Lahu Mein Doobe Phoolon Ke Shehar Peshawar Ka Noha
لہو میں ڈوبے پھولوں کے شہر پشاور کا نوحہ
پشاور کے کوچہ رسالدار میں واقعہ تین منزلہ جامع مسجد شہر قدیم گنجان آباد علاقے میں ہے۔ کالے کپڑے پہنے ایک دہشت گرد بڑے اطمینان سے چلتا مسجد کی طرف بڑھتا دیکھائی دیتا ہے پھر اچانک اس نے پسٹل نکالا اور مسجد کے باہر گلی میں 2پولیس اہلکاروں کے ساتھ محافظ پر فائر کھول دیا۔ یہ تین افراد گولیاں لگنے سے گرے گلی میں بھگدڑ مچ گئی۔ دہشت گرد تیزی کے ساتھ مسجد کے اندر داخل ہوا۔ پہلی منزل کے مرکزی ہال میں نمازیوں کی صفوں کو پھلانگنے کے دوران اس نے فائرنگ جاری رکھی اور پھر محراب و منبر کے مقابل پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑالیا۔ خانہ خدا خون میں ڈوب گیا۔
جمعہ 4مارچ کی دوپہر کوچہ رسالدار کی جامعہ مسجد امامیہ میں ہونے والے اس خودکش حملے میں متعدد بچوں سمیت 57 نمازی اور 2پولیس اہلکار شہید ہوئے (مزید 6 زخمیوں کے دم توڑ جانے سے 63 افراد شہید ہوچکے ہیں )۔ 200سے زائد نمازی زخمی۔ پھولوں کا شہر پشاور رنج و غم میں ڈوب گیا۔ پولیس حکام کے مطابق خودکش حملے میں 5سے 6کلو بارودی مواد استعمال ہوا۔ پیشگی حملے کی اطلاعات نہیں تھیں۔ پولیس حکام بھی مقامی شہریوں کے اس موقف سے اتفاق رکھتے ہیں کہ دہشت گرد نے کالا لباس مسجد میں سہولت کے ساتھ داخل ہونے کے لئے پہنا ہوا تھا۔
جمعہ کے سانحہ پشاور کی رات گئے اسلامک اسٹیٹ خراسان، دولت اسلامیہ خراسان یعنی داعش نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے خودکش بمبار کی تصویر بھی جاری کردی، یہ دعویٰ یا اعتراف اپنی جگہ درست یا پھر سوشل میڈیا کی ایک سائٹ کے توسط سے توجہ بٹانے کی کوشش؟ یہ سوال اہم ہے۔
یہاں ساعت بھر کیلئے رُک کر یہ جان لیجے کے بعض عینی شاہدین کا دعویٰ ہے کہ" دہشت گرد ایک نہیں تھا ایک دہشت گرد کا تاثر مسجد کو جانے والے راستوں میں سے ایک سمت کی ویڈیو سے بنا جبکہ دہشت گردوں کی کل تعداد چار تھی خودکش بمبار کے علاوہ مسجد کے اندر دو دہشت گردوں نے فائرنگ کی اسی دوران بمبار نے خود کو اڑالیا جس کے بعد بھگدڑ کا فائدہ لے کر فائرنگ کرنے والے دودہشت گرد اپنے تیسرے ساتھی سمیت جو مسجد کے دروازے پر موجود تھا فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے"۔
یہ بھی جان لیجے کہ ایک نہیں چاروں دہشت گردوں نے کالے لباس پہن رکھے تھے، مطلب یہ ہوا کے خودکش بمبار کے باقی ساتھی دوسرے راستے سے مسجد تک پہنچے تھے، دہشت گردی کی حالیہ لہر میں سب سے زیادہ خیبر پختونخوا متاثر ہوا ہے۔ یوں کہہ لیجئے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب صوبے کے کسی علاقے میں کوئی افسوسناک سانحہ رونما نہ ہوتا ہو۔
گزشتہ 20، 22 برسوں کے دوران صوبہ خیبر پختونخوا اور بالخصوص پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ، ہنگو، پارا چنار، سوات وغیرہ دہشت گردی سے متاثر ہونے والےان شہروں میں شامل ہیں جس کے اگر کسی گھر سے جنازہ نہیں اٹھا تو جنازے والے گھر سے اس کا کوئی نہ کوئی رشتہ و تعلق ضرور رہا۔
سیاسی طور پر دیکھیں تو بیس بائیس سال سے جاری اس دہشت گردی میں اے این پی اور پیلپزپارٹی کے سینکڑوں کارکن اور رہنما اس دہشت گردی کا رزق بنے۔ اے این پی کے بشیر بلور اور ان کے صاحبزادے بھی دہشت گردی کا شکار ہوئے تھے۔
جمعہ کے روز ہونے والا خودکش حملہ اس اعتبار سے قیامت خیز رہا کہ بڑے عرصہ بعد اتنی بڑی تعداد میں شہری دہشت گردی کی واردات میں جان سے گئے۔ اس خودکش حملہ میں شہید ہونے والے چند معصوم پھول (بچے) بھی شامل ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ان شہید بچوں کی تصاویر دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہےویسے تو" داعش کی جانب سے اس سانحہ کی ذمہ داری قبول کرلئے جانے کے بعد ہمارے بہت سارے محکموں کا کام آسان ہوگیا ہے"۔
اب ہم بہت تسلی کے ساتھ ملکی سلامتی کے خلاف یہودوہنود کی عالمی سازش اور فیشنی امریکہ مخالفت کی کہانیاں بیچ سکتے ہیں۔ ایک کہانی کرکٹ کے میدانوں کے آباد ہونے والی بھی ہے دشمن ہمارے کھیل کے میدانوں میں رونق نہبں برداشت کرسکتا۔ دشمن کون وہی بھارت۔ معاف کیجئے ان میں سے بعض کہانیاں اور قصبے ہم پچھلے چالیس برسوں اور خصوصاً نائن الیون کے بعد سے سنتے چلے آرہے ہیں۔
جمعہ کے خودکش حملے کو دہشت گردی کی حالیہ لہر سے جوڑ کر دیکھنا ہے یا الگ کرکے یہ بنیادی سوال ہے۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر کے درجنوں واقعات کی ذمہ داری اس تنظیم نے قبول کی جس سے ہمارے "بڑے" چند ہفتے پہلے مذاکرات کررہے تھے۔ مذاکرات ناکام ہوئے اور دہشت گردی شروع ہوگئی۔ کہا جارہاہے کہ مذکورہ تنظیم نے جن 107 سے زیادہ افراد کی رہائی کی شرط رکھ کر مذاکرات کے لئے آمادگی ظاہر کی تھی ان کی رہائی کا عمل ایک ماہ میں مکمل کرنے کا وعدہ ہوا تھا۔
رہائی اور وعدہ یہ کہانی کا ایک رخ ہے دوسرا رخ یہ ہے کہ بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ "ملکی آئین منسوخ کرکے فوراً نفاذ شریعت کا اعلان کیا جائے"۔ ایک دستور اور اس کی اساس پر استوار نظام پر چلتی مملکت کے لئے کیسے ممکن تھا کہ اس مطالبے کو تسلیم کرلے اسی لئے مذاکرات ختم ہوگئے۔
وزیرداخلہ ہمیں پچھلے دو برسوں سے یہ باور کرارہے تھے کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات ہوسکتے ہیں بعض مواقع پر انہوں نے اپوزیشن کے اجتماعات کے لئے دہشت گردی کے خطرے کی باتیں بھی کیں۔ ڈیڑھ مہینہ قبل صوبوں سے کہا گیا تھا کہ پبلک اور مذہبی و عباداتی مقامات کی فول پروف سکیورٹی کا پلان وضع کیا جائے۔ صوبوں نے اس پر کتنا عمل کیا اور کیا سکیورٹی پلان وضع کیا اس کی وضاحت یقیناً متعلقہ حکام کو کرنی چاہیے۔
دہشت گردی کی حالیہ لہر کے ذمہ داروں کے تعین میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ افغان عبوری انتظامیہ کے چند ذمہ داروں کے بعض بیانات اور پاک افغان سرحد پر لگی باڑی کو کئی مقامات پر ہٹانے کے عمل میں افغانستان کی علاقائی انتظامیہ کے بڑوں کی موجودگی اور موقع پر ان کی تقاریر کے ساتھ اس رپورٹ کو جو دسمبر 2021ء میں شائع ہوئی، نظرانداز کرنا بہت مشکل ہے۔
خار دار تار ا تارنے کے واقعات کے دوران افغان انتظامیہ کے غیرذمہ دارانہ طرز عمل کی وجہ سے 5ہزار سے زائد افراد سرحد پار کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ کون لوگ تھے؟ اس سوال کا جواب خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پچھلے تین ماہ کے دوران مارنے اور گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کی شناخت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
افغان عبوری انتظامیہ کی ثالثی میں جن سے مذاکرات ہورہے تھے وہ بیل منڈھے نہ چڑھ پائی۔ بجا کہ داعش کا وجود حقیقت ہے۔ اسلامک سٹیٹ خراسان یعنی دولت اسلامیہ خراسان (داعش) بہرطور ایک حقیقت ہے اس کے اتحادیوں میں کئی مسلح جنگجو گروپس شامل ہیں ان میں بعض ہمارے ہاں کی کالعدم تنظیمیں بھی ہیں۔ داعش نے جس بمبار کی تصویر جاری کی ہے وہ غیرمقامی ہے کیا دعویٰ اور تصویر حقیقت ہیں ؟ یہاں ایک بات سمجھ لیجئے وہ یہ کہ پچھلے تین برسوں کے دوران داعش نے افغانستان کی مقامی آبادیوں کے جس طبقے کو سب سے زیادہ نشانہ بنایاوہ ہزارہ قبیلہ ہے۔
پاکستان میں جمعہ کے روز کوچہ رسالدار پشاور کی مسجد امامیہ میں ہونے والا خودکش حملہ دہشت گردی کی حالیہ لہر کے دوران کی اب تک کی سب سے بڑی کارروائی ہے۔ اس المناک سانحہ کے بعد ماضی کی روایتی کہانیوں، قصوں اور مذمتوں سے عوام کو بہلانے کی بجائے حقیقت پسندی سے کام لیاجانا چاہیے۔ جب ہم حقیقت پسندی کے مظاہرے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ ابتدائی تحقیقات کے بغیر لکھے پڑھے روایتی بیانات جاری کرنے سے عوام اور خصوصاً متاثرہ خاندانوں کوتکلیف پہنچتی ہے۔
اسی طرح حکمران انحاد کے حامیوں کا گزشتہ روز کے سانحہ کے حوالے سے حزب اختلاف کی تین جماعتوں پیپلزپارٹی، (ن) لیگ اور جمعیت علمائے اسلام کو دوش دینا بھی قطعی طور پر غلط ہے۔ بالفرض اگر اسے درست مان لیا جائے تو پھر اس سوال کا جواب کون دے گا کہ ماضی میں موجودہ حکمران اتحاد کے قائد یہ کہا کرتے تھے کہ ہم جب بھی حکومت کے خلاف عوام کو منظم کرتے ہیں دہشت گردی کی کوئی واردات ہوجاتی ہے۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ الزام تراشی سے نمک پاشی کی بجائے حکومت، ریاست اور محکموں کو اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دینا ہوگی اور حکمران اتحاد کے حامیوں کو بھی لفظوں سے آگ لگانے سے اجتناب برتنا ہوگا۔ یہ بات حیران کن ہے کہ آئی جی خیبر پختونخوا اور وفاقی وزیر داخلہ وغیرہ کہہ رہے ہیں کہ پیشگی اطلاعات نہیں تھیں۔ وزیراعظم کہہ رہے ہیں "دہشت گرد کہاں سے آئے تمام معلومات موجود ہیں۔ "جان کی امان حاصل ہو تو عرض کروں معلومات سانحہ کے بعد الہام ہوئیں یا پہلے سے؟ پہلے سے تھیں تو دہشت گردی روکنے کے لئے اقدامات کیوں نہ ہوئے۔
یہ بھی عرض کردوں کہ کالعدم عسکریت پسند ہو یا فرقہ واریت پھیلانے پر کالعدم قرار دی گئی تنظیمیں، انہیں مرکزی دھارے میں لانے والی باتیں سرابوں کا تعاقب ہیں جو ذہن بن چکے وہ بن گئے۔ ہمیں پورے سماجی ڈھانچے تعلیمی نصابی اور دوسرے امور کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔
جمعہ کے سانحہ پشاورمیں شہر کے دو بڑے خاندانوں شہید سید قمر عباس کے خاندان اور اخوندزادہ خاندان کا بھی بڑا نقصان ہوا۔ خون میں ڈوبے پھولوں کے شہر پشاور کے نوحوں سے ہر آنکھ پرنم ہے۔ اس وقت لوگوں کو قصوں کہانیوں، سازشی تھیوریوں سے بہلانے کی بجائے حقیقی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی ضرورت ہے۔