Monday, 13 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Salahuddin
  4. Ghareeon Ko Khatam Kar Dein

Ghareeon Ko Khatam Kar Dein

غریبوں کو ختم ہی کر دیں

غربت، یہ ایک ایسی لعنت ہے جو نہ صرف معاشرتی ڈھانچے کو کھوکھلا کرتی ہے بلکہ انسانیت کی جڑوں کو بھی کھود دیتی ہے۔ یہ ان بے رحم سوالات میں سے ایک ہے جس کے جواب میں حکومتیں ہمیشہ ناکام نظر آتی ہیں۔ اگر حکومت کے پاس تمام وسائل ہونے کے باوجود غربت ختم کرنے کی اہلیت نہیں، تو کیوں نہ ایک نیا فلسفہ اپنایا جائے؟ کیوں نہ غریبوں کو ہی ختم کر دیا جائے؟ ہاں، یہ سننے میں ایک خوفناک اور غیر انسانی تجویز لگتی ہے، لیکن ایک طنزیہ سوال کے طور پر، یہ ہماری اجتماعی ناکامی کی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے۔

حکومتیں غربت کے خاتمے کے لیے ہمیشہ سے دعوے کرتی آئی ہیں۔ ہر نئی حکومت اپنے منشور میں غربت مٹانے کے وعدے کے ساتھ آتی ہے، لیکن کیا ہوا؟ نہ غربت مٹ سکی، نہ غریبوں کا درد کم ہو سکا۔ غریب آج بھی فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں، آج بھی بھوکے مرتے ہیں، آج بھی اپنے بچوں کو پڑھانے کے خواب دیکھتے دیکھتے اپنی آخری سانس لیتے ہیں۔ اگر حکومت کی بے حسی اور ناکامی کا یہ سلسلہ جاری رہنا ہے، تو کیوں نہ وہ ان غریبوں کو، جو ہمیشہ حکومت کے دعوؤں کے لیے ایک شرمندگی کا باعث ہیں، ختم ہی کر دے؟ کم از کم مسئلہ تو ختم ہو جائے گا۔

یہ ایک انتہائی سیاہ طنز ہے، لیکن کیا یہ ہماری موجودہ صورتحال کا عکاس نہیں؟ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہاں غریب صرف اعداد و شمار ہیں، ایک معاشی چارٹ کا حصہ۔ حکومتیں ان پر وعدے کرتی ہیں، این جی اوز ان پر منصوبے بناتی ہیں، لیکن ان کے حالات میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آتی۔ کیوں؟ کیونکہ غریبوں کی زندگی میں دلچسپی صرف اس وقت ہوتی ہے جب انتخابات کا موسم آتا ہے یا عالمی ادارے معاشی امداد فراہم کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔

اگر ایک طرف یہ فلسفہ ہمیں چونکاتا ہے، تو دوسری طرف یہ ہمیں ہماری انسانیت کی حقیقت دکھاتا ہے۔ ہم ایک ایسے نظام میں جی رہے ہیں جہاں انسان کی قدر اس کی معیشتی حیثیت سے ماپی جاتی ہے۔ ایک امیر آدمی کے لئے اربوں روپے کے قرضے معاف کرنا آسان ہے، لیکن ایک غریب آدمی کے لئے اپنی چھت بنانا ناممکن ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ایک شہری کے طور پر ہمیں اپنی حکومت سے سوال کرنا چاہیے۔ اگر آپ غربت کے خاتمے کا وعدہ نہیں نبھا سکتے تو کیوں یہ وعدے کرتے ہیں؟ اگر آپ کے پاس تمام وسائل ہونے کے باوجود کوئی مؤثر حکمت عملی نہیں، تو آپ کس بات کے حکمران ہیں؟

اس طنزیہ تجویز کا مقصد انسانی قدروں کو کم کرنا نہیں، بلکہ اس حقیقت کو اجاگر کرنا ہے کہ ہم سب اس نظام کا حصہ ہیں جو غریبوں کو جینے کا حق تو دیتا ہے، لیکن عزت کے ساتھ جینے کا نہیں۔ غریبوں کو مٹانے کا یہ خیال ایک تلخ حقیقت کی نمائندگی کرتا ہے کہ ہماری ترجیحات کہاں ہیں۔ ہم بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرتے ہیں، لیکن غریب کے لئے ایک چھوٹا سا مکان تعمیر نہیں کر سکتے۔ ہم اربوں ڈالر کے منصوبے شروع کرتے ہیں، لیکن ایک غریب کا علاج کرانے کے لیے پیسہ نہیں ہوتا۔

حکومتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ غربت کا خاتمہ ان کے ایجنڈے میں سب سے اوپر ہے، لیکن زمینی حقیقت مختلف ہے۔ غربت کا خاتمہ صرف بیانات اور وعدوں سے ممکن نہیں۔ یہ ایک مضبوط اور مستقل عزم کا تقاضا کرتا ہے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم، تعلیم تک رسائی اور صحت کے نظام کی بہتری وہ بنیادی چیزیں ہیں جو غربت کو جڑ سے ختم کر سکتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے، ان تمام چیزوں کو ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا ہے۔

اگر اس طنزیہ فلسفے کو سنجیدگی سے لیا جائے تو شاید یہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دے کہ ہم اپنی انسانیت کو کہاں کھو بیٹھے ہیں۔ حکومت کے پاس وسائل ہیں، اختیارات ہیں اور منصوبہ بندی کی طاقت ہے۔ اگر وہ یہ سب کچھ استعمال کرکے غریبوں کی زندگی میں بہتری نہیں لا سکتی، تو پھر یہ وسائل کس کام کے؟ اگر وہ واقعی غربت ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے الفاظ کو عمل میں تبدیل کرنا ہوگا۔ اگر نہیں، تو کم از کم اپنے جھوٹے وعدوں سے لوگوں کو دھوکہ دینا بند کریں۔

یہ تحریر صرف ایک طنز نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جو ہماری اجتماعی ناکامی کو دکھاتا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم سب اس نظام کے مجرم ہیں۔ یہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے معاشرتی ڈھانچے پر غور کریں اور ان غریب لوگوں کے لئے آواز اٹھائیں جن کی زندگیاں ہمیشہ نظرانداز کی جاتی ہیں۔

تو کیا واقعی غریبوں کو مٹانے کا یہ خیال عملی ہے؟ یقیناً نہیں! یہ ایک ایسی بات ہے جو نہ صرف اخلاقی طور پر ناقابل قبول ہے بلکہ انسانیت کے خلاف بھی ہے۔ لیکن اس سوچ کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اپنی ناکامیوں کو سمجھیں، اپنی ترجیحات کو درست کریں اور اپنی حکومتوں کو ان کے وعدوں کا جوابدہ بنائیں۔

یہ وقت ہے کہ ہم اس تلخ حقیقت کا سامنا کریں اور غریبوں کو ان کے حقوق دینے کے لئے سنجیدہ اقدامات کریں۔ یہ صرف انفرادی یا حکومتی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اس سمت میں کام کریں گے تو غربت کا خاتمہ ممکن ہے، ورنہ یہ طنزیہ خیال کبھی نہ کبھی ایک سچائی کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور اس دن ہماری انسانیت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی۔

Check Also

Ghareeon Ko Khatam Kar Dein

By Muhammad Salahuddin