NAB Ordinance, Mustaqbil Ke NRO
نیب آرڈیننس، "مستقبل"کے لئے این آر او
نیب آرڈیننس پر مسلم لیگ (ن) کے اندرمختلف آراء کا ذکر کرتے ہوئے پنجاب مسلم لیگ (ن) کے صدر رانا ثناء اللہ کہتے ہیں "پارٹی کا ایک گروپ یہ سمجھتا ہے کہ آرڈیننس چیلنج کرنے سے کوئی مشکل فیصلہ بھی آسکتا ہے"۔ رانا جی کی یہ گفتگو سن کر فقیر راحموں بولے "کوئی انہیں سمجھائے کہ تاریخ کا فیصلہ اہم ہوتا ہے لیکن اس کے لئے تاریخ میں زندہ رہنے والے عمل کرنا پڑتے ہیں"۔
بدھ کا دن گرما گرم خبروں کا دن تھا۔ آپ جناب سرکار کی گردان کرنے والے موسمی ڈوموں کی باتیں سن کر لگتا تھا کہ آپ جناب سرکار پانی پت کی دوسری جنگ میں شامل باجہ رہے ہیں۔ نیب آرڈیننس 2021ء کی تفصیلات آپ پڑھ چکے ہوں گے۔ فقیر راحموں کے بقول کہ "آرڈیننس کیا ہے، مستقبل کا انتظام ہے"۔ یہ رائے کچھ غلط بھی نہیں۔ وفاقی اور صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کردیئے گئے ہیں اب یاد کیجئے کہ گزشتہ برسوں میں نیب نے حکومت کے کتنے مخالفین کے خلاف اس بنیاد پر ریفرنس بنائے تھے، شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور احسن اقبال یا پھر سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کے خلاف نیب نے کن فیصلوں کوبنیاد بناکر انہیں خوار کیا۔
مشترکہ مفادات کونسل، این ای سی ، ایکنگ، سی ڈی ڈبلیو پی کمیٹیوں کے فیصلے اور منصوبوں میں قواعدوضوابط کی بے ضابطگی سمیت ٹیکس معاملات بھی نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں گے۔ باردیگر عرض کئے دیتا ہوں (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کے خلاف پچھلے تین برسوں میں نیب کی انکوائریوں اور ریفرنسز کا بغور جائزہ لیجئے آپ کو بات سمجھ میں آجائے گی۔ یہ درحقیقت مستقبل کا انتظام ہے اس سے نرم الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ "اپنے لئے این آر او جاری کیا گیا ہے"۔ جو معاملات قبل ازیں جرم تصور کئے گئے اور لوگوں کو تفتیش سے قبل مجرم بناکر میڈیا ٹرائیل کیا گیا اب ان معاملات پر سوال نہیں ہوسکے گا۔
(ن) لیگ اور پیپلزپارٹی نے فی الوقت تو نیب آرڈیننس کو مسترد کردیا ہے۔ اپوزیشن مل کر کوئی حکمت عملی وضع کرے گی یا پھر الگ پروازیں جاری رہیں گے اور دونوں بڑی جماعتوں کے میڈیا سیل یہ ثابت کرتے رہیں گے کہ ہم نہیں اس نے مفاہمت کا راستہ اختیار کیاہے، وزیر قانون فروغ نسیم کہتے ہیں، نئے چیئرمین کے لئے شہباز شریف سے نہیں اپوزیشن سے مشاورت ہوگی۔ یہ صاحب پاکستان اور لندن میں مجاہد ملت الطاف حسین کے وکیل رہے۔ فوجی آمرجنرل پرویز مشرف کے بھی وکیل تھے۔ وکلاء برادری انہیں شریف الدین پیرزادہ کا نیا جنم کہتی ہے۔
نیب چیئرمین کی مدت 4سال کردی گئی ہے توسیع بھی ہوسکے گی، احتساب عدالتوں کے ججوں کا تقرر 3سال کے لئے ہوگا، کسی بھی ملزم کو کرپشن کی رقم کے مساوی زرضمانت جمع کروانے پر ضمانت مل سکے گی۔ اس شق پر اٹارنی جنرل آفس کے اعتراضات وزیر قانون نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیئے۔ اس آرڈیننس کے تحت صدر مملکت نیب عدالتوں کا جمعہ بازار لگانے میں کلی طور پر بااختیار ہوں گے۔ نجی کاروباری افراد، بینک معاملات و مقدمات بھی نیب کے دائرے میں نہیں رہے۔
آرڈیننس کیا ہے، قانون سازی کی بجائے آرڈیننس کا راستہ کیوں اختیار کیا گیا؟ سادہ جواب یہ ہے کہ پارلیمانی سرگرمیوں سے حکومت کو دلچسپی ہے ہی نہیں ویسے بھی پارلیمان کیا ہے 2سال سے تو ڈپٹی سپیکر ایک حکم امتناعی کے بل بوتے پر مسند نشین ہے۔ ان سطور میں تواتر کے ساتھ کی گئی بات مکرر سوال کی صورت میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔"جب ہر محکمہ اندرونی معاملات میں کارروائی کے لئے خودمختار ہے تو پارلیمان کیوں نہیں؟ کرپشن کے شوروغل سے صرف سیاستدانوں کو کس منصوبے کے تحت بدنام کیا گیا۔ ملک کا اقتدار اعلیٰ اصل میں کس کے پاس ہے یہ اور اس سے ملتے جلتے کئی سوال اور ہیں لیکن سوالوں میں کیا رکھا ہے۔
نیب جب احتساب سیل تھا تب بھی شخصی طاقت کا مظاہرہ تھا، مخالفین کے خلاف، مشرف دور میں احتساب سیل کا درجہ بلند کرکے اسے نیب کا نام دیا گیا، ماسوائے پیپلزپارٹی کے سب نے اسے مخالفین کی گردن کا "سائز" ناپنے اور لکھنے کے لئے استعمال کیا۔ مشرف نے اسی نیب کے بل بوتے پر سیاسی جماعتیں توڑ کر ق لیگ کو جرنیلی جمہوری جماعت بنوایا۔
پیپلزپارٹی نے اپنے دور میں نیب قوانین میں ترمیم کا بل پیش کیا تھا۔ اس وقت کے اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی خان کی تقریر ریکارڈ سے نکلواکر دیکھ لیجئے، اڑھائی گھنٹے کی تقریر میں ٹیپ کا مدعا یہ تھا کہ "پیپلزپارٹی ملک کو لوٹنے کا باضابط لائسنس دینا چاہتی ہے" ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
خیر ماضی بعید کو چھوڑیں آج کی باتیں کرتے ہیں۔ نیب چیئرمین کے لئے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت لکھی تھی ترمیمی آرڈیننس میں یہ مشاورت صدر کریں گے، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر سے، کیوں؟ اس کا جواب وزیر قانون فروغ نسیم کے بیان میں موجود ہے۔ اثاثہ جات کی جامع تعریف اور 11شقوں میں ترامیم کو وزیر قانون تاریخی بتارہے ہیں۔ پراسیکیوٹر جنرل کے اختیارات میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ جاوید اقبال بدستور نیب کے چیئرمین رہیں گے اس وقت تک جب تک نئے چیئرمین کے لئے مشاورت مکمل نہیں ہوجاتی۔
یہ مشاورت کب ہوگی، وزیراعظم کا تو اپوزیشن لیڈر کا نام سنتے ہی خون کھول اٹھتا ہے۔ ترمیمی نیب آرڈیننس مجریہ 2021ء سے حکومت کیا حاصل کرنا چاہتی ہے اور کیا اپوزیشن واقعی مزاحمت کرے گی؟ دونوں باتیں اہم ہیں لیکن برسوں سے پیش کی جاتی یہ تجویز نظرانداز ہوگئی کہ نیب کا دائرہ اختیار بڑھایا جائے یا پھر ایف آئی اے اور نیب کو ملاکر ایک ادارہ تشکیل دے لیا جائے۔
حیرانی اس بات پر ہے کہ ہر اعتبار سے متنازعہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال بدستور نیب کے سربراہ رہیں گے اس وقت تک جب تک نئے چیئرمین کا انتخاب نہیں ہوجاتا۔ اس اہتمام کا ضرورت کیا آن پڑی تھی۔ جاوید اقبال کے پاس ایسی کیا گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ ناگزیر ہیں۔ بطور جج بھی وہ منفرد فیصلوں والے جج نہیں تھے ان کی شہرت ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساجھے دار کی رہی انہیں ہر اس مقام پر فائز کیا گیا جہاں اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کا تحفظ بہت ضروری تھا۔
بہرطور نیب آرڈیننس 2021ء سے سیاسی گرماگرمی پیدا ہوگی اور بڑھے گی بھی۔ اصولی طور پر اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ آرڈیننس فیکٹری کے خلاف احتجاج کا پارلیمانی اور عوامی راستہ اپنانے کے ساتھ اسے عدالت میں چیلنج کرے لیکن کیا بکھری ہوئی اپوزیشن ایسا کرپائے گی؟ کم از کم تاریخ و سیاسیات کے اس طالب علم کو ایسا ہوتا ہوا نہیں لگ رہا وجہ یہی ہے کہ نظریاتی سیاست کی جگہ شخصیت پرستی اور نفرت و کردار کشی کو سیاست بناکر پیش کیا گیا ہے۔
یہ جو "جھولے لعل" پروگرام چل رہے ہیں ان کا خمیازہ رعایا کو بھگتنا پڑے گا۔ بدزبانوں کا ایک بے قابو ہجوم ہے، بات بات پر گالی اچھالتا ہوا اسے کون روکے گا۔ واحد طریقہ نظریاتی بنیادوں پر سیاست کا احیا ہے لیکن کیا جنہوں نے 20سال کی محنت اور اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرکے سیاست کو گالی بنوایا ہے وہ نظریاتی سیاست کا احیا ہونے دیں گے؟
اصل سوال یہی ہے اس پر غور کیجئے۔ مستقبل کا منظرنامہ سمجھ میں آجائے گا۔ مکرر یہ عرض کردوں کہ پارلیمنٹ کو نظرانداز کرنے کی روش خود حکمران جماعت کے لئے بھی اچھی نہیں مگر کیا یہاں واقعی حکومت وہی کررہے ہوتے ہیں جو سامنے ہوں؟ آپ اس سوال پر غور کیجئے۔