Tosee Pasandi Ka Dhanda
توسیع پسندی کا دھندہ
امریکی اور ان کے ہمنوا جب کسی کے مخالف ہوتے ہیں تو سب سے پہلے اس کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ سوویت یونین امریکہ سرد جنگ کا زمانہ یاد کیجئے، امریکی ذرائع ابلاغ نے سوویت قیادت اور کمیونسٹوں کے خلاف کیسے کیسے لطاف گھڑے تھے۔
ہمارے یہاں ذوالفقار علی بھٹو کے لئے امریکی ٹوڈیوں (ان میں صحافی، مولوی، سیاستدان اور سرمایہ کار شامل تھے) نے کیا کیا نہیں لکھا کہا۔ اسی طرح یورپی ذرائع ابلاغ جوکہ بنیادی طور پر امریکی ذرائع ابلاغ سے متاثر ہیں ہر اس شخص کو امن، جمہوریت، انسانیت اور ترقی کے دشمن کے طور پر پیش کرتا ہے جو امریکہ و یورپی مفادات کو مدِنظر نہ رکھے۔
مثلاً آپ ذوالفقار علی بھٹو کے دور اور خصوصاً قومی اتحاد کی ڈالروں والی تحریک جسے لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکانے کے لئے تحریک نظام مصطفیؐ کا نام دیا گیا تھا کے دوران بی بی سی لندن کے غیر ذمہ دارانہ کردار کا تجزیہ کیجئے۔
کیسے امریکی کیمپ کے مفادات کے تحفظ میں بی بی سی نے رائی کو پہاڑ بناکر پیش کیا۔ اُن دنوں ہمارے ذرائع ابلاغ اور احتجاجی تحریک والے بی بی سی کی پاکستان میں حکومت مخالف تحریک پر نشر کی جانیوالی رپورٹوں سے رزق پاتے تھے۔
امریکی اپنی مخالف بین الاقوامی شخصیات کا تمسخر اڑواتے ہیں اس کی تازہ مثال دینے سے قبل یہ عرض کردوں کہ سیاست، تاریخ اور صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے روس کے یوکرائن پر حملے کی امریکہ کی نفرت میں تائید ممکن نہیں۔ اس حملے (جنگ) کے لئے روس کے پاس جو بھی جواز ہوں ہمارے سامنے عراق پر امریکی حملے کے لئے گھڑے گئے جوازوں اور لیبیا میں برطانیہ، فرانس اور اٹلی کی دراندازی سے قذافی کے سفاکانہ قتل تک یا پھر یمن پر عرب اتحاد کی مسلط کردہ جنگ کے جوازات کی کہانیاں موجود ہیں۔
ہماری (ہم پاکستانیوں کی) بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنے عصر کی سچائی کا ساتھ دینے کی بجائے ڈھمکیریاں گھڑتے ہیں۔ عرب اتحاد کی یمن میں ڈھائی گئی سفاکیت پر چپ رہتے ہیں۔ یوکرائن کے معاملے میں اکثریت امریکی موقف کی ہمنوا ہے اور ایک طبقہ روس کو بھی درست قرار دے رہا ہے۔
ہم عراق اورشام میں ہوئی داعش گیری اور النصرہ فرنٹ کے خلاف عراقیوں اور شامیوں کی داخلی مزاحمت کو اپنے اپنے عقیدوں کی عینک سے دیکھنے اور پیش کرنے پر بضد تھے۔ وجہ یہ تھی کہ یہاں ایک طبقہ اپنے عقائد کی بنا پر داعش کاحامی تھا تو دوسرا طبقہ عراق اور شام کی داخلی مزاحمت اوراس کے معاونین ایران اور لبنانی حزب اللہ کے ساتھ کھڑا تھا۔ ساعت بھر کے لئے رُکئے۔
میں تازہ مثال عرض کئے دیتا ہوں۔ نیویارک ٹائمز میں گزشتہ روز معروف کالم نگار مارین ڈاوڈ نے ایک روسی ماہر نیناخروشیفا کے حوالے سے لکھا "صدر پیوٹن ہیں تو پانچ فٹ چھ انچ کے آدمی مگر خود کو پانچ فٹ سات انچ کا سمجھتے ہیں "۔ مارین نے دوسرے امریکی صحافیوں اور حکومتی ترجمانوں کی طرحد ولادی میر پیوٹن کو زار روس کی ذہنیت والا حکمران قرار دیا۔
بات دور نکل گئی، عرض یہ کرنا تھا کہ پچھلے چند برسوں سے عالمی سیاست کے دو بڑے گروپوں جس میں ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں اور دوسری طرف ایران، روس اور چین، دونوں کے درمیان مختلف معاملات پر کھلے اختلافات سامنے آئے، یہ اختلافات شام میں بشارالاسد حکومت کی داعش اور النصرہ فرنٹ سمیت ان جنگجوئوں کے خلاف اتحادیوں کے تعاون سے ہوئی مزاحمت کے برسوں میں پیدا ہوئے اور اسی عرصہ میں شدت اختیار کرگئےوجہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سپانسرڈ جنگجو تنظیموں کی شکست تھی۔ ہمارے ہاں چونکہ اس سارے معاملے کو عقیدوں کی تاریک عینک سے دیکھنے کا چلن عام ہے۔
اس لئے جب بھی کوئی شام کی داخلی مزاحمت یعنی بشارالاسد کی حمایت کرتا دیکھائی دے گا اس پر ایران نواز ہونے کی پھبتی کسی جائے گی۔ یہی رویہ یمن کے حوالے سے ہے۔ اگر آپ عرب اتحاد کے حامی ہیں تو سعودی نواز عقائد والے قرار پائیں گے۔ حوثیوں کے ہمدرد ہیں تو ایرانی پٹھو۔ یہ سوچنے کی ضرورت کوئی بھی محسوس نہیں کرتا کہ علی عبداللہ صالح کی جگہ منصور ہادی کو کون لایا اور کیا یمن کی صدارت کا فیصلہ یمنی عوام نے کرنا تھا یا پڑوسی ملک کے دارالحکومت کے ایک دربار میں ہونا چاہئے تھا۔
اب آیئے ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں تو اپنی بات مزید وضاحت کے ساتھ عرض کیئےدیتا ہوں، اگر یمن کی صدارت اور نظام کا فیصلہ پڑوسی ملک میں کرنے اور پھر اس فیصلے کے خلاف یمن میں ہونے والی مزاحمت کو بغاوت قرار دے کر اس پر جنگ مسلط کرنا جائز عمل ہے تو کھلے دل سے مان لیجئے کہ روس نے بھی ویسے ہی "خطرات" کو "بھانپ" کر یوکرائن پر حملہ کیا ہے۔
معاف کیجئے منافقت کی بجائے جرأت رندانہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ دو دن اُدھر ایک نوجوان نے داعش کے مجموعی کردار اور یمن تنازع پر میرے موقف پر سوال کیا، آپ ایرانی مداخلت کے حامی ہیں؟ عرض کیا دو باتیں الگ الگ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اولاً داعش کے خلاف بننے والے مزاحمتی اتحاد کو عراق اور شام کی حکومتوں کے ساتھ عوام کے بڑے طبقے کی بھی تائید حاصل تھی۔ ایران اور اس کی حامی حزب اللہ کو شام میں مزاحمت میں حصہ لینے کی اجازت ایک معاہدہ کے تحت ملی تھی جو شام ایران اور حزب اللہ میں ہوا۔
یمن کی صدارت کا فیصلہ پڑوسی ملک میں کئے جانے سے تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔ اس تنازع میں علاقائی سیاست کا ایک فریق یمنی حوثیوں کے ساتھ ہے۔ اس کی مذمت سے قبل دو باتوں کی مذمت ازحد ضروری ہے اولاً منصور ہادی کو غیرقانونی طور پر یمن کا صدر بنایا جانا، ثانیاً یمن پر جنگ مسلط کرنا۔
ہمیں بیرونی مداخلت کو پسند و ناپسند یا عقیدوں کی عینک سے دیکھنے کی بجائے زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھنا سمجھنا چاہیے۔ یہی اصول ہمیں افغانستان کے حوالے سے بھی اپنانا ہوگا۔ نفع نقصان کی پروا کئے بغیر ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ بیرونی مداخلت کاروں نے افغانستان کو تباہ کیا۔ ہم بدقسمتی سے بیرونی مداخلت کاروں کو بھی عقیدوں اور ممالک سے تعلق کی رعایت دیتے ہیں یہی اصل اور بنیادی غلطی ہے۔
اس سے بڑی غلطی یہ ہے کہ حکومتوں کے درمیان سمجھوتوں کو ہم اپنی مرضی و منشا کے مطابق دیکھتے اور پیش کرتے ہیں۔ افغان انقلاب ثور میں افغان انقلابیوں اور سوویت یونین کے معاہدے کو بھی ہم نے مداخلت قرار دیا بلکہ یوں کہہ لیجئے قبضہ۔ پھر کیا ہوا دنیا بھر کے جہادیوں کیلئے جنت بن گیئے پاکستان اور افغانستان۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مجھ ایسے طالب علم کے نزدیک مقامیوں کا حق حکمرانی ان کا جمہوری قانونی اور اخلاقی حق ہے۔ مسلح بغاوتیں گھر، دنیا اور پڑوس میں غلط ہیں تو پھر ہر جگہ غلط اور اگر ان میں کسی بھی طرح کی پسند و ناپسند آپ کا حق ہے تو دوسروں کو بھی یہ حق دیجئے اپنی رائے کی تلوار بناکر گردنیں مارنے کا کاروبار نہ شروع کردیجئے۔
امریکی سامراج کی عالمی بالادستی کے جنگی جنون، کمزور ریاستوں کے وسائل پر قبضے وغیرہ کی اپنی تاریخ ہے۔ حیرانی ہوتی ہے جب سوویت یونین کی توسیع پسندی کی مثالیں پیش کرنے والے اس سے قبل کے زمانوں کی توسیع پسند حکومتوں کو اپنے مذہب اور عقیدے کے نام پر "عین حق" کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
توسیع پسندی بنیادی طور پر ریاستی کاروبار ہے یہ ہر دور میں رہا اب بھی ہے طریقہ واردات بدلہ ہے، توسیع پسندانہ کاروبار جوں کا توں ہے۔ اچھا کیا کبھی برطانوی سامراج نے دنیا کو لوٹنے کے اپنے جرائم پر کرہ ارض کے انسانوں سے معافی مانگی۔ امریکیوں نے سفید جھوٹ کا سیاپا کرکے عراق کو برباد کرنے پر معذرت کی۔ حضور کوئی بھی طاقتور اپنے جرائم کے لئے تاویلات گھڑتا اور پیش کرتا ہے، دروغ گوئی پر معذرت نہیں کرتا۔
معاف کیجئے گا کالم کچھ نہیں زیادہ ہی ثقیل اور بوجھل بھی ہوگیا ہے۔ مختصراً یہ کہ قوموں کے حق خودمختاری کا احترام سب کو کرنا چاہیے۔ بیرونی مداخلت کی کوئی بھی صورت کبھی بھی درست نہیں ہوتی۔ جنگ بربادیوں کے سوا کچھ نہیں دیتی کبھی جنگوں کو مذہبی جذبوں سے مقدس بناکر پیش کیا جاتا تھا آج جنگوں کو پروپیگنڈے کے زور پر درست منوانے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ ہم سبھی مشروط تائید اور مشروط مذمت کے حامی ہیں بس اعتراف نہیں کرتے۔
حرفِ آخر یہ ہے کہ آنکھیں بند کرکے روس اور امریکہ میں سے کسی ایک کی حمایت یا فیشنی امریکی مخالفت دونوں درست نہیں۔ پورا سچ یہ ہے کہ قوموں کے حق خودارادیت، ان کی جغرافیائی حیثیت اور حق حکمرانی کا احترام سب کو کرنا چاہیے۔ کسی اگرمگر مذہب و عقیدے یا سیاسی مفادات کی سطح سے اوپر اٹھ کر۔