Teen Filmain
تین فلمیں
بیسویں صدی کی تین ہیروئنز اداکاری سے زیادہ اپنے حسن کی وجہ سے مجھے بہت پسند ہیں، آڈرے ہیپبرن، گریس کیلی اور ڈیمی مور۔
ڈیمی مور کو ماضی کی ہیروئنز میں شمار کرنا ممکن ہے کچھ لوگوں کو اچھا نہ لگے لیکن ظاہر ہے کہ ان کی جوانی بیت چکی ہے۔ درحقیقت یہی ان کی نئی فلم کا موضوع ہے۔ فلم میں بھی وہ ایسی اداکارہ ہیں جس کا پرائم گزر چکا ہے۔ کہیں سے پراسرار پیشکش آتی ہے کہ ایک سبسٹینس یا دوائی سے اپنا نیا وجود پیدا کیا جاسکتا ہے جو جوان اور زیادہ خوبصورت ہوگا۔ ماضی کی اداکارہ وہ دوائی استعمال کرلیتی ہے اور اپنے نئے جوان روپ سے دوبارہ شوبز پر راج کرنے لگتی ہے۔
لیکن تجرباتی دوا کی ایک شرط تھی، جو رابرٹ اسٹیونسن کی مشہور کہانی اسٹرینج کیس آف ڈاکٹر جیکل اینڈ مسٹر ہائیڈ کی یاد دلاتی ہے۔ یعنی سات دن پرانا جسم اور سات دن نیا جسم اور جہاں بے احتیاطی ہوگی، وہاں نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ فلم میں جان اسی لیے پڑی کہ بے احتیاطیاں ہوئیں۔
ڈیمی مور کا نام میں نے پہلی بار نوے کی دہائی میں سنا جب ان کی فلم انڈیسینٹ پروپوزل کا شہرہ تھا۔ بعد میں گھوسٹ بھی دیکھی۔ اس وقت ان کا حسن عروج پر تھا۔ قسمت دیکھیں کہ چالیس سال کے کرئیر میں کبھی آسکرکے لیے نامزد بھی نہیں ہوئیں۔ لیکن دا سبسٹینس میں انھوں نے ایسا کمال کا کام کیا ہے کہ مجھے ان کے آسکر جیتنے کی امید ہے۔
یہ فلم دیکھتے ہوئے مجھے سن سیٹ بلیوارڈ کا خیال آیا۔ وہ بھی ماضی کی ایک اداکارہ کی کہانی ہے جو خاموش فلموں میں مقبول تھی لیکن بولتی فلموں کے دور میں کام نہیں ملا تو خود ایک فلم بنانے کا ارادہ کرتی ہے۔ عظیم ڈائریکٹر بلی وائلڈر نے ذہانت سے کام لیتے ہوئے وہ کردار خاموش فلموں کے دور کی اداکارہ گلوریا سوانسن سے کروایا تھا۔ وائلڈر کی تقلید کرتے ہوئے دا سبسٹینس کی ڈائریکٹر کورالی فارجا نے ڈھلتی عمر کی اداکارہ کے کردار کے لیے ڈیمی مور کا انتخاب کیا۔
بولتی فلموں کے آغاز کو سو سال ہونے والے ہیں۔ نئی نسل میں سے شاید ہی کوئی خاموش فلمیں دیکھتا ہو۔ میں نے بہت سی ایسی فلمیں دیکھی ہیں۔ ان میں نوسفیراٹو بھی تھی جو 1922 میں ریلیز ہوئی تھی۔ دراصل یہ برام اسٹوکرکے مشہور ناول ڈریکولا کی کہانی تھی جسے نام بدل کر فلمایا گیا۔ ایک صدی بعد اس کا ری میک ہوا ہے اور کہانی تقریباََ وہی ہے جو 1922 میں تھی۔ کرداروں کے نام بھی نہیں بدلے گئے۔ واحد اہم تبدیلی یہ ہے، آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ بولتی فلم ہے۔ میں نے کرسمس کی شب سینما میں اس کا آخری شو دیکھا لیکن تب بھی ہال بھرا ہوا تھا۔ للی روز ڈیپ نے ایلن ہٹر کا مرکزی کردار بہت جم کر کیا ہے۔ خاص طور پر جب اسے دورے پڑتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے حقیقت میں اس پر جن آگیا ہو۔ للی روز مشہور اداکار جونی ڈیپ کی بیٹی ہیں۔
اس ہفتے گوہر تاج صاحبہ کے مشورے پر ایک فلم دا وہیل بھی دیکھی۔ اس نے کئی دن تک میرے دل و دماغ پر قبضہ رکھا۔ میں ایک ہائی اسکول میں انگریزی پڑھاتا ہوں اور لرننگ ٹیکنالوجی میں ماسٹرز کررہا ہوں۔ یعنی آن لائن ٹیچنگ میری نظر میں ہے۔ دا وہیل کا مرکزی کردار بھی انگریزی کا استاد ہے جو آن لائن کلاسز لیتا ہے۔ وہ اپنے اپارٹمنٹ سے باہر نہیں نکلتا۔ کھانا گھر پر ڈلیور ہوجاتا ہے۔ کاوچ پوٹیٹو ہونے کی وجہ سے اس کا جسم بری طرح پھیل گیا ہے اور وہ کئی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ وہ مذہب کے خلاف ہے لیکن اس کے بارے میں بہت جانتا بھی ہے۔ کہانی وہاں شروع ہوتی ہے جب ایک تبلیغی نوجوان اتفاقا اس کے گھر آتا ہے۔
فلم ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں شروع ہوکر وہیں ختم ہوجاتی ہے۔ برینڈن فریزر نے ایسی غیر معمولی اداکاری کی کہ اس پر انھیں آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔
عام طور پر اچھی فلموں کا ذکر اس لیے کیا جاتا ہے کہ دوست بھی انھیں دیکھیں۔ لیکن اگر آپ حساس ہیں اور ذہنی طور پر مضبوط نہیں ہیں تو میں مشورہ دوں گا کہ یہ تینوں فلمیں نہ دیکھیں۔ ان میں اتنی عمدہ اداکاری کی گئی ہے کہ آپ کو کئی ہفتوں تک برے خواب آسکتے ہیں۔