سوال کو نظرانداز کرکے چودھری پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ بنتا دیکھنا خواہش تو ہوسکتی ہے حقیقت نہیں۔
کیا چودھری پرویزالٰہی تحریک انصاف کے ان تینوں یا کم از کم 2گروپوں کو اپنی حمایت کے لئے راضی کرلیں گے؟ یہ ساری باتیں اور سوال اٹھارکھئے اس وقت تک کے لئے جب تک خود چودھری صاحب کا بیانِ قبولیت اور موقف سامنے نہیں آتا۔ ہماری رائے یہی ہے کہ سب کچھ ایسا نہیں ہوگا جیسا انجمن محبان بنی گالہ شریف بتاسمجھارہے ہیں۔