Los Angeles
لاس اینجلیس
سب سے بڑا رشتہ انسانیت ہے، دنیا میں کہیں بھی انسانی تشدد قدرتی آفات یا کسی بھی ناگہانی سے انسانیت کو انسانیت کا درد ضرور محسوس ہوتا ہے۔
آج امریکہ جس آگ کو قابو کرنے سے قاصر ہے، اس سے پوری انسانیت سراپا سوال ہے؟ کہ تم تو آگ جلانے میں دیر نہیں کرتے اور اب انسانیت جل رہی ہے تو کہاں ہے تمھاری جدید ٹیکنالوجی جس کے غرور پر تم انسانوں کو انسان نہیں سمجھتے۔
آج تم خود علیل ہو اور جدت تمھاری دور کھڑی تماشا دیکھ رہی ہے۔
لاس اینجلیس جسے خوابوں کا شہر سمجھا جاتا ہے، ایک ایک بلڈنگ لاکھوں کروڑوں ڈالرز کی ہے، ہالی ووڈ جیسے اہم ادارے کی روح اس شہر سے وابسطہ ہے، مختلف اہم رہنماوں کی عالیشان بلند و بانگ عمارتیں شاہکار فن اور جدت سے لیس شہر راکھ اور کوئلے بن گیا ہے۔
وہ امریکہ جس نے ایک ٹاور کے گر جانے پر اپنی سلامتی کا ایشو بناتے ہوئے کم و بیش 20 سال تک افغانستان کے ساتھ پوری دنیا سے فوج مانگ کر بدلہ لیتا رہا۔ مگر پہاڑوں میں رہنے والے پہاڑ لوگوں نے جدت کو مکمل شکست سے دوچار کیا اور انسانیت کے دشمن کو شرمندگی ہی موصول ہوئی۔
وہ امریکہ جو چاہتا ہے پوری دنیا میں ایک پتہ بھی میرے حکم کے بغیر نہ ہلے آج قدرتی آفت کے آگے بے بس کھڑا ہے۔ یہ یقین کامل ہے کہ زمین، ہوا، پانی اور آگ، قدرت کے حکم کے ساتھ سب سے زیادہ طاقتور ہیں۔ قدرت اگر چاہے تو ہوا سے ہی پورا امریکہ کیا پوری دنیا کو اڑا دے مگر امر کن سے وابسطہ ہوا آگ پانی ہمیشہ حکم خداوندی کا محتاج ہے۔
صرف لاس اینجلیس کی آگ ہی نہیں خود امریکہ کے اندر ہی بیسیوں مثالیں موجود ہیں کہ قدرت کے آگے جدت اور ٹیکنالوجی ہمیشہ بے بس نظر آتی ہے۔ لاس اینجلیس میں انسانیت کا درد ہے اور مسلم ممالک سمیت پوری دنیا امریکہ کی اس مصیبت بھری گھڑی میں ساتھ کھڑی ہے اور ساتھ ہی یہ سبق سیکھنے کی چیزیں ہیں کہ قدرت کے آگے دیر نہیں ایک منٹ میں جدت زمین بوس ہو سکتی ہے۔
انسان عقل کل نہیں امریکہ یا کوئی بھی ملک سپر پاور نہیں۔ سپر پاور صرف میرے اللہ کی ذات ہے، جس نے پوری کائنات کوتخلیق کیا اور پوری کائنات کو رزق عطاء کرتا ہے اور پھر سمجھوتے کے طور پر چھوٹی موٹی دکھ تکلیف سے دوچار کرتا ہے۔
اس امریکہ نے ہی ہیرو شیما پر حملہ کرکے وہاں انسانیت کو قتل کیا تھا اور آج تک وہاں پر نہ سبزہ اگتا ہے اور نہ ہی وہاں پر انسان آباد ہوسکتا ہے اور پھر انہی آنکھوں نے خود امریکہ کو جلتے ہوئے بے بس دیکھا ہے۔
یہ کسی بھی انسان کیلئے انسانیت سوز مقام ہے آج کوئی بھی انسان اس آگ سے خوش نہیں۔ مگر امریکہ کو اس کے رویے تبدیل ضرور کرنے ہونگے۔
آج امریکہ کو محسوس ہونا چاہئے کہ جب گھر نہ ہو تو فلسطینی کہاں سوتے ہونگے۔ جس کا گھر قدرتی آفت سے جل گیا تو افسوس ہے مگر جس انسان کا گھر انسانوں نے جلایا وہاں کتنی ندامت اور افسوس ہے؟
عراق افغانستان اور مختلف ممالک سے قیمتی اثاثے قبضے میں لینے والا خود آگ کے قبضے میں ہے اور بے بس لاچار نگاہیں دنیا سے شرمندگی چھپانے کی خاطر جھکی ہوئی ہیں۔
یہ لاس ایجلنس تو صرف ایک مثال ہے امریکہ میں سمندری طوفان کتنی تباہی لاتا ہے وہاں پر جنگلوں میں لگنے والی آگ ایک ایک مہینہ بے قابو رہتی ہے خیر یہ تو قدرتی سہی خود امریکہ کے اندر پوری دنیا سے زیادہ ٹارگٹ کلنگ ہے جسکو میڈیا پر لانے سے شرماتا ہے۔ افغانستان سے شکست یافتہ عراق سے سیاسی ناکامی اور ایران کو مسلسل پابندیوں سے نہ روک پانے والا چین پاکستان انڈیا سمیت مختلف ممالک کے بلاک سے خائف ایک زخمی شیر کا روپ دھار چکا ہے۔
انشاءاللہ انسانیت کے دشمن کا عبرت ناک انجام پوری دنیا کے سامنے ہوگا اور صرف انسانیت جیتے گی انسانی حقوق جیتیں گے جن ماوں کو رولایا گیا ہے انکی دعائیں جیتیں گی۔