Murshid Ke Muhib Ka Khat Aur Peoples Party Ka Awami March
مرشد کے محب کا خط اور پیپلزپارٹی کا عوامی مارچ
پیپلزپارٹی کا عوامی مارچ گزشتہ شب سندھ سے سرائیکی وسیب میں داخل ہوگیا۔ ابتدائی طور پر چند مقامات پر مقامی قافلوں کو مرکزی جلوس میں شامل ہونے سے روکنے کے لئے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں لیکن یہ ہتھکنڈہ ناکامی سے دوچار ہوا۔ ویسے اس کی ضرورت نہیں تھی۔ مرشد نے تو لاڑکانہ میں درسِ جمہوریت دیتے ہوئے کچھ کہا تھا وہ رحیم یار خان کی حدود میں اپنائے گئے ہتھکنڈوں کو جوابی "درسِ جمہوریت" کہیں گے یا پھر افسر شاہی کی ذاتی "طبلہ نوازی"؟
شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار مسائل پیدا کرتے ہیں۔ مرشد کے لانگ مارچ پر لکھے گئے کالم کے جواب میں بہاولپور سے چودھری صادق حسین نے ای میل کے ذریعے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے لکھا"شاہ جی لگتا ہے پیپلزپارٹی سے اچھا خاصا " مال مل" رہا ہے اسی لئے مخدوم شاہ محمود قریشی جیسی معزز ہستی کے خلاف کالم لکھ مارا، مخدوم صاحب اور ان کی جماعت سندھیوں کو سرداروں، وڈیروں اور زرداریوں سے نجات دلانے کی جدوجہد کررہے ہیں۔
پاکستان توڑنے والی پیپلزپارٹی کے حامی اور تنخواہ دار کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ سندھ میں لوگوں کو بھٹو کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے سیاسی جدوجہد ہو۔ چودھری صاحب نے مزید لکھا اس وقت عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز وزیراعظم عمران خان اور سندھ کو بھٹو پارٹی سے نجات دلانے کی جدوجہد کے قائد مخدوم شاہ محمود قریشی ہیں۔ پی پی پی کی محبت میں آپ سندھ میں پیپلزپارٹی کے خلاف تاریخی لانگ مارچ کو 317 نفوس پر مشتمل قرار دے کر لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں "۔
چودھری صاحب سے دلی معذرت، انہیں رنج پہنچا، ہمارے ایک گزشتہ کالم سے۔ سندھ بچائو لانگ مارچ میں واقعی سندھیوں کا سیلاب امڈ آیا تھا اسی لئے بلاول اپنی پارٹی سمیت مرکزی شاہراہ کے راستے سے سندھ سے نکل گیا۔ امید ہے کہ اب تک سندھ آزاد ہوچکا ہوگا۔ آزادی میں کچھ تاخیر ہوجائے تو چودھری صاحب یقیناً اسی محبت سے آگاہ کریں گے جس محبت سے انہوں نے گزشتہ کالم پر اپنے اختلاف سے آگاہ کیا۔
پیپلزپارٹی نے پاکستان توڑا تھا، یہ تو مجھے آج پتہ چلا لیکن اپنے جنرل چودھری محمد ضیاء الحق جالندھری گیارہ برس اس ملک کے اقتدار اعلیٰ پر قابض رہے انہیں کیا ضرورت آن پڑی تھی بھٹو کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں پھانسی چڑھانے کی۔ صاف سیدھا غداری اور ملک توڑنے کے الزام میں پھٹے چڑھاتے جان چھوٹ جاتی۔ پیپلزپارٹی نے کیا تنخواہ دینی ہے اس پر بہت کچھ عرض کرسکتا ہوں لیکن چھوڑیں۔
وہ عالم اسلام ہے کہاں جس کی امیدوں کا مرکز عمران خان ہیں؟ یہ اسلام کا قلعہ، خوابی بشارت کی تعبیر میں بنا ملک، محافظ اسلام اور دو قومی نظریہ والے چکڑ چھولے بہت فروخت ہوگئے اور کھالئے گئے یہاں اب کوئی اور بات کیجئے۔ بات اگر مزید وضاحت کے ساتھ سمجھنی ہو تو دو پڑوسی اسلامی ملکوں سے تعلقات کی موجودہ صورتحال پر ایک نگاہ دوڑالیجئے، دماغ کی بتی روشن ہوجائے گی۔
مرشد سندھیوں کو سرداروں، وڈیروں، زرداریوں سے نجات دلانے نکلے ہیں "ست بسم اللہ"۔ مگر مرشد خود بھی ایک بڑے جاگیردار اور پیر ہیں۔ ان کے ساتھ علی زیدی تھے وہ کیا کراچی میں حلیم کی ریڑھی لگاتے ہیں، حلیم عادل شیخ فروٹ کا ٹھیلہ؟ عجیب بات نہیں مرشد کو ووٹ دینے والے باشعور رائے دہندگان اور پیپلزپارٹی کو ووٹ دینے والے ذہنی غلام؟
چلئے چھوڑیں ہم پیپلزپارٹی کے عوامی لانگ مارچ پر بات کرتے ہیں۔ ان سطور کی اشاعت سے قبل یہ عوامی مارچ رحیم یار خان سے ملتان پہنچ کر جلسہ عام میں تبدیل ہوچکا ہوگا۔ جمعہ کو اس عوامی مارچ نے ملتان سے لاہور کی طرف روانہ ہونا ہے۔
اس عوامی مارچ کی خبروں کو لاہور بیس الیکٹرانک میڈیا اور بعض اخبارات نمایاں کوریج کیوں نہیں دے رہے اور سول سپر میسی برانڈ یوٹیوبرز کی زبانوں کو "لقوہ" کیوں ہوگیا ہے اس پر سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ عوامی مارچ کے سرائیکی وسیب اور پنجاب کے وسطی علاقوں میں پذیرائی آئندہ انتخابی سیاست پر اثرات مرتب کرے گی۔
جن لوگوں کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی کی مفاہمتی سیاست نے اسے پنجاب میں برباد کیا ان کے لئے قبلہ مرشد سئیں کا تازہ بیان پیش خدمت ہے۔ مرشد فرماتے ہیں "بلاول ووٹوں سے وزیراعظم نہیں بن سکتے "۔ ایک لحاظ سے یہ بات درست ہے اور کم از کم میں اسے 2018ء کے انتخابی نتائج کے حوالے سے سوفیصد درست سمجھتا ہوں وہ نتائج کون سا ڈالے گئے ووٹوں کی بنیاد پر تھے، 2013ء کی طرح کا ہی فراڈ تھا۔ شکر ہے اب مرشد سئیں نے اقرار کیا کہ ووٹوں سے وزیراعظم نہیں بنا جاتا۔
فقیر راحموں بڑا ظالم ہے کہتا ہے کہ سندھ بچائو لانگ مارچ اگر مرشد اپنے ملتان والے حلقہ انتخاب سے شروع کرتے تو زیادہ بہتر نتائج مل سکتے تھے۔ پیپلزپارٹی کے عوامی مارچ میں لوگ گاڑیوں پر کیوں سوار ہیں۔ یہ سوال ہمارے کچھ "ترقی پسند" دوست آج کل زوروشور سے اٹھارہے ہیں۔ ایک کھڑوس قسم کے ترقی پسند نے تو یہ تک کہہ دیا کہ مائوزے تنگ نے لانگ مارچ پیدل کیا تھا۔
ارے حضور مائوزے تنگ کے دور میں آج جتنی ٹرانسپورٹ سہولیات ہوتیں وہ بھی یہی کرتے۔ کبھی جنگیں گھوڑوں پر سوار لشکروں اور پیدل دستوں میں ہوتی تھیں۔ اب بمباری ہوتی ہے راکٹ داغے جاتے ہیں۔ اپنے اس کھڑوس ترقی پسند دوست سے فقیر راحموں نے کہا"آپ کامریڈ ولادی میر پیوٹن کو کیوں نہیں سمجھاتے کہ راکٹ میزائل مارنے بم گرانے اور ٹینکوں کے دستے بڑھانے کی بجائے تلوار اٹھائیں، گھوڑے پر سوار ہوں اور "دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے" گاتے ہوئے آگے بڑھیں۔
جواب میں کھڑوس ترقی پسند نے یوں دیکھا جیسے فقیر راحموں کا دماغ چل گیا ہو۔ خیر کوئی بات نہیں اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
پچھلے کئی برسوں سے تبدیلی کی محبت میں گرفتار پرانے جیالے حاضر انصافی ان دنوں دشنام طرازیوں کی مذمت کرتے ہوئے دو باتیں کہتے ہیں پہلی یہ کہ اس کی موجد (ن) لیگ ہے دوسری یہ کہ پیپلزپارٹی کا تو وجود ہی نہیں۔ دشنام طرازی کی موجد مسلم لیگ ہی ہے لیکن جس بام عروج پر تبدیلی پسندوں نے پہنچایا اس کی مثال ملنا ذرا مشکل ہے۔
پیپلزپارٹی کا وجود ہی نہیں تو یہ اٹھتے بیٹھتے رونا دھونا کیسا؟ کیوں سر کھپاتے اور خون جلاتے رہتے ہیں۔ تبدیلی کی حفاظت کیجئے اور ہوسکے تو پتہ کیجئے کہ آستانہ عالیہ آبپارہ شریف کے نئے سجادہ نشین نے گزشتہ ہفتے کے دوران کن کن لوگوں سے تین عدد ملاقاتیں پھڑکائیں اور کیا یقین دہانیاں کروائی ہیں۔
بات پیپلزپارٹی کے عوامی مارچ کی ہورہی تھی اس مارچ نے سیاسی ماحول گرمادیا ہے۔ پیپلزپارٹی ایک سیاسی حقیقت ے کوئی مانے یا نہ مانے۔ سیاسی اتارچڑھائو سیاست کا ہی حصہ ہے۔ اچھا اگر بقول "آپ" عوامی مارچ ٹھس ہوکر رہ گیا ہے تو پھر پریشانی کس بات کی۔ پریشانی سے تو یہ لگتا ہے کہ ٹھس ہونے کا دعویٰ جی بہلانے کے لئے ہے۔ رحیم یار خان میں اس عوامی مارچ کے استقبال نے خطرے کی گھنٹیاں بجادی ہیں دِلوں میں بھی اور "آستانوں " میں بھی۔
اُدھر بتایا جارہا ہے کہ عدم اعتماد کے لئے تیاریاں مکمل ہیں اگلے 48گھنٹے (ان سطور کے لکھے جانے کا وقت شامل نہیں) بہت اہم ہیں۔ وفاقی وزراء جوابی دعوے کررہے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے 18ارکان ہمارے رابطے میں ہیں، تحریک عدم اعتماد آنے دیں اُڑاکر رکھ دیں گے۔
اب کالم کی آخری سطور میں پیکا آرڈیننس پر ایک دو باتیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری نے کہا ہے کہ "حکومت یہ آرڈیننس واپس لینے کو تیار ہے"۔ اصولی طور پر اس آرڈیننس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اپنی بوئی فصل کے کاٹنے پر جن لوگوں کو تکلیف پہنچی انہیں بدزبانی کی فصل بوتے وقت سوچنا چاہیے تھا۔
خواتین صرف دوسروں کے گھروں میں نہیں رہتیں اور زبان دوسروں کے منہ میں بھی ہے۔ مناسب یہی ہے کہ آرڈیننس واپس لے لیا جائے اور پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، یہ شکوہ کہ فیصلے جلد نہیں ہوتے تب درست ہوگا جب اپنے خلاف زیرسماعت دعوئوں میں تاریخ پہ تاریخ نہ لی جاتی ہو۔