Bhoot Bangla
بھوت بنگلہ
ایک رات میں حسب معمول اپنے فلیٹ پر فرشی گدے پر دراز قمر اجنالوی کی پراسرار اور خوفناک کتاب مقدس مورتی کا مطالعہ کررہا تھا اور اس سطر پر تھا "مورتی کے چلنے کی آواز صدیوں پرانے محل میں آرہی تھی اور۔۔ " اچانک میرے کانوں میں "چھن چھن" کی آواز آئی اور میں ہڑبڑا کر اٹھا کہ "الہی خیر! اس کباڑخانے میں کہاں سے چڑیل آگئی؟"
اچانک میری نظر سیل فون کی جگمگاتی سکرین پر پڑی تو میرے کزن عمر کا نام جگمگا رہا تھا جو ایک سوفٹ وئیر ہاؤس میں اور علیحدہ سے اپنا بھی کام کرتا تھا۔
"او بیڑا غرق لگتا ہے گھنٹی کی آواز غلطی سے تبدیل ہوگئی ہوگی اور چونکہ مجھے اسکی عادت نہیں تھی تو سمجھ نہیں آئی" خیر کال کو اٹھایا۔
"ہیلو ہاں یار موبی ادھر بھوت ہے" عمر کی آواز آئی۔
" ابے ہنومان آئینے کے سامنے سے ہٹ! بن مانس اپنی شکل دیکھ کر ڈر رہا ہوگا اور رات کو کس پاگل نے تجھے آئینہ دیکھنے کا مشورہ دیا؟" میں نے سانس لئے بغیر بے نقط سنا ڈالیں۔
"موبی! یار مزاق چھوڑ" وہ بولا۔
"ہیں! ابے باندر میں سیریس ہوں" میں نے پھر گوہر افشانی کی۔
" اچھا یار میں فون بند کرتا ہوں تو میرے دوست کے دفتر آجا! " عمر روہانسا ہوکر بولا۔
" یااللہ خیر کوئی گالی نہیں کوئی سخت جواب نہیں" میں نے سوچا۔
" اچھا یار فون رکھ میں تجھے فون کرتا ہوں" مجھے یاد آیا کہ وہ کنجوس تو سو روپے کا کارڈ پورے سال استعمال کرتا ہے اور ہمیشہ مس کال دیتا ہے۔ لگتا ہے کوئی مسئلہ ہے ورنہ مجھے اتنی رات گئے فون نہ کرتا۔
خیر میں نے فون کیا تو وہ بتانے لگا کہ "یار میں جس دوست کے ساتھ کام کرتا ہوں اسکے دفتر میں رات کو کچھ راتوں سے پراسرار واقعات پیش آرہے تھے جن سے میں لا علم تھا کیونکہ میں لاہور سے باہر تھا"۔
میں نے کہا "ٹارزن مجھے جگہ سمجھا دے میں پہنچتا ہوں"۔
اس نے ماڈل ٹاؤن کا پتا بتایا میں اسکے بتائے ہوئے پتے پر پہنچا۔
میرے سامنے پرانے درختوں اور گھاس پھونس سے ڈھکا ہوا ایک وسیع صحن (لان)، ایک برگد کا قدیم درخت جو آدھے سے زیادہ صحن پر پھیلا ہوا تھا جس پر مقیم بڑی بڑی چیلیں مجھے چاند کی روشنی میں صاف نظر آرہی تھیں اور ادھر ادھر منڈلاتی چمگادڑیں اور جھینگروں کی آوازیں اور ایک پرانی طرز کا تعمیر کردہ بنگلہ جسکی نچلی منزل پر پیلے رنگ کی روشنی پھینکتا ایک بلب جو اس وسیع و عریض صحن کے لئے ناکافی تھا۔
لگتا ہے اس بنگلے کا مالک ادھر نہیں ہوتا ہے میں نے سوچا ورنہ بہت سے لوگوں نے جدید عمارات بنا لی ہیں ادھر، شائید وہ اتنا امیر نہ رہا ہو یا اسکے بچے باہر وغیرہ چلے گئے ہوں۔
اس ہی سوچ میں تھا تو عمر بھی نازل ہوگیا " اچھا کیا یار آگیا! آجا اوپر" اور ہم اس بنگلے کی پچھلی طرف موجود زینے کی سال خوردہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپری منزل پر آگئے۔
دسمبر کی آخری خنک راتیں تھیں اور تیز ہوا چل رہی تھی۔ صحن میں پائین کے درخت تیز ہوا سے جھول رہے تھے اور برگد کےپتے بھی تالیاں سی بجا رہے تھے۔
"یار! ایک ایک سگریٹ پیتے ہیں" میں نےجیب سے سگریٹ کی ڈبی نکال کر عمر کو صلاح ماری اور عمر نے مفت کی سگریٹ فوراً قبول کرلی۔
" یار! بڑا رومانوی ماحول ہے" میں نے دھواں فضا میں بکھیرتے کہا۔۔
" ہاں یار مجھے پتا تھا تجھے بہت پسند آئے گا یہ کھنڈر" عمر سگریٹ کا بلدکار کرتے گویاہوا۔
"لیکن یار ہم صرف دن میں کام کرتے ہیں بس آجکل نیا پراجیکٹ پکڑا ہوا ہے اسلئے ہم رات کو کام کررہے ہیں۔ لیکن یہ پراسرار واقعات "
" اندر چل کر بات کرتے ہیں فی الحال سوٹے مار سکون سے! " میں نے ایک دھپ رسید کرتے کہا۔
سگریٹ نوشی کے بعد اندر جاکر ایک لڑکے آصف سے جو ادھر سوفٹ وئیر ہاوس میں ملازم تھا اور چوکیدار شاہد سے ملاقات ہوئی۔۔
"چلو خان صاحب اچھی سی چائے پلا دو اور ساتھ میں بسکٹ وسکٹ بھی" میں نے فوراً فرمائش کی۔
پھر عمر نے بتایا کہ "اسکا دوست علی آج کل گاؤں گیا ہوا ہے اور رات کو یہ دونوں ہی ہوتے ہیں۔ انکی نیند بہت پکی ہے لیکن اکثر جب اٹھتے تو غسل خانے کا دروازہ کھلا ملتا ہے اور کھڑکی بھی۔ پرسوں رات غسل خانے کی کھڑکی بجنے لگی اور جب یہ باہر گئے تو کوئی بھی نہیں تھا۔ یہ واپس اندر آگئے لیکن کچھ دیر میں تواتر سے کھڑکی کھٹکھنے لگی اور ساتھ ہی دروازے پر بھی دستک ہونے لگی۔ انکی چیخیں نکل گئیں تو انہوں نے علی کو فون کیا اور وہ بھی پریشان ہوگیا۔
میں کل رات ادھر آیا تو پھر کھڑکی بجی اور میں نے بھاگ کر کھڑکی کھولی تو کوئی نہیں تھا لیکن میرے کھڑکی بند کرتے ہی یوں لگا جیسے کسی نے کھڑکی کو مکا مارا ہو اور میں پچھلے قدموں گرگیا۔۔ اسکے بعد تو بمباری شروع۔۔ میں نے آیات بلند آواز پڑھنی شروع کی تو یہ سلسلہ بند ہوگیا"
اتنے میں شاہد چوکیدار چائے لے کر داخل ہوا اور بولا "بھائی صاحب ہم کو دوڑنے بھاگنے کی آواز بھی آتی ہیں لیکن یہ لوگ میرا مزاق بناتے ہیں"
"ادھر نیچے کوئی اور رہتا ہے کیا؟" میں نے چائے کی چسکی لیتے اور ساتھ میں بسکٹ اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں مالک مکان کے رشتے دار ہیں کوئی، مردم بیزار ہی" عمر نے بسکٹوں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا جسکو میں نے رستے میں یہ کہتے ہوئے روک (بلاک) دیا کہ "سدا کے بھوکے بندے حوصلہ کرلے میں نے آج رات کا کھانا نہیں کھایا ہے"
" بھائی میں نے بھی کل دوپہر کا کھانا کھایا ہوا ہے! " عمر نے فریاد کی۔
میں نے ہاتھ جوڑ دیے کہ "یار! میرے کان پک گئے سن سن کے کہ جب تجھ سے پوچھو، تو دو دن کا بھوکا ہی ہوتا ہے۔ اچھا کھا مر! لیکن دو سے زیادہ نہیں" اور باقی دو کو جھوٹی صلاح ماری جو ان دونوں نے فوراً ٹھکرا دی کی کوئی پتا نہیں منہ سے بسکٹ کے چار ٹوٹے کرکے ہاتھ میں نہ پکڑا دے۔۔
"اچھا نیچے والوں کے بچے ہیں کیا؟" میں نے جیمزبانڈ بنتے ہوئے دوسرا بسکٹ منہ میں گھسیڑتے ہوئے پوچھا۔
" ہاں ہیں لیکن وہ آئین سٹائین کی اولادیں شرارتی نہیں ہیں جیمز بانڈ صاحب" عمر نے موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
"تو بھائی کوئی پتا ہو انکے اندر کا بچہ زندہ ہوجاتا ہو" میں نے ڈھیٹ بنتے ہوئے کہا۔
"ٹھک ٹھک" اچانک کمرے سے متصل غسل خانے میں سے آواز آئی۔
"ہائےبھائی" شاہد چوکیدار نے چیخ ماری۔
میں نے اٹھتے ہوئے کہا "حوصلہ کرو یار کوئی چوہا وغیرہ ہوگا" یہ لفظ میرے منہ تھے ہی کہ اچانک غسل خانے کا دروازہ کھل گیا۔
اوہ میرے ہاتھ سے چائے کا کپ الٹ گیا۔ میں نے قدم اٹھانے چاہے لیکن ٹانگیں لگ رہا تھا کسی شکنجے میں ہیں۔ نیچے دیکھا تو شاہد اور آصف میری ٹانگوں سے لپٹے ہوئے تھے۔ عمر کا رنگ فق تھا اور میرے بھی رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔ دل تھا کہ سینے سے باہر آنے کو بے تاب ہورہا تھا۔
" یار وہ۔۔ " میرے بھی الفاظ لڑکھڑاگئے۔۔ "عمر دروازہ بند کر! ہوا سے کھل گیا ہوگا" میں نے اپنی ٹانگیں چھڑواتے ہوئے کہا۔
کھڑکی سے باہر رقص کرتے درخت دیو لگ رہے تھے اور ٹوٹے ہوئے پتے چھت پر عجیب سی آواز پیدا کررہے تھے۔۔ میں نے آیت الکرسی اور چاروں قل کا ورد کیا اور انکو بھی نصیحت کی کہ پڑھو اور غسل خانے کی طرف قدم بڑھائے۔
" نہیں صاحب! " شاہد نے مجھے پکڑلیا۔
"یار اب تو کوئی آواز نہیں ہے باہر بہت تیز ہوا ہے کھل گیا ہوگا" میں نے اپنا بازو چھڑوا کر غسل خانے کی طرف پیش قدمی کی، عمر بھی میرے ساتھ تھا۔ میں نے انتہائی پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھڑکی بند کی۔
"میں ادھر نہیں ٹھہر سکتا" آصف اچھلا اور اس سے پہلے ہم اسے روکتے وہ دروازہ کھول کر باہر بھاگا۔
ہم ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے کہ پھر "ٹھک ٹھک" کی آواز آئی۔ اب عمر نے نعرہ لگایا "بھاگو! " اور ہم بھی دوسرے لمحے دروازے کی طرف لپکے لیکن اندر آتا آصف اچانک بری طرح سے ہم سے ٹکرایا۔
" یار! چڑیل بچاؤ!" یہ الفاظ کہتے ہی وہ بے ہوش ہوگیا۔
شاہد نے کمال مستعدی کا مظاہرے کرتے دروازہ بند کردیا۔
ہم نے آصف کو لٹا کر پانی کی چھینٹے مارے اور مختلف آیات پڑھ کر پھونکیں۔ کچھ ہی دیر میں اسکو ہوش آیا اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ہمیں گھورنے لگا۔۔
" آصف! " عمر نے اسکو جھنجھوڑا تو وہ ایک دم اس سے لپٹ گیا۔
"ہوا کیا تھا یار لے پانی پی" میں نے اسکی طرف پانی بڑھاتے پوچھا۔۔
اب اس نے بتایا کہ "جیسے ہی میں صحن عبور کرکے سیڑھیوں تک پہنچا تو مجھے سفید لباس میں ملبوس ایک لڑکی جس کے بال اسکے چہرے کے سامنے لٹکے ہوئے تھے اوپر آتی نظر آئی۔ میری تو جان ہی نکل گئی اور میں واپس کمرے کی طرف بھاگا۔ بھائی وہ ہمیں نہیں چھوڑے گی۔۔ بھاگ جاؤ۔۔ "
"نیچے والوں کی لڑکی ہے کوئی؟" میں نے پوچھا تو اس نے بتایا "نہیں"
"یہ چڑیل ہے" اب شاہد نے باآواز بلند فرمایا۔۔
یار! تونے اسکا شناختی کارڈ دیکھا ہے کیا؟" میں چڑ کر بولا۔
شاہد سنجیدہ ہی رہا اور بولا "راتوں کو یہ باہر گھومتی ہے اور اسکے چلنے کی آوازیں آتی ہیں۔
"خر خر" جیسے دروازے پر کسی نے ناخن گھسیٹے ہوں۔ "ش۔۔ ش"میں نے منہ پر انگلی رکھتے کہا آصف نے اپنی گود میں منہ چھپا لیا۔۔
ہلکا سا دروازہ ہلا جیسے کسی نے چیک کیا ہوں پھر گہری سانسیں اور دور جاتے قدموں کی چاپ۔۔ ہماری سانسیں رکنے کو تھیں۔۔
"یار دروازہ تو مضبوط ہے لیکن سب کھڑکیوں کے باہر سلاخیں ہیں کیا؟" میں نے پوچھا۔
"سوائے واش روم کی کھڑکی کے" شاہد نے جواب دیا۔
"عمر باہر کا جائزہ لیا جاسکتا ہے کیا؟" میں نے پوچھا۔
" یار! شیشے والی کھڑکیوں کے آگے اگر چڑیل ہوئی تو! " عمر نے پھر ڈرایا۔
پھریکایک وہ غسلخانے کے ساتھ چھوٹے سٹور نما کمرے میں گھس گیا۔۔ میں بھی اسکے پیچھے لپکا۔۔ ادھر ایک چھوٹا سا روشن دان تھا۔۔ عمر نے اس پر ہاتھ ڈال کر اپنے آپکو اوپر اٹھایا اور نیچے اتر کر بولا "چل یار باہر"۔
"کیا ہوا؟" میں بولا۔
"یار نکل" اس نے اصرار کیا۔ " نہیں پہلے مجھے دیکھنے دے" میں نے روشندان سے جھانکا صحن میں ویرانگی تھی لیکن مجھے ہنسنے کی آواز آئی اور پچھلی طرف کی سیڑھیوں میں ہیولے۔۔
"ادھر مر! " عمر نے مجھے نیچے کھینچا، وقت ضائع مت کر "
وہ اور میں باہر کی طرف لپکے اور پچھلے زینے کی طرف بھاگے جو اندر کے صحن میں اترتا تھا۔۔ وہاں دو لڑکیاں جنکی عمریں بالترتیب بیس اور سولہ سال ہونگی چھپی ہوئی تھیں۔ ہمیں سامنے دیکھ کر گڑبڑا گئیں اور ایک نے بال آگے کو گرا کر ہاتھ پھیلا کر ہماری طرف چلنا شروع کیا۔
میں نے برق رفتاری سے اسے بالوں سے پکڑ کر کھینچا اسکی چیخ نکل گئی۔۔ عمر نے دوسری پر دھاوا بولا۔۔ ہم نے انکے منہ پر ہاتھ رکھا اور گھسیٹتے ہوئے کمرے میں لے آئے۔۔
" ہائے ہائے" آصف شاہد نے رولا ڈال دیا۔
ہم نے دونوں لڑکیوں کو زمین پر ٹپکا تو بڑی غرائی کہ "میں شکایت لگاؤں گی"۔
"ہ۔۔ یں" شاہد نے آواز نکالی۔ "خنزیر کی اولاد "۔
"ابے کون ہیں یہ؟" میں نے پوچھا۔
"نیچے والے گھر کی ملازمائیں ہیں" شاہد غرایا۔
اب میں نے کہا "بی بی تم ہمارے کمرے میں ہو! اب میں تمہاری مالکن کو بلاتا ہوں ادھر بندوں کے دل بند ہوجاتے اور تمہارے ڈرامے بند نہیں ہورہے تھے، میں پولیس کو بھی بلاتا ہوں اب جیل میں سڑنا ساری زندگی"
یہ سن کر انکی اکڑ جاتی رہی اب میں نے پوچھا "یہ سب کیا چکر ہے"۔
بڑی والی نے بتایا کہ "ہمیں پتا تھا کہ غسل خانے والی کھڑکی کی کنڈی خراب ہے۔ ہم نے ایک لمبا ڈنڈا بنایا ہوا تھا اور ادھر نکڑ میں بیٹھ کر ہم کھڑکی پر مارتے۔ کبھی کبھار زور سے مارتے تو کھڑکی کھل جاتی لیکن ہوا کے زور سے واش روم کا دروازہ جس کا لاک نہیں ہے صرف چٹخنی ہے جو صرف اندر سے کھلتی اور بند ہوتی ہے وہ بھی کھل جاتا۔
"دھت تیرے کی یہ سائنسدانی ہماری سمجھ میں نہ آئی۔۔ اب سزا تو انکو ملے گی" میں نے اعلان کیا۔
" انکو مرغی بنا کر ہم کو اوپر بٹھاؤ" شاہد خان صاحب نے اعلان کیا۔
" یار معاف کردے کیوں کمر توڑنی ہے! " میں نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔۔
اب لڑکیوں کی آنکھوں میں ڈر، خوف کے ساتھ ساتھ آنسو بھی تھے اور ہم پاکستانی لاکھ ٹھرکی اور برے سہی لیکن صنف نازک کے آنسو نہیں برداشت کرسکتے۔
میں نے کہا "گھبراؤ مت یہ بتاؤ آج گھر میں کیا کیا بنا ہے"
چھوٹی جلدی سے بولی "آج دعوت تھی اور چاول، کباب، کوفتے، مرغی۔۔ "
"اچھا بس بس فوراً ساری چیزیں حاضرکی جائیں" میں بات کاٹتے ہوئے بولا۔
" مالکوں کو کیا جواب دیں گے ہم؟" بڑی نے چھوٹی کی طرف دیکھتے ہوئے دانت پیستے ہوئے پوچھا۔
"او ہیلو بی بی" اب میں نے کہا! "وہ تم نے اپنے پیٹوں میں یا بلیوں کو ڈالنا ہوتا ہے اب زیادہ تڑ مڑ نہیں! چھوٹی ادھر ہی بیٹھی ہے تم جاؤ! ورنہ ہم اتنے شریف نہیں جتنے نظر آرہے ہیں "
یہ سنتے ہی وہ نیچے کی طرف بھاگی اور کچھ دیر میں ایک ٹرے لائی اور کہا "چھوٹی کو بھی بھیج دیں باقی چیزیں لے آئی گی"
میں نے کھانے پر ٹوٹتے ہوئے کہا "بالکل! " اور کچھ دیر میں ہم اس طرح کھانے پر ٹوٹے جیسے کبھی وقار وسیم دوسری کرکٹ ٹیموں پر ٹوٹتے تھے۔۔
" او بھائی عمر سانس لے لے، کیا پورے ہفتے کا کوٹا پورا کرے گا" میں نے عمر کو ٹوکا۔ "چلو پانی لے کرآؤ! وہ نیسلے کاہونا چاہئے! " میں نے بڑی کو حکم دیا اور وہ پاؤں پٹختی نیچے گئی۔۔
کھانے کے بعد باآواز بلند ڈکاروں کے بعد چائے کا نعرہ لگایا گیا اور مزیدار چائے پی کر میں نے جیب سے پچاس پچاس کے دو نوٹ نکال کر حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر انکے حوالے کیے جو بڑی نے نخوت سے لینے سے انکار کردیا اور میں نے چھوٹی کو دے دیا کہ بڑی سچی اور پیاری بچی ہے۔
"اگر اسکو بعد میں کچھ کہا تو خیر نہ ہوگی، "میں نے بڑی کو تنبیہہ کی۔ "اب جاؤ! "
اتنا کھانے کے بعد مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ اپنے فلیٹ پر جاتا اسلئے ادھر ہی لم لیٹ ہوگیا۔
تو دوستوں اس طرح ہم نے بھوت بنگلے کی چڑیلوں کوقابو کیا۔